سراب کا مستقبل تخلیق۔ سگمنڈ فرائڈ


دسواں باب۔ سراب کا مستقبل

گفتگو کے اس موڑ پر معترض کہہ سکتا ہے۔

”آپ ایک ایسے معاشرے کی امید لگائے بیٹھے ہیں، جس میں لوگ سرابوں سے جی نہ بہلائیں گے اور مذہبی عقائد کو ترک کر کے عقل و دانش سے اپنی زندگی کے فیصلے کریں گے۔ میری نگاہ میں آپ خود ایک سراب کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اگر آپ خود عقل سے کام لیتے تو ایسی امیدوں سے دستبردار ہوجاتے۔ آپ کی امیدیں آپ کی اپنی خواہشوں کی شدت کی عکاسی کرتی ہیں۔ آپ کو یہ خوش گمانی ہے کہ ہم انسانی معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کر سکیں گے، جہاں نسل در نسل بچے مذہبی عقائد کے سائے میں پرورش نہ پائیں گے اور جوان ہو کر اپنی جبلتوں اور خواہشات کی بجائے عقل، منطق اورفہم و فراست کو اپنا رہنما بنائیں گے۔

میری نگا ہ میں یہ بھی ایک سراب ہے کیونکہ انسانی فطرت کو بدلنے کی امید رکھنا، خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر ہم ان قوموں کا مطالعہ کریں جہاں خدا کے تصور کا کوئی وجود نہیں، وہاں بھی لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ اگر آپ یورپی تہذیب سے مذہبی نظام کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی اور نظام کا سہارا لینا پڑے گا اور آپ حیران ہوں گے کہ وہ نظام بھی مذہبی نظام کی خصوصیات اختیار کرنا شروع کردے گا کیونکہ مذہبی نظام کی خصوصیات عوام کی نفسیاتی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ نیا نظام بھی مذہبی نظام کی طرح لوگوں کی سوچ، جذبات اور زندگیوں پر پابندیاں لگائے گا تاکہ وہ نظام خوش اسلوبی سے چل سکے۔

آپ اس حقیقت کو تو مانتے ہیں کہ ایک صحتمند معاشرے کے قیام کے لئے انسانوں کی تعلیم و تربیت نہایت ضروری ہے۔ اگر بچوں کی صحیح خطوط پر پرورش نہ کی گئی تو ان میں سے اکثریت گمراہی کا راستہ اختیار کرلے گی۔ مذہبی نظام اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انسانی زندگیوں اور ذہنوں کوخاص انداز میں ڈھالتا ہے تاکہ وہ جوان ہو کر ایک ذمہ دار شہری کی ذمہ داریاں قبول کرسکیں۔

انسان بچپن میں اپنا برا بھلا نہیں جانتا۔ وہ اپنی خواہشوں اور جبلتوں پر عمل کر تاہے اس کا ذہن اتنا تربیت یافتہ نہیں ہوتا کہ وہ زندگی کے مسائل کا معروضی انداز میں جائزہ لے سکے۔ انسان کو بچپن کے چند سالوں میں انسانیت کے ہزاروں سالوں کے اسباق سیکھنے ہوتے ہیں اوراسی تعلیم و تربیت اور پرورش میں اس کے بزرگ اس کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اس پرورش میں جذباتی محرکات عقلی محرکات کی نسبت زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

میرے خیال میں مذہبی عقائد کے نظام کے دفاع میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس نظام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعلیم و تربیت اور ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چونکہ ہمیں بچوں کی تربیت کے لئے انہیں ایک نظام سے متعارف کرانا ضروری ہے، اس لئے میرے خیال میں مذہبی نظام باقی نظاموں سے بہتر ہے اور اگر اس نظام سے انسان کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں تو اس میں خرابی کی کیا بات ہے۔ جس حقیقت کی تلاش کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ نجانے انسان کی بساط میں ہے بھی کہ نہیں، چاہے وہ کوئی بھی نظام اختیار کیوں نہ کرے۔

مذہب کا وہ پہلو جو میری نگاہ میں اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہ وحشی انسان کو مہذب انسان بنانے کی کوشش کرتا ہے اور ایسے نظریات بھی پیش کرتا ہے، جن کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر سائنس ان کی تائید نہیں کرتی تو ان کی تردید بھی نہیں کرتی۔ ایسے نظریات عوام اور خواص کے درمیان ایک پل کا کام کر سکتے ہیں۔ اگر اصحابِ فکر و نظر مذہب کے ان حصوں کو قبول کرلیں تو اس سے عوام میں خبر نہیں پھیلے گی کہ خواص نے ”خدا پر ایمان لانا چھوڑ دیا ہے۔ “

میر ے خیال میں آپ کی ایک ایسے نظام کو جو صدیوں سے چلتا آرہا ہے اور لوگوں کو جذباتی تسکین فراہم کر تا ہے، ایک ایسے نظام سے بدلنے کی خواہش جس کی نہ تو افادیت ثابت ہوپائی ہے اور نہ ہی وہ جذباتی تسکین فراہم کرتا ہے، بذاتِ خود ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ ”

ان اعتراضات کے جواب میں، میں معترض سے کہوں گا کہ مجھے، آپ کے اعتراضات پر سنجیدیگی سے غور کرنا ہوگاکیونکہ عین ممکن ہے کہ میں بھی ایک سراب کا پیچھا کر رہا ہوں۔ لیکن آپ کے رویے اور میرے رویے میں ایک بنیادی فرق ہے۔

میرے سراب کو اگر کوئی نہ مانے تو مذہبی عقائد کے سراب کی طرح اس پر کوئی سزا لازم نہیں آتی۔ دوسرے یہ کہ میرے نظریات میں کوئی دعویٰ نہیں کہ وہ حتمی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ میرے نظریات سائنسی نقطہ نظر پر مبنی ہیں جن کی مبادیات میں یہ شامل ہے کہ جوں جوں حالات بدلتے ہیں اور ہمارا زندگی کے بارے میں علم، تجربہ اور تحقیق بڑھتے ہیں، ہمارے نظریات میں ارتقاء ہوتا رہتا ہے۔

ایک ماہر نفسیات کے حوالے سے میں نے اپنی عمر کا ایک طویل حصہ انسانی نفسیات کو سمجھنے میں گزار دیا۔ میں نے انسانی شخصیت کو بچپن سے جوانی تک بلوغت کے مختلف مراحل سے گزرتے دیکھا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جن مراحل سے ہر انسان انفرادی طور پر چند سالوں میں گزرتا ہے، انہی مراحل سے انسانیت اجتماعی طور پر صدیوں میں گزرتی ہے۔ لیکن جس طرح بہت سے بچے بلوغت کے مراحل طے کرتے ہوئے، عارضی طور پر نفسیاتی مسائل اور الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن پھر وہ ان کا حل تلاش کرلیتے ہیں۔

اسی طرح میں بنی نوع انسان سے بھی پر امید ہوں کہ وہ مذہبی عقائد کے نفسیاتی مسائل کا حل تلاش کرلیں گے اور انہیں پیچھے چھوڑ کر بلوغت کے زینے عبور کرتے ہوئے ایسے معاشرے کو قائم کرلیں گے جہاں وہ مذہب کی پابندیوں سے آزاد ہو جائیں گے اور سیکولر نظریات کی بنیادوں پر انسانی معاشرے کی عمارت کھڑی کر سکیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ میری خوش فہمی ہو لیکن میں ذاتی طور پر اس سلسلے میں بہت پر امید ہوں۔

اس تبادلہ خیال میں، میں مزید دو پہلوؤں پر اظہارِ خیال کرنا چاہتاہوں۔

پہلی بات یہ کہ اگر میرا موقف کمزور ہے تو اس سے آپ کا موقف خود بخود طاقتور نہیں ہوجاتا۔ میری نگاہ میں آپ ایک ہاری ہوئی بازی کھیل رہے ہیں۔ یہ بات درست بھی ہو سکتی ہے کہ انسانی عقل کی آواز اس کی جبلتوں اور جذبات کی آوازوں سے کمزور ہوتی ہے لیکن اس کی کمزوری میں بھی ایک قوت پوشیدہ ہے کیونکہ وہ نظر انداز ہونے کے باوجود اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور انسان کے جذباتی فیصلوں اور خطاکاریوں کے بعد اپنی بات منوا کر چھوڑتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ انسان کو اپنے مسائل کا حل اپنی جبلتوں اور خواہشات کی بجائے فہم و فراست اور عقل و دانش کی روشنی میں تلاش کر نا چاہیے۔

عقل و دانش کی بات کی کامیابی کے لیے دیر ہے اندھیر نہیں۔ عقل و دانش کا نظام بھی انسانیت کے لیے احترامِ آدمیت کا تحفہ لے کر آئے گا، جس کی مذہبی لوگ خدا سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ایک حوالے سے ہمارے مقاصد ایک ہی ہیں۔ ہماری منزل ایک ہے، لیکن راستے جدا ہیں۔ ہماری اپنی محنتوں کے پھل ہمارے سامنے آتے جائیں گے، مذہبی عقائد کی عوام کے ذہنوں سے گرفت کم ہوتی جائے گی، کیونکہ تجربات اور عقل کے سامنے عقائد کی فوجیں پسپا ہوجائیں گی۔ سائنس کے آگے آہستہ آہستہ مذہب گھٹنے ٹیک دے گا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر مذہبی سراب کی حقیقت واضح ہو جائے اور لوگ اپنے ایمان سے دستبردار ہو جائیں تو ان پر ایک قنوطی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور مذہب کی پوری عمارت دھڑام سے نیچے گر جاتی ہے اور مذہبی لوگ انسانیت کے مستقبل سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

لیکن ہم ایسی مایوسی اور نا امیدی کا شکار نہیں ہوتے۔ ہم نے اپنے بلوغت کے سفر میں بچپن کے مذہبی عقائد کے سراب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سائنسی علم اور تحقیق ہمیں زندگی کی تفہیم میں مدد کریں گے، جن سے ہماری طاقت میں اضافہ ہوگا اور ہم زندگی کے مسائل سے بہتر طور پر نبردآزما ہو سکیں گے۔ اگر ہمارا ایمان بھی سراب ہے تو ہم دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہیں لیکن سائنس کی تحقیقات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم سراب کا پیچھا نہیں کر رہے۔

سائنس کے کئی دشمن ہیں۔ بعض سامنے سے حملہ کرتے ہیں، بعض چھپ کر۔ بعض دشمن سمجھتے ہیں کہ سائنس نے مذہبی عقائد کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ سائنس پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ اس نے زندگی کے صرف چند پہلوؤں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن سائنس کی چھوٹی سی عمر میں اتنی کامیابیاں بھی نہایت حوصلہ افزا ہیں۔ انسانی عقل نے تھوڑے ہی عرصے میں نجانے کتنے کارنامے سر انجام دے دیے ہیں۔ بعض لوگوں کا سائنس پر یہ اعتراض ہے کہ وہ ایک قانون آج پیش کرتی ہے اور کچھ عرصے کے بعد اس کی تردید بھی خود ہی کرتی ہے۔

لیکن یہ اعتراض حقیقت اور سچائی پر مبنی نہیں۔ سائنسی تحقیقات حقائق سے آہستہ آہستہ پرد ے اٹھا تی ہیں۔ وہ کوئی انقلاب نہیں لاتیں۔ یہ بات درست ہے کہ زندگی کے بعض شعبوں میں سائنس ابھی بچپن کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ لیکن بعض شعبے ایسے بھی ہیں جن میں اس نے علم کی عمارت ٹھوس بنیادوں پر استوار کردی ہے، ایسا علم جسے دنیا کے کسی کونے میں کوئی بھی شخص درست ثابت کر سکتا ہے۔

بعض لوگوں کا سائنس پر یہ بھی اعتراض ہے کہ اس کے نتائج انسانی ذہن کی اختراع ہیں اور ان کا خارجی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن یہ اعتراض بھی حقیقت پر مبنی نہیں۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ انسانی ذہن کچھ اس نوعیت کا ہے کہ وہ خارجی حقیقتوں اور زندگی کے مسائل کو تحقیق کی نگاہ سے دیکھ سکے اور معروضی نتائج اخذ کرسکے۔ ایسے نتائج جن کی بنیاد پر ہم ایک بہتر زندگی کو تشکیل دے سکیں۔

آخر میں، میں صرف اتنا کہوں گا کہ میری نگاہ میں سائنس سراب نہیں ہے۔ البتہ یہ امید کہ جو ہم سائنس سے حاصل نہیں کر سکے وہ کسی اور طریقہ سے حاصل کرلیں گے ایک سراب ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail