وہ بہت اچھی طوائف تھی


وہ مجھے بنکاک میں ملی تھی۔ میں ہوٹل سے باہر نکلا ہی تھا کہ ٹیکسی ڈرائیوروں نے مجھے گھیر لیا، ”لڑکی چاہیے، لڑکی۔ یو پاکستانی، مسلمان؟ مسلم لڑکی ایویل ایبل۔ آل کلین، نیشنل، میڈیکل سرٹیفکیٹ۔ باڈی مساج ساتھ میں۔ کلینک سیکس“ وغیرہ وغیرہ نجانے وہ لوگ کیا کیا بولتے رہے تھے۔ تیز تیز قدموں سے چل کر میں نے انہیں پیچھے چھوڑا۔ میں عیاشی ہی کرنے آیا تھا مگر اس وقت عیاشی کا پروگرام شروع کرنے کا وقت نہیں ہوا تھا۔ ابھی تو پاکستان سے مہمانوں نے آنا تھا۔ ان مہمانوں نے جن کے لیے یہ پورے ہفتے کا عیاشی کا پروگرام مجھے ہی بنانا تھا۔

میں بزنس مین تھا۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ ہر جگہ میرا بزنس تھا اور ہر قسم کے بزنس میں میرا عمل دخل۔ کبھی امپورٹ کبھی ایکسپورٹ، اِدھر کا مال اُدھر اور اُدھر کا مال اِدھر۔ چاول کے دھندے میں بھی لوہے کے کاروبار میں بھی۔ دوائیں منگوانی ہیں، چار پیسے کا فائدہ ہے تو خدمات حاضر ہیں۔ روئی بھجوانی ہے تو بھجواؤں گا۔ توپ منگانا ہے تو منگواؤں گا۔ گاڑیوں کے لائسنس اٹک گئے ہیں، وہ بھی کرتا ہوں۔

پی آئی اے میں سپلائی کے کام میں لفڑا ہوگیا ہے، اس کا حل بھی موجود ہے۔ شوگر فیکٹری لگانی ہے، اجازت نہیں ملتی ہے، دلاؤں گا۔ بلڈنگ گرانی ہے، گرجائے گی۔ چار منزل کے بجائے چودہ منزل بنانا ہے، بن جائے گا۔ ہر قسم کے کام میں میرا ہاتھ تھا۔ آج کل بزنس ایک چیز کا نہیں ہوتا ہے۔ وہ زمانہ چلا گیا جب کاروباری لوگ صرف کاروبار کرتے تھے۔ پرانے زمانے کے پرانے اصول ختم ہوچکے ہیں۔ اب اصول یہ ہے کہ کوئی اصول نہیں، اب گول ہوتا ہے، ٹارگٹ ہوتا ہے، گول سے آگے بڑھنا ہے وقت سے پہلے ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ یہی میں بھی کررہا تھا بڑی برکت تھی میرے کاروبار میں۔

ایک میرے باپ نے کاروبار کیا تھا۔ ساری زندگی لی مارکیٹ کی یک چھوٹی سی دکان میں چائے بیچتا رہا اور نمازیں پڑھتا رہا۔ ساری زندگی جتنے پیسے اس نے بنائے اس سے زیادہ حساب تو میں نے ایک جھٹکے میں اسٹیل مل کی ڈیل میں کرلیا تھا۔ بیلجیم سے تھرموریزسٹنٹ واشر چاہیے تھا۔ ایک دو خریدو تو آٹھ سو روپے کا ایک ملتا، زیادہ خریدو تو کم روپوں میں بھی مل جاتا۔ کریم بھائی والوں نے مجھ سے بات کی کہ انہوں نے اسٹیل مل کو سپلائی کرنا ہے مگر ادھر سپلائی میں کوئی خرانٹ بیٹھا ہے، الٹی سیدھی بات کرتا ہے۔ ہم سستا بھی دینے کو تیار ہیں اگر سو سے زیادہ خریدلیں لیکن مانتا نہیں ہے۔ بڑا ایماندار بن رہا ہے۔

میں نے کہا، بابا کسی وزیر وغیرہ سے بات کرتا ہوں، کام ہوجائے گا۔

کام ہوگیا تھا۔ اسٹیل مل والا خردماغ جو واشر آٹھ سو روپے میں نہیں خرید رہا تھا اس نے وہی واشر چار ہزار ایک سو کا ایک خریدا۔ ضرورت ہزار کی تھی میں نے دس ہزار خریدوا دیے۔ کریم بھائی والے تو بالکل پاگل ہوگئے۔ بھلا سب کا ہوا۔ بیلجیم والوں کے دس ہزار واشر بک گئے، کریم والوں کو صحیح سے بھی بڑا منافع ہوگیا، مجھے پورا پورا کمیشن ملا۔ میں نے وزیر کو اور وزیراعظم کی پارٹی کو بھی اچھی خاصی رقم پیش کی۔ اسٹیل مل والوں کے پاس بھی اتنے واشر جمع ہوگئے کہ پاکستان ٹوٹ کے دوبارہ بھی بن جائے گا تو بھی واشر ختم نہیں ہوں گے۔ کام ہو تو ایسا ہو۔ منافع ہو تو ایسا کہ لگے کہ منافع ہوا ہے۔ میرے کام کرنے کے اصول بہت سادہ تھے۔

میرے باپ کی نظر میں یہ بزنس نہیں تھا، چوری تھی۔ اب اُسے کون سمجھائے کہ دنیا بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ یہ کِٹ کِٹ بزنس کرنے کا ٹائم نہیں ہے بلکہ ٹائم ہے ہی نہیں، ٹائم پیسہ ہے۔ بابا پیسہ بناؤ، جتنا جلدی جتنا زیادہ بناؤ اتنا ہی اچھا ہے۔ جائز منافع ایمان داری کا کام یہ بے کار کی باتیں ہیں، کتابوں کی باتیں ہیں، پرانے زمانے کی باتیں ہیں۔ جب بزنس اونٹوں پہ ہوتا تھا اور قافلے چلتے تھے، اب سب کچھ ہوائی جہازوں پہ آتا جاتا ہے۔

اشرفی نہیں ملتی ہے۔ الیکٹرونک میل سے ڈالر روشنی سے بھی تیز سفر کرتا ہوا پہنچ جاتا ہے، وقت بدل گیا ہے حالات بدل گئے ہیں اپن کو بھی بدلنا ہوگا پر باپ نہیں مانا میرا سالا۔ اس کے کہنے میں چلتا تو ابھی بھی بیٹھا ہوتا لی مارکیٹ کے اسی کھوکھے میں۔ کسی بے وقوف پارسی کی طرح کسی چھوٹے موٹے بزنس میں خوش ہورہا ہوتا۔ جیسا میرا باپ خوش ہے اونہہ۔

اسے کھوکھوں کا شوق ہے کہتا ہے۔ پرانی بلڈنگیں، کوئی ہیری ٹیج میری ٹیج ہوتی ہیں۔ میں نے کراچی میں ایک ڈیل میں بڑا روپیہ بنایا۔ ڈیل بھی زمینوں اور بلڈنگوں کی تھی۔ کچھ کروڑ اپنے باپ کو بھی آفر کیے کہ بابا لی مارکیٹ کے اس کھوکھے والی بلڈنگ کو پورا خرید لو، اسے گرا کر ادھر اپنی بلڈنگ بناتے ہیں۔ مارکیٹ، آفس، شاپنگ سینٹر، پلازہ۔ وہ مجھے بتانے لگا یہ تو کراچی کی پروٹیکٹڈ بلڈنگ ہے اس کو کچھ نہیں کرنے کا ہے۔ کسی موتن داس پریتم لال کی بنائی ہوئی بلڈنگ اس کو اور ہیری ٹیج والوں کو اچھی لگتی ہوگی مجھے تو کچرا لگتا تھا۔ کچھ نہیں کرنے دیا اس نے۔ چیک بھی واپس کردیا۔ ابھی ایسے بڈھے کو کیا سمجھائے گا۔ یہ پیسے تو میں نے کراچی میں ہی بنائے تھے۔

ایک بڑا بلڈر ہے، بہت بڑا۔ اس سے کروڑوں کی ڈیل کی تھی میں نے۔ کام بھی کوئی ایسا بڑا نہیں تھا۔ کراچی کی کچھ پرانی بلڈنگیں تھیں، کچھ کنٹونمنٹ بورڈ کے تحت، کچھ سندھ گورنمنٹ کے پاس۔ ان کو صرف کمرشل بنانا تھا۔ میں نے بولا، ابھی کراچی میں وزیراعلیٰ کے آفس میں چکر لگانے کا نہیں ہے۔ سیدھا اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس میں خاص آدمی کو ڈالروں سے بھرا ہوا خاص تھیلا دینا ہے پھر سب کچھ ہفتے بھر میں ہوگیا۔

ابھی اتنے بڑے بڑے مال بن گئے ہیں۔ کروڑوں کا بزنس ہوتا ہے۔ ادھر سب کا بھلا ہوگیا ہے۔ کسی پارسی عورت کی بلڈنگ تھی تو کوئی ہندوؤں کا مندر تھا۔ ایک جگہ تو سالے یہودیوں کی تھی۔ میرے باپ کو ان کی فکر پڑی تھی۔ ان لوگوں کا بس چلے تو کراچی میں تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ وہ تو وزیراعظم والوں کی بات سمجھ میں آگئی تو کام ہوگیا۔ لفڑا ڈالا تھا شہری والوں نے۔ بڑے حرامی ہیں سالے، پتا نہیں لگتا کس چکر میں ہیں، پر اپنا میمن سیٹھ ان سے بھی بڑا حرامی ہے، مجھے اس نے کہا تو وزیراعظم والوں کو سیٹ رکھ، میں کورٹ والوں کو فٹ رکھوں گا۔ پورا فٹ رکھا اس نے۔ ہر ڈیل پہ اسٹے آرڈر، ہر کیس ایسے کورٹ میں جس کا جج اس کے جیب میں تھا۔ ایسے کام کا مزہ ہے۔ وہ سالے شہری کے بڈھے شہری کے آفس میں ہی رہ گئے۔ اپنا کام پورا ہوگیا۔

وہ تو حکومت ہی چلی گئی، اپنے پاس توایک پلان اور تھا۔ جناح کے قبر کے چاروں طرف بڑا بڑا پلازہ بالکل قبر کا اسٹائل میں۔ اوپر سے کوئی دیکھے تو لگے جیسے بہت سارے گولے ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہیں اور سائڈ میں بابے کی قبر بھی۔ کیا نقشہ بنایا تھا دادا بھائی نے مگر سالی حکومت ہی چلی گئی۔

مگر حکومت کے جانے سے پہلے میں نے ایک اور بڑی ڈیل بھی کرا دی تھی۔ یورپ اور امریکا سے کچھ پرانی ایم آر آئی کی مشینیں آنی تھیں۔ یہ مشینیں ہسپتال کے لیے ہوتی ہیں۔ ایکسرے مشین کی بھی باپ۔ چھ کروڑ سات کروڑ قیمت میں نئی مل جائے۔ چاہیے تھا پنجاب کے صحت کے محکمہ کو۔ میں نے اس دفعہ وزیراعلیٰ کے آفس سے کام کرایا۔ مجھے ذرا کم پیسے ملے کیوں کہ صحت کے وزیر نے میرے کمیشن میں سے تھوڑا اپنا بھی الیکشن فنڈ نکال لیا۔ میں نے بھی دے دیا، بابا کام تو چلانا ہے، دھندے میں رہنا ہے۔ یہ جمہوری لوگ ہیں ابھی چوری میں پکڑے جائیں گے تو کل وزیراعظم نہیں ہوں گے تو وزیر تو ہوں گے ہی؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4