اب شہباز صاحب جانیں اور ’’دی میل‘‘


چسکے کی طلب میں دیوانہ ہوئے لوگوں کو تلاش تو اس وڈیو کی تھی جو غالباََ2004 میں چوری چھپے بنائی گئی۔ ملتان میں ایک ’’محفل‘‘ تھی۔اس ’’محفل‘‘ میں لیکن ایک سیشن جج سے ’’غیر اخلاقی‘‘ حرکت سرزد ہوگئی۔ مذکورہ حرکت اس حد تک سنگین تھی کہ اس کے مرتکب ہوئے ملک صاحب 2019 تک بلیک میل ہوتے رہے۔ لمحے کی خطا کا پندرہ سال تک خمیازہ بھگتنا پڑا۔ پندرہ برس تک بلیک میل ہوئے شخص کی پریشانی کو دردِ دل کے ساتھ سمجھنے کو لیکن کوئی تیار نہیں۔

مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی چھوٹی مگر کمینی سی خواہش تو اتنی تھی کہ ملتان میں بنی وڈیو کسی طرح منظرعام پر آجائے۔ ہمیں پتہ تو چلے کہ ایک ’’محفل‘‘ میں ہوئی ’’غیر اخلاقی‘‘ حرکت تھی کیا۔ہماری اس خواہش کو بھلانے کے لئے لندن کے سکینڈل فروش ’’دی میل‘‘ نے اتوار کے دن ایک داستان شائع کردی ہے۔ دعویٰ اس میں یہ ہوا کہ شہباز شریف اور ان کا خاندان برطانیہ کی جانب سے زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے آئی خیراتی رقم کو اپنے کاروبار چمکانے کے لئے خرچ کرتا رہا۔

برطانوی ادارے نے اگرچہ اس خبر کی تردید کردی ہے۔شہباز صاحب نے ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا ہے کہ وہ مذکورہ اخبار پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کریں گے۔ خبردینے والا اپنی بات پرڈٹ گیا ہے۔اب شہباز صاحب جانیں اور ’’دی میل‘‘۔وزیر اعظم کی معاونِ خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے اتوار کے روز انکشاف کیا ہے کہ شریف خاندان اپنی کرپشن چھپانے کے لئے اس ملک کے اخبار نویسوں کو استعمال کرنے کا عادی ہے۔

اگست 2018سے قائم ہوئی صاف ستھری حکومت نے مگر سرکاری خزانے سے بکائو صحافیوں کو لفافے بھجوانے بند کردئیے ہیں۔ لفافوں سے محروم ہوئے صحافی اب اس ملک میں آزادیٔ اظہارکے فقدان کا الزام لگارہے ہیں۔ ’’دی میل‘‘ کی سنائی داستان کے بارے میں پیشہ وارانہ تقاضوں کے عین مطابق ایماندارانہ سوالات اٹھانے والے صحافی لہذا ’’لفافے‘‘ شمار ہوسکتے ہیں۔ شہباز صاحب ویسے بھی اللہ کے کرم سے ایک بہت ہی خوش حال شخص ہیں۔ برطانیہ کے مہنگے ترین وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں ’’دی میل‘‘ کے ساتھ کیسے نبردآزما ہوتے ہیں۔

کئی برسوں تک دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے ذاتی طورپر مجھے شہباز صاحب کی داستان لکھنے والے صحافی پر رشک آیا۔ وہ نیب کی حراست میں موجود اعترافی بیان دینے والے ملزم سے ملاقات کرسکتا ہے۔ یہ سہولت ہم بدنصیبوں کو میسر نہیں۔نواز شریف سے فقط ان کے ’’خونی رشتے‘‘ والے خواتین وحضرات ہفتے میں صرف ایک دن چند گھنٹوں کو مل سکتے ہیں۔آصف علی زرداری قومی اسمبلی کارکن ہونے کی وجہ سے پروڈکشن آرڈر کی بدولت بجٹ اجلاس میں آئے تو حامد میر نے ان کا انٹرویو ریکارڈکیا۔

یہ انٹرویو مگر نشر نہیں ہوپایا کیونکہ ’’مہذب ملکوں‘‘ میں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو میڈیا کے ذریعے بھاشن دینے کی اجازت نہیں دی جاتی۔شاید اپنے مبینہ گناہوں کا کیمرے کے سامنے اعتراف کرنے کو آصف علی زرداری تیار ہوجائیں تو نیب کی حراست میں ان کا انٹرویو اب بھی ممکن ہے۔ ممکنہ انٹرویو لیکن کوئی گوری چمڑی والا کرنے کا خواہش مند ہوتو رونق لگ جائے گی۔

’’دی میل‘‘ کی رسائی تو ویسے بھی قابل رشک ہے۔ حال ہی میں اس نے واشنگٹن میں برطانیہ کے لگائے سفیر کی لکھی ان رپورٹس تک رسائی حاصل کرلی جو اس نے اپنی حکومت کو ٹرمپ انتظامیہ کے اندازِ کار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھی تھیں۔ ایسی رپورٹس انتہائی خفیہ اور ’’حساس‘‘ تصور ہوتی ہیں۔’’دی میل‘‘ کو مگر لیک ہوگئیں۔ برطانوی سفیر نے ٹرمپ کے White House کو Dysfunctional کہا۔

دعویٰ کیا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ امریکی انتظامیہ پر چھائی افراتفری کے ماحول میں کس کی ماں کو پنجابی محاورے والی ’’ماسی‘‘ کہا جائے۔برطانوی سفیر کا اپنی حکومت کے لے لکھا تجزیہ ’’دی میل‘‘ میں چھپا تو ٹرمپ تلملااُٹھا۔ ٹویٹس کے ذریعے برطانوی سفیر کو بُرابھلا کہنا شروع ہوگیا۔ اسے Pompous Foolبھی کہا۔ بے چارے سفیر نے گھبراکر استعفیٰ دے دیا۔ اس کا استعفیٰ ’’دُکھی دل‘‘ کے ساتھ قبول کرلیا گیا ہے۔

برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر آنا ہے۔Brexitہوجانے کے بعد وہاں کی اشرافیہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید ’’خصوصی‘‘ بنانا چاہ رہی ہے۔ ٹرمپ کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی۔ ٹرمپ کو اُمید ہے کہ جلد ہی نظریاتی اعتبار سے اس کا تقریباََ ’’جڑواں‘‘ بھائی دِکھتا اور سنائی دیتا بورس جانسن برطانیہ کا وزیر اعظم منتخب ہوجائے گا۔جانسن نے برطانوی سفیر کا دفاع کرنے سے انکار کردیا حالانکہ وہ اپنے ملک کا انتہائی قابل سفارت کار شمار ہوتا تھا۔

برطانوی وزیر خارجہ بھی سوائے لفظی ہمدردی کے اپنے سفارت کار کی مدد نہ کرپایا۔ وہ ’’ایمپائر‘‘ جہاں کبھی سورج بھی غروب نہیں ہوتا تھا اب ٹرمپ کی چاپلوسی کو مجبور ہے۔ ہم پاکستانی مگر اب بھی برطانیہ کا دل سے احترام کرتے ہیں۔وہاں کے صحافی کو نیب کی حراست میں موجود ملزموں تک رسائی دیتے ہیں۔پھکڑپن سے ایک لمحے کو نجات پانے کی کوشش کرتے ہوئے اگرچہ آپ کو یاد دلانا ضروری ہے کہ ’’دی میل‘‘ برطانیہ کے نسل پرستوں کا حقیقی ترجمان ہے۔

Brexit کو کامیاب بنانے کی مہم میں پیش پیش رہا۔ اس کے صفحات اکثر ایسی کہانیوں سے بھرے ہوتے ہیں جن کے ذریعے قارئین کو یہ بتانے کی کوشش ہوتی ہے کہ انگلستان میں بسے پاکستانی اور دیگر مسلمان ’’برطانوی ثقافت‘‘ کو تباہ کررہے ہیں۔ اچھے بھلے ’’خوش حال‘‘ ہوتے ہوئے بھی برطانوی سوشل سکیورٹی کے نظام سے بیروزگاری الائونس لیتے ہیں۔ وہ محلے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں مساجد اور مدرسوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہاں کے امام اور مدرس ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کو فروغ دیتے ہیں۔داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کے لئے رضاکار تیار کرتے ہیں۔

اندھی نفرت پر مبنی تعصبات کو فروغ دیتے ہوئے ’’دی میل‘‘ جیسے اخبارات عرصے سے برطانوی ٹیکس گزاروں سے جمع ہوئی رقوم کے ذریعے پاکستان جیسے ممالک میں ’’غریبوں کی امداد‘‘ والے منصوبوں پر بھی سوالات اٹھارہے ہیں۔ نسل پرستوں کا دعویٰ ہے کہ برطانیہ کے امدادی اداروں کی مہیا کردہ رقوم حق داروں تک نہیں پہنچتیں۔

اتوار کے روز ’’دی میل‘‘ میں جو داستان چھپی ہے وہ اس دعویٰ کو ’’’برحق‘‘ ثابت کرنے کا ’’ٹھوس مواد‘‘ پہنچاتی ہے۔میرے ملک میں اگر خدانخواستہ زلزلے یا سیلاب ایسی کوئی آفت آئی تو برطانیہ کے خیراتی اداروں کو ان کی زد میں آئے لوگوں کی مدد کرنے سے قبل سوبار سوچنا ہوگا۔ فرض کیا شہباز صاحب طویل عدالتی عمل کی بدولت اپنے بارے میں چھپی داستان کو جھوٹاثابت کرنے میں کامیاب ہوبھی گئے تو انگریزی محاورے والا Damage ہوچکا ہے۔اس کی تلافی ممکن نہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).