قبائلی اضلاع میں الیکشن مہم اور سیاست دانوں کی زبان درازیاں


قبائلی اضلاع میں پہلی بار منعقد ہونے والے صوبائی الیکشن 2019 کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ مین شاہراہوں پر بڑے بڑے فلیکس بورڈ آویزاں ہوچکے ہیں۔ جوڑ توڑ کی کوششیں بڑی تیزی سے جاری ہیں۔ دیرینہ رفاقتیں رقابتوں میں تبدیل ہورہی ہیں تو شدید رقابتیں نئی محبتوں کا روپ دھار رہی ہیں۔ مدتوں سے ہمارے نظام سیاست پر مسلط وہی چہرے جو موسموں کے بدلتے ہوئے تیور اور ہواؤں کا رخ بھانپ کر ہمدردیاں بدلتے ہیں، شاید یہ اس نظام کی مجبوری ہیں جو ایک بار پھر یہاں سے وہاں منتقل ہورہے ہیں۔

زبان کسی بھی معاشرے کی پہچان ہوتی ہے اور لوگ اپنی زبان سے پہچانے جاتے ہیں یہاں تک کہ زبان آپ کی سالمیت تک کے لیے بہت ضروری ہے۔ اچھی زبان اعلی قدروقیمت کی حامل ہوتی ہے، لوگ کے بولنے کا انذار اور الفاظ کا چناؤ ان کی پہچان بن جاتا ہے۔ اچھے لوگ اور باوقار لوگ اپنی گفتگو کے معیار کو بھی اچھا رکھتے ہیں وہ خوشگفتار ہوتے ہیں۔ وہ اچھا بولتے ہیں اور معیاری الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ زبان کے استعمال سے آپ کافی حد تک بتا سکتے ہیں کہ فلاں بندہ کیسا ہے اور ان کے طور طریقے کیسے ہیں یا ان کا اخلاقیات کا معیار کیسا ہے۔

اچھی زبان اچھے کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔ خاص طور پر جب آپ اپنے لیڈروں کی بات کرتے ہو تو انہیں تو اس معاملے میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو آپ کی پوری دنیا میں نمائندگی کرتے ہیں اور آپ کے کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر جب یہی لوگ ایسی زبان استعمال کرنا شروع کر دیں کہ جسے سن کر آپ کو شرم آ جاتی ہے مگر بولنے والوں کو فرق نہیں پڑتا۔ باجوڑ میں صوبائی الیکشن کے کمپین کے آغاز پر ہی ایک معروف سیاستدان نے اپنے مخالف سیاستدان کو بُت فروش کہا اور بہت ساری غلاظتوں کو اظہار کیا جس کے بعد اس پارٹی کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے مذکورہ سیاستدان کے عزتوں کا جنازہ نکالا۔

اس پر الزامات لگائیں جسے سن کر شریف انسان کا سر شرم سے جھک جائے۔ دریں اثناء حلقہ پی کے 102 سے اے این پی کے نامزد امیدوار شیخ جہانزادہ جو کہ ایک معتبر اور اعلیٰ اخلاق کے حامل شریف سیاستدان ہیں۔ برخلوزو ماموند میں ان کے پوسٹروں پر گندگی ملی گئی۔ جس پر ان کے پارٹی کے سنیئر رہنماؤں حاجی نورخان درانی، ملک ضیاء الاسلام، سید صدیق اکبر اور دیگر نے شدید غصے کا اظہار کیا۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایک دور تھا کہ سیاسی جماعتوں میں چاہے کتنے بھی اختلافات ہوتے اور وہ اپنے بیانات میں ایک دوسرے کی سیاسی پالیسیوں پر کھل کر اعتراضات کرتے تھے مگر ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ کرنے سے گریز کرتے، جس کا یہ فائدہ ہوتا کہ وہ دکھ سکھ کے موقعوں پر اکٹھے دکھتے اور یہ بات ملک اور قوم کے لئے اچھی تھی۔

سوشل میڈیا کے شتر بے مہار نے ہماری عزتوں سے کھلواڑ شروع کردیا ہے، الیکشن ڈیوٹی کے باعث میں سوشل میڈیا کو آج کل کم وقت دیتا ہوں، گذشتہ روز دفتری مصروفیات سے فارغ ہوکر میں سوشل میڈیا میں داخل ہوا تو دو ویڈیوز نظر سے گزری جن میں سے ایک جماعت اسلامی حلقہ پی کے 102 کے نامزد امیدوار سراج الدین خان اور دوسری تحصیل ماموند کے ایک بڑے قبائلی سردار ملک محمد آیاز ماموند کی تھی، ویڈیوز میں نہایت قبیح ایڈیٹنگ کی گئی تھی اور ان کی نہایت بے عزتی کی گئی تھی جسے دیکھ کر مجھے شدید افسوس ہوا۔

ان واقعات کے اضافے میں ایک بڑا سبب سوشل میڈیا کا طوفان بھی ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں جہاں ہمارے پاس بے پناہ آزادی آئی ہے کہ ہم کھل کر رائے کا اظہار کر سکتے ہیں وہاں ہی بد تہذیبی بھی بڑھ گئی ہے۔ ایک طرف تو لوگ بھی اس طرح کی زبان اور الفاظ کا استعمال کھلے عام کرنا شروع ہوگئے ہیں جس سے ہمارا کلچر مجروح ہو رہا ہے اور ہماری تہذیب کی دھجیاں اڑا رہی ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ہمارے لیڈر کس قدر سیاست کی بنیادی تربیت سے محروم ہیں، اور ہمیں سیاسی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔

کیا ہماری تقاریر ذاتیات پر حملے کیے بغیر نہیں ہوسکتی ہیں، اس دوسرے کی عزت اچھالے بغیر ہمارا گزارا ممکن نہیں۔ پتہ نہیں ہم کیوں بھو ل جاتے ہیں کہ یہ بدتمیزی ہماری ذات سے شروع ہو کر ہماری ذات پر ہی ختم ہوتی ہے۔ اللہ ہی رحم کرے ہمارے حال پر اور اللہ کرے یہ الیکشن بخیر و عافیت اپنے اختتام کو پہنچائیں۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).