ڈاکٹر الہداد ’عاصم‘ بوہیو۔ علم و عمل کے مُجسّم، قلمکار اور تعلیمدان



اشفاق احمد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ”ڈگریاں در حقیقت، تعلیمی اخراجات کی رسیدیں ہیں۔ ورنہ علم تو وہی ہے، جو انسان کے عمل سے ظاہر ہو“۔ اس بے حد سچّے قول پر پُوری اُترنے والی شخصیات میں سے اِس سرزمین سے پیدا ہونے والے جواہرِ یکتا میں سے سندھی زبان و اکمّلدب کے عظیم خدمتگذار، نامور مُحقق، نقاد، ماہرِتعلیم، ماہرِ لسانیات اور کامیاب تعلیمی مُنتظم، ڈاکٹر الہداد بوہیو بھی ایک ہیں، جن کو 16 جولائی کو ہم سے بچھڑے 25 برس  ہوئے۔

ڈاکٹر الہداد بوہیو، علم و ادب کے حوالے سے سندھ کے انتہائی زرخیز ضلع لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے قصبے ’پَکھو‘ کے قریب ’گھوگھارو‘ نامی گاؤں میں 8 اگست 1934 ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان اُن کی ولادت کے کچھ عرصے بعد ہی، اُسی نواح ہی میں واقع، ’پیچُوہا گوٹھ‘ نامی گاؤں میں منتقل ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں اور اُس کے آسپاس سے حاصل کرنے کے بعد، میٹرک کا امتحان 1949 ء میں، نصیرآباد شہر میں قائم ہائی اسکُول، اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان، 1951 ء میں ہالہ شہر میں قائم، سروری کالج سے نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔

اُنہوں نے جامعہ سندھ جامشورو سے ایم۔ اے۔ کا امتحان پاس کرنے کے بعد، بی۔ ٹی۔ کی سند حاصل کی اور محکمہء تعلیم سے وابستہ ہوگئے، جہاں مختلف اداروں میں اُستاد کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے، تعلیمی مُنتظم کے طور پر اپنی خداداد خوبیوں کی بدولت، ڈئریکٹر ایجُوکیشن کے عہدے تک پہنچے اور اپنی دیانتداری، فرض شناسی اور تعلیم سے مُحبّت کے جذبے کی بدولت ایک مثالی حیثیت پائی۔ وہ اپنی تمام زندگی علم و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ، تعلیم کی ترویج اور شعوروآگہی کی ضو کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں مصروف رہے۔

دُوسروں تک علم و عمل کی روشنی پہنچانے کے کارِ افضل کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اپنے علم کے حصُول کا سلسلہ بھی جاری رکھا، اور علم و ادب کے طالب العلم کی حیثیت سے، 1977 ء میں یونیورسٹی آف سندھ جامشورو سے، نامور محقق اور عالم، ڈاکٹر غلام علی الّانا کی زیرِنگرانی، ’سندھی بولیء جو سماجی کارج‘ (سندھی زبان کا سماجی اطلاق و حیثیت) کے موضوع پر سندھی ادب میں ڈاکٹوریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس طرح ’سماجی لسانیات‘ (سوشیو لنگئسٹکس) میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرے والے، ڈاکٹر بوہیو صاحب سندھ کے پہلے عالِم تھے۔

ڈاکٹر الہداد بوہیو نے ادب کی دُنیا میں قدم 1950 ء میں 16 برس کی عمر میں رکھا۔ وہ بنیادی طور پر شاعری کے ذریعے ’عاصم‘ کا تخلّص اختیار کر کے اپنا اظہار کرنے اور لکھنے لگے۔ بعد ازاں انہُوں نے تحقیق کی طرف بھی رجُوع کیا اور اس شعبے میں ملکہ حاصل کیا۔ ادب میں تنقید کے ساتھ ساتھ، تحقیق، بالخصُوص لسانیات کے موضوع پر تحقیق ان کا محبُوب ترین موضوع رہا، جس شعبے میں آپ کے قلمی کارنامے آنے والے ادوار تک یاد رکھے جائیں گے۔

ادبی تنقید اور لسانیات اُن کی قلمی خدمات کے سب سے درخشاں حوالے ہیں۔ ڈاکٹر بوہیو صاحب کی طبع شُدہ تصنیفات کی تعداد 15 ہے، جن میں سے 13 تصانیف سندھی میں، ایک اردُو، جبکہ ایک انگریزی زبان میں ہے۔ اِن کتب میں ( 1 ) ’تنقیدُوں‘ (طبع: 1980 ء) ، ( 2 ) ’ادب جا فکری مُحرک‘ [ادب کے فکری مُحرکات] (طبع: 1984 ء) ، ( 3 ) ’بوہیے جُوں تحریرُوں‘ [بوہیو کی تحریریں ] (طبع: 1994 ء) ، ( 4 ) ’Tales Retold‘ [دوبارہ کہی گئی کہانیاں۔

انگریزی]، ( 5 ) ’چھند ودیا‘ ، ( 6 ) ’آئین (تاریخ اور پبلک پالیسی) ‘ ، ( 7 ) ’کتب خانو‘ ، ( 8 ) ’سماجی تبدیلیء جی رتھابندی‘ [سماجی تبدیلی کی منصُوبہ بندی]، ( 9 ) ’سنؤں سِدھو رستو‘ [سیدھا سادہ رستہ] (ناول) ، ( 10 ) ’بولی ائیں بولیء جی تعلیم‘ [زبان اور تعلیمِ زبان]، ( 11 ) ’چُونڈے کَنو کَنو‘ [چُن کر دانہ دانہ] (شاعری) ، ( 12 ) ’ارسطُو کھاں رُوسو تائیں‘ [ارسطُوسے رُوسو تک]، ( 13 ) ’تعلیم اور معاشرتی تقاضے (اردُو) ، ( 14 ) ‘ ادب جی مُختصر تاریخ ’[ادب کی مُختصر تاریخ] اور ( 15 ) ‘ علمِ تحقیق ’ (شایع : 1990 ء) شامل ہیں۔

ان تصانیف کے علاوہ ڈاکٹر بوہیو نے مُختلف اسٹیج ڈرامے بھی تحریر کیے، جو اُس دور میں مختلف اسکولوں، کالجوں کے اسٹیجز سمیت عام لوگوں کے لئے بھی پیش کیے گئے، اُن ڈراموں میں ’نُوری جام تماچی‘ ، ’امرتا‘ ، ’گورہین جو قرض‘ اور ’صبح تھی نہ سگھندو‘ (صبح نہیں ہو سکے گی) وغیرہ نمایاں ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر الہداد نے لوک کہانیوں کے انداز میں کچھ کہانیاں بھی تحریر کیں، جن میں ’کینجھرکیئں تھی گالہائے‘ (کینجھر کیسے بول رہی ہے ) ، ’مُنصف شاہ‘ اور ’وکیل ائیں جوانیء جو موت‘ (وکیل اور جوانی کی موت) خصُوصی اہمیت کے حامل افسانے ہیں۔

اُن کے تحریر شدہ کچھ مقبُول مضامین میں ’شعر جے ابھیاس جا نواں طریقا‘ (شاعری کے مطالعے کے جدید طریقے ) ، ’سندھ میں ڈوہن جو سماجی پسمنظر‘ (سندھ میں جرائم کا سماجی پسمنظر) اور ’جمہوریت جی واٹ میں‘ (سرِراہِ جمہُوریت) وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے لاتعداد مضامین، مقالے اور دیگر نگارشات، سندھی زبان کے مشہور رسائل و جرائد میں شایع ہوتے رہے۔ سندھی لینگئیج اتھارٹی حیدرآباد کی جانب سے اُن کے لسانیات کے حوالے سے مقالہ جات کو چند برس قبل یکجاء کر کے شایع کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر الہداد بوہیو، مایہء ناز محقق، نقاد اور مُنتظم کے ساتھ ساتھ ایک شعلہ بیاں مُقرّر بھی تھے۔ اُن کی تقاریر محافل میں سماں باندھ دیتی تھیں اور وہ اپنی بات، حاضرین کی سطح کے عین مُطابق مُختصر اور جامع انداز میں کہنے کا ہُنر خُوب جانتے تھے۔ علم و ادب کے اس مجاہد اور سچّے، کارکُن، ڈاکٹر بوہیو صاحب نے اپنی آخری سانسیں بھی تعلیم کے موضوع پر حاضرین سے مُخاطب ہوتے ہوئے لِیں، جب وہ 16 جولائی 1994 ء کو، ضلع سانگھڑ کے مشہُور شہر ٹنڈوآدم میں ایک تعلیمی سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔

اُن کے آخری الفاظ یہ تھے، جو اُنہوں نے یہی خطاب کرتے ہوئے فرمائے : ”میں نے اس قوم کو ہتھیار نہیں، بلکہ کتاب دی ہے۔ اور میں اس قوم کے لئے دعا۔ “ اُن کا قوم کے لئے دعاگو رہنے والا یہ جملہ تو پُورا ادا نہ ہو سکا اوروہ اچانک سے دل کا دورہ پڑنے کے باعث اُسی اسٹیج پر، اپنی جان، خالقِ حقیقی کے حوالے کر چُکے، مگر اُن کی قوم کے لئے یہ دُعا قبوُلیت کا درجہ ضرُور حاصل کر چُکی ہوگی۔ اُنہیں، لاڑکانہ کے قریب ’وگن‘ نامی شہر کے نواح میں واقع قصبے ’یارودیرو‘ میں اپنے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

ڈاکٹر الہداد بوہیو سندھی زبان و علم و ادب کے وہ خُوشبُودار پھُول ہیں، جن کے علمی اور قلمی کارناموں کی خوشبُو، سندھی تحقیق و تنقید و ادب کو ہمیشہ اپنی نَکہت سے مہکاتی رہے گی۔ ضرُورت اس بات کی ہے، کہ ہمارے ادارے ڈاکٹر الہداد بوہیو کے تحقیقی اور تنقیدی کام کو ازسرِنو شایع کرنے کا اہتمام کرکے نئی نسل تک پہنچائیں اور اُن کے تمام مواد کو ڈجیٹل انداز میں، آن لائن مُہیّا کرکے، نہ صرف دنیا تک پہنچائیں، بلکہ آنے والے ادوار کے مُحققین تک پہنچانے کے لئے بھی ہمیشہ کے لئے محفُوظ کرکے، اُسے دوام بخشیں، جو اُن کے کام کا حق بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).