تول لیتے تو آج لوگ کیوں بولتے


حقیقت حقیقت ہوتی ہے اور اس کو جھوٹ کے پلندے میں چھپانا کسی طور ممکن ہی نہیں ہوتا۔ سچ بات منھ سے نکل کر ہی رہتی ہے خواہ وہ اپنے یا اپنے اعتماد والوں کے منھ سے ہی کیوں نہ نکلے۔  ملک خرابے کی جانب گامزن ہے، یہ بات تو مخالفین کیا ہی کرتے ہیں اس لئے کہ حزب مخالف کا کام ہر اچھے برے کام کی مخالفت ہی کرنا ہوتا ہے لیکن اگر اپنے بھی مخالفت پر اتر آئیں تو پھر یہ بات ضروری ہو جاتی ہے کہ اپنا محاسبہ کیا جائے اور بے جا دفاع کرنے کے، اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ہم کہاں کہاں غلطی پر ہیں۔

 ”اکڑ“ ہی کو غرور کہا جاتا ہے اور ”رجوع“ کو بندگی و انکساری۔ انسان اور شیطان میں فرق یہی تو ہے۔  خطا کے پتلے دونوں ہی ہیں لیکن ایک اپنی خطا پر سر خمیدہ ہوجاتا ہے اور ایک سر کشیدہ۔ ابتدائے آفرینش میں یا تو شیطان ہوتا تھا یا پھر انسان لیکن اب تو انسانوں میں بھی بڑے بڑے شیاطین صفت دندنا تے نظر آتے ہیں۔  جھوٹ ان کی فطرت میں حلول کر چکا ہے، فریب دینا ان کا بہترین مشغلہ ہے، خطا در خطا ان کا معمول ہے، سبزباغ دکھانا ان کا ہنر ہے اور پھر ان سب پر اکڑ، ہٹ دھرمی اور بے شرمی کے ساتھ اس پر ڈٹے رہنا ان کا ایمان ہے۔  یہ وہی ساری صفات ہیں جو ابلیس لعین میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور ان کو اپنے جھوٹے وعدوں، دعوؤں اور عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرنے پر کوئی شرمندگی یا ملال ہوتا ہی نہیں ہے۔  جوش ملیح آبادی کا ایک مشہور قطعہ ہے

آدمی بزم میں دم تقریر
جب کوئی حرف لب پہ لاتا ہے
در حقیقت خود اپنے ہی حق میں
کچھ نہ کچھ فیصلہ سناتا ہے

الیکشن سے پہلے پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کرنے والے آج لیڈر آف دی ہاؤس بنے ہوئے ہیں۔  وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا دعویٰ کرنے والے اپنے دعوے سے پھر چکے ہیں۔  ایوان ہائے وزرائے اعلیٰ، گورنرہاؤسز اور ایوان صدر نہ لائیبریریاں بنی نہ تفریح گاہیں اور نہ ہی اسکولوں اور مدارس میں تبدیل ہوئیں، کفایت شعاری کی ساری مہمات قصہ ماضی بن چکی ہیں، پروٹو کول نہ لینے کا عزم زمین پر ناک سے لکیریں کھینچتا ہوا نظر آرہا ہے۔

مہنگائی ختم کرنے کے دعوے دار غریبوں ہی کو ختم کرنے کے درپے ہیں، پٹرول چالیس روپے کا فروخت کرنے والے 140 پر لیجانے کے قریب ہیں، گیس کی قیمتیں آسمان کی جانب محو پرواز ہیں، روپیہ زمین کے اندر دھنسایا جارہا ہے اور ڈالر کو اوج ثریا کی جانب لیجایا جارہا ہے، قرض لینے پر خود کشی کا دعویٰ صحت و تندرستی کی علامت بنتا جارہا ہے لیکن اپنے کسی بھی قول کے برعکس اٹھائے گئے اقدامات پر شرمندگی کی بجائے شیطان لعین کی طرح گردن میں سریے ہیں کہ اور بھی موٹے در موٹے ہوتے جارہے ہیں۔  یہی وہ اکڑ ہے جس کی وجہ سے اس بات کا کوئی امکان دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا کہ اصلاح احوال بھی ہو سکے گی۔

وہ فرد جس کی ساری سیاسی مہم کا انحصار ”امریکا“ کی مخالفت پر تھا آج قدم بوسی کی خاطر اسی در کے لئے پرِ پرواز تولے بیٹھا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ نہ تو اپنے کسی قول کا پاس ہے اور نہ ہی کسی دعوے کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات پر کسی قسم کی کوئی احساسِ شرمندگی۔

شاعر ولیوں کے جوتوں کی خاک کے ذروں کے برابر بھی نہ سہی لیکن یہ طے ہے کہ ان کے اشعار ”کسب“ سے زیادہ ”کشف“ کی عنایات ہوتے ہیں۔  جوش ملیح آبادی کا مذکور قطعہ بھی ایسا ہی ہے جیسے یہ بات انھوں نے کہی نہیں ہو بلکہ ”کہلائی“ گئی ہو۔ ان کے اس قطعے کا ایک ایک مصرع اور مصرعے کا ایک ایک لفظ سچ سے مزین ہے۔  حقیقت بھی یہی ہے کہ جب بھی کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی یا کسی ادارے کی اصلاح کی بجائے اس کی تضحیک و توہین کرنے، اسے ذلیل کرنے، اسے نیچا دکھانے یا اس کے کردار کی کردار کشی کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے وہ اس حقیقت کو بھول جاتا ہے کہ جس ہاتھ کی ایک انگلی وہ دوسرے کی جانب اشارہ کیے ہوئے ہے اپنے اسی ہاتھ کی باقی تین انگلیاں خود اسی کے اپنی جانب مڑی ہوئی ہیں لیکن وہ مخالفت میں اتنا اندھا ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے دوسروں کے عیب کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہوتا۔

ٹیکس لینے کا مطلب مہنگائی میں اضافہ، مہنگائی میں اضفے کا مطلب حکمرانوں کا چور ہونا، حکمرانوں کے چور ہونے کا مطلب حکمرانوں کا ملک کی دولت لوٹنا اور اسی قسم کے سارے فلسفے بھلادیئے گئے ہیں۔  ڈیم ضروری تھے اور نا اہلوں نے مجرمانہ غفلت کی تھی، ڈیم کو بھلایا جاچکا ہے اور اپنے آپ کو مجرم بھی خیال نہیں کیا جارہا۔ روپے کی قدر میں ایک روپیہ بھی گرنے کا مطلب اربوں کا قرض بڑھ جانا تھا لیکن روپے کی قدر میں 45 روپے کی کمی کا مطلب معیشت کی مضبوطی قرار دیا جارہا ہے۔

ملکوں ملکوں جاکر کشکول دراز کرنا شرمندگی کا سبب تھا لیکن ایک ایک کے سامنے ہاتھ جوڑنا اور پاؤں پڑنا حتیٰ کہ ناک سے لکیریں تک کھینچنے جیسا کریہہ فعل قوم و ملک کی خدمت بن چکا ہے۔  بے گھروں کے لاکھوں گھروں کی تعمیر غریبوں کے گھروں کی تخریب میں بدل چکی ہے، کروڑوں نوکرایاں لاکھوں بے روزگاروں کی شکل میں تبدیل کی جارہی ہیں اور ہر قسم کی تخریب کو خوابوں کی تعبیر میں شمار کیا جارہا ہے لیکن ان سب کے باوجود ضمیر ہے کہ ملامت پر مائل ہی نظر نہیں آرہا اور چہرے پر شرمندگی کے آثار کی بجائے ہٹ دھرمی اور اکڑ کے تاثرات نمایاں دکھائی دے رہے ہیں۔

مخالفین کا کام ہی مخالفت کرنا ہوتا ہے لیکن اگر اپنے بھی حقیقت حال بتانے پر آجائیں تو بات بہت ہی سنجیدہ ہوجاتی ہے۔  اسٹیٹ بینک کے گورنر کی کل کی پریس کانفرنس حکومت کے لئے نوشتہ دیوار سے کم نہیں لیکن لگتا ہے کہ حکومت اس قسم کی کسی بھی حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔  اسٹیٹ بینک کے گورنر نہ تو کسی گزشتہ حکومت کے لائے یا بنائے ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہے۔  ان کو ملک کی معیشت درست سمت لیجانے کے لئے بڑے چاؤ کے ساتھ بیرونی دنیا سے درآمد کیے جانے کا کارنامہ بھی اسی موجودہ حکومت کا ہے۔

گورنر کی حالیہ پریس کانفرنس بڑی اہمیت کا حامل ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ حکومت کو ان کی حقیقت پسندی پسند نہیں آئی اسی لئے کانفرنس میں کچھ ایسی شخصیات اچانک نمودار ہوئیں جو پہلے کیمرے کی کسی بھی عکس بندی میں دکھائی دے ہی نہیں رہی تھیں اور ان کے ظہور پذیر ہونے کے بعد پھر کوئی دوسری شکل کانفرنس کے اختتام تک دکھائی ہی نہیں دی۔ شاید اس کی وجہ حقیقت حال کی جانب سے عوام کی توجہ کو کسی دوسرے ٹرک کی بتیوں کے پیچھے لگانا تھا جس میں حکومتی کوششیں بہت حد تک کامیاب رہیں۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرمایا کہ ”اسٹیٹ بینک نے شرح سودمیں ایک فیصد اضافہ کرتے ہوئے 13.25 فیصد کردیا جس کا اطلاق آج سے ہوگا“۔  گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے آئندہ 2 ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”مہنگائی مزید بڑھے گی، روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کے پیش نظر شرح سود میں اضافہ کیا گیا، اس فیصلے میں گیس اوربجلی کی قیمتوں میں اضافے کوبھی مدنظررکھاگیا“۔  رضا باقر نے بتایا کہ ٹیکس کے اطلاق کے باعث قوت خرید میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔

شرح سود آج سے قبل 12.25 فیصد تھی جو 8 سال کی بلند ترین سطح ہے۔  مئی 2018 ء سے اب تک شرح سود میں اضافے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔  مئی سے اب تک شرح سود میں 5.75 فیصدکا اضافہ کیا جاچکا ہے۔  اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اضافے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کی نئی لہر آئے گی اور قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا خدشہ ہے۔  یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت یہ سب کچھ جس مقصد، یعنی حکومتی آمدنی میں اضافے کی کوشش کی خاطر یہ سب اقدامات اٹھا رہی ہے، شرح سود بڑھنے سے سب سے زیادہ نقصان خود حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ حکومت اپنے خسارے کو پورا کرنے کے لیے بینکوں سے جو قرض لے رہی ہے، بلند شرح سود سے حکومت کو سود کی ادائیگی کی مد میں اضافی سوا تین سو ارب روپے ادا کرنا پڑیں گے۔

ان ساری باتوں کو اگر سامنے رکھا جائے تو جوش ملیح آبادی کا مذکورہ قطعہ الہامی سا لگتا ہے اس لئے کہ جن جن کمزوریوں کا ذکر 126 دنوں میں اس وقت کی حکومت کے خلاف کیا گیا وہ ساری کمزوریاں خود حکومت اور حکمرانوں کے اندر موجود تھیں۔  جو جو عیب گنائے وہ سب کے سب ان کے اندر موجود تھے اور جن قرضوں کو لعنت قرار دیا جارہا تھا اسی لعنت کو اب نعمت سمجھ کر اپنے کارناموں کے کھاتوں میں لکھوایا جارہا ہے۔  گویا 126 دنوں تک جو جو باتیں کہی جاتی رہیں اور جو جو فیصلے کسی دوسرے کی تقدیر میں لکھے جانے کی کوششیں کی جاتی رہی حقیقت میں وہ سارے فیصلے اپنے ہی خلاف لکھے اور کیے جارہے تھے اسی لئے عقل مندوں نے کہا ہے کہ پہلے تولو پھر بولو اور جب تک بولنے سے پہلے تول لینے کی عادت قوم اور قوم کے رہنماؤں میں نہیں پڑے گی اس وقت تک یہ سمجھ لینا کہ پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی، خواب و خیال تو ہوسکتا ہے حقیقت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).