مشرقی مطلق العنانیت اور وراثتی جمہوریت


مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک جاپان سے لے کرچین، انڈیا، پاکستان، ایران اور مشرق وسطی کے ممالک سے آگے بڑھتے ہوے جب ہم بر اعظم افریقہ میں داخل ہوتے ہیں تو مصر سے لے کر مراکش تک اور صحارا سے نیچے افریقی ممالک میں بھی ہمیں زمانہ قدیم سے ایک ہی طرز حکومت نظر آتا ہے۔ ان تمام ممالک میں ایک اکلوتے انسان کے ہاتھ میں مملکت کے تمام اختیارات اور طاقتیں مجتمع ہوتی تھیں اور دوسرے تمام لوگ ہر لحاظ سے اس کے ماتحت۔

ان کا خاندان، اولاد، جائداد، مذہب اور زندگی و موت سب کچھ وقت کے بادشاہ کی ایک جنبش لب کا مرہون منت ہوتا تھا۔ اس قسم کی مطلق العنان حکومتیں ان علاقوں کی قدیم ترین تہذیبوں میں ریاست کی ابتدائی شکل ہیں۔ اس کی سب سے کلاسیکل مثال مصر کی فرعونوں کی ہے، جو خدا اور خدا کی اولاد کہلاتے تھے اورمرنے کے بعدان کے وزراء بیگمات اور غلام، بمع تمام دولت، ما ل و اسباب سب ان کے ساتھ دفن کر دیے جاتے تھے۔ جاپان، میانمر، چین، ایران، مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کے بادشاہ بھی تقریباً ایسے ہی اختیارات کے مالک تھے۔

اس طرزکی حکومتوں کے لئے یونانی دانشور اور ماہر علم Despotism کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ Despot لفظ ان افراد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو اپنی طاقت اور اختیارات اپنی رعایا، ماتحت افراد، ملازمین، وزرا ء اور خاندان کے افراد کو قابومیں رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے معنی آقا، ظالم، آمر، ڈکٹیٹر، اور مطلق العنان جابر حکمران سے ملتے جلتے ہیں۔ ارسطو اور اس سے پہلے کے فلاسفر مشرقی دنیا کے اس طرز حکومت کو OrientaL Despotism کہتے تھے۔

ارسطو اس تصور کا سب سے بڑا شارع اور مفسر تھا۔ اس نے اپنے شاگرد سکندر کو یہ فلسفہ سمجھایا اور بتا یا، ”ایرانی بادشاہ دارا کی حکومت صرف بزور طاقت ہی قائم نہیں بلکہ عوام کی اپنی پسند ہی ایسی ہے۔ اس لئے صرف خوف کو ہی اس کی بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ رعایا کی غلامانہ ذہنیت ان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے حاکم آقا کی اطاعت دل و جاں سے قبول کریں۔ یونان میں ہر یونانی کسی بھی حکومتی عہدے پر کام کرنے کے قابل اور آزاد ہے جبکہ مشرقی وحشی قبائل میں صرف غلامی کی صفات ہی ملتی ہیں۔“

 ارسطو اس بات کا بھی قائل تھا، ” سرد موسم کی وجہ سے یورپین افراد میں ذہانت، ہنر، تدبر کم اور جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ ایشیا ئی لوگ اگر چہ زیادہ ہنر مند ہیں لیکن ترقی کا جذبہ کم ہونے کی وجہ سے وہ غلامی کا شکار ہیں۔“ اُس کے مطابق، ”چونکہ یونانیوں میں ذہانت اور جذبہ دونوں موجود ہیں اس لیے وہ باقی تمام دنیا پر حکومت کر سکتے ہیں۔“

میکاولی نے بھی اس مطلق العنان مشرقی حکومت کے بارے میں لکھا ہے۔ سلطنت عثمانیہ میں ایک بادشاہ صرف ایک وزیر کے ذریعہ سے رعایہ پر مسلط ہے۔ سلطان، خلیفہ الرسول ہونے کی وجہ سے نائب اللہ فی الارض بھی ہے۔ اس اولی الامر کے حکم کی تعمیل موجبِ ثواب اور اُس سے سرتابی، اللہ سے بغاوت کے مترادف ہے۔ اس کے برعکس یورپی حکومتیں اگر چہ ایک پرنس (بادشاہ) کے زیر اثر ہیں لیکن وہ بادشاہ بہت سے لارڈزکی مدد کا محتاج ہے اوران کے ذریعہ سے احکامات کا نفاذ کرتا ہے۔ وہ لارڈز بھی انتہائی طاقتور ہوتے ہیں اور بعض مرتبہ بادشاہ کے احکامات سے منکر یا متجاوزبھی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح میکاولی فرانس اور ترکی میں دو مختلف طرز حکومت بیان کرتا ہے جو ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔

اس کے بعد کے بھی بہت سے سیاسی فلاسفرز نے جن میں تھامس ہابز، ہیگل اور کارل مارکس شامل ہیں مشرقی ممالک میں اسی طرز حکومت کی بات کی ہے۔ کارل مارکس کے مطابق، ”ایشیا کا تمام معاشی نظام انفرادی ملکیتی حقوق کی عدم موجودگی اور ایک خود مختار شخص (بادشاہ) کی ملکیت پر ہی کھڑا ہے۔ “ مارکس کا خیال ہے کہ ایشیا کی جغرافیائی حالات نے اس سیاسی بندوبست کو تقویت پہنچائی ہے۔ اس نے مثال دی ہے کہ ایک طاقتور اور مرکزی اختیارکا حامل عہدہ (فرد) ہی زراعت کے لئے مطلوبہ پانی کا نظام کا مہیا کر سکتا ہے۔

مارکس کے خیال کے عین مطابق ایشیا کی انہی پیداواری رویوں کی وجہ سے مشرقی ممالک بشمول انڈیا، چین اور روس کے زیادہ تر علاقوں میں مطلق العنان حکومتیں پروان چڑھیں۔

مطلق العنان حکومت (Despotic) آمریت سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ آمریت کی بنیاد استبداد اور ظلم و ستم ہے اور یہ عوام الناس کی مرضی کے خلاف ان پر مسلط کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ناجائزکہلواتی ہے جبکہ Despotic حکومت میں یہ تمام صفات بھی پائی جاتی ہیں لیکن یہ لوگوں کی مرضی اور پسند سے نافذ ہونے کی وجہ سے جائز بھی ہوتی ہے۔ لوگ اس کا ظلم ہنسی خوشی قبول کر کے ان حکمرانوں پر قربان ہو نے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

ایک اور حیران کن بات ان مشرقی ممالک میں عوام کی مذہبی ترجیحات ہیں۔ مشرقی مذاہب میں زیادہ تر خدائے واحد کی پوجا کی جاتی ہے۔ اور اگر ایک سے زائد خدا موجود ہیں تو بھی حکمرانوں کومطلق مذہبی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ اوروہ خدا، خدا کا حصہ، مہاتما یا ظلِ الٰہی کہلواتے ہیں۔ اس کے بر عکس اگر یونانی دیو مالائی مذہب کو دیکھا جاے توان میں خدا بہت زیادہ ہیں۔ سب زندہ و جاوید اورلافانی ہیں اور سب کے پاس درجہ بدرجہ غیر مرئی اختیارات موجود ہیں۔ حکمران اور مذہبی پیشوا علیحدہ علیحدہ ہیں۔ یہودیت مشرقی علاقوں میں پروان چڑھی اور عقیدہ توحید کی قائل تھی۔ مسیحیت اسی میں سے نکلی لیکن وہ یورپ کی طرف زیادہ پھولی پھلی اور اپنی بنیاد سے ہٹ کر تثلیث کی حامل ہو گئی۔

مشرق کی پیداروای ترجیحات، مذہبی رویوں اور صدیوں پر محیط مطلق العنان حکومتوں کے بعد ان علاقوں میں یورپی صنعتی انقلاب کی وجہ سے ایمپیرئیل ازم اور نو آبادیاتی نظاموں کا دور آیا۔ ان نئے حکمرانوں کو بھی ان لوگوں نے تقریباًاسی طرح کی عزت دی۔ پرانے حکمرانوں اور ان کے ساتھیوں نے عام طور پر ان نئی طاقتوں کی بیعت کر لی۔ نظام کو چلانے کے لئے مقامی افراد کی ضرورت ان لوگوں نے پوری کی۔ نئے نظام کے ساتھ نئی تعلیمات اور نظریات بھی مشرق میں پہنچے۔

ان یورپی طاقتوں کی مو جودگی میں ان علاقے کے لوگوں میں سیاسی شعور کا آغاز ہوا۔ جمہوریت اور ریاست کی جدید ہیئت ان لوگوں پر واضح ہونا شروع ہوئی۔ نئے طرز حکومت میں اختیارات ایک ذات کی بجاے عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ میں تقسیم ہوے۔ اختیارات کی یہ تثلیث ان لوگوں نے پہلی مرتبہ دیکھی۔ مذہب کا حصہ جدید حکومتوں میں بالکل ختم ہو گیا۔ مقامی لوگوں کی شمولیت کو بڑھاوہ دینے کے لئے سیاسی جماعتوں کا احیاء ہوا۔ لیکن جیسا کہ ارسطو نے کہا تھاکہ مشرقی لوگوں میں اختیارات کی مرکزیت ان کی اپنی پسنداور غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے ہے اس لئے نئے نظام میں بھی لوگوں میں کسی ایک شخص کی اطاعت کا رواج پڑ گیا۔

سیاسی پارٹیوں میں اعلیٰ مذہبی اور روایتی حکمران خاندان کے افراد ہی قیادت کی ذمہ داریوں سے نوازے گئے۔ اور پارٹیوں کے ساتھ حکومت بھی زیادہ تر نسل در نسل منتقل ہونا شروع ہو گئی۔ ان میں سے کچھ ممالک میں تو بادشاہت جاری رہی۔ لیکن جن میں سیاسی کام کا آغاز ہوا ان میں بھی ایک پارٹی سسٹم کی وجہ سے اختیارات ایک ہی ذات میں مجتمع نظر آتے ہیں۔ لیکن پاکستان اور انڈیا میں باقاعدہ یورپ کی طرز پر جمہوری حکومتیں سیاسی پارٹیوں کے زیر انتظام شروع ہوئیں۔

کانگرس انڈیا کی سب سے پرانی جماعت ہے اس کی سربراہی شروع سے ہی نہرو خاندان کے پاس رہی۔ نہرو، برہمن ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ برہمن بحثیت دیوتا کے ہیں گو وہ انسانی شکل میں ہیں۔ برہمن کی ذات سب سے اعلیٰ ہے کیونکہ ایشور نے اسے اپنے سر سے پیدا کیا تھا۔ برہمن علم و دھرم کا محافظ ہے اور اس کے وسیلہ کے بغیر فلاح نہیں۔ کانگرس ایک لمبے عرصہ تک نہرو خاندان کے زیر اثر رہی۔ لیکن اب اس الیکشن میں بہت بری شکست کے بعد راہول گاندھی نے پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس خاندان کا اختیار اس پارٹی سے ختم ہو جاے گا۔

انڈیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے۔ بی جے پی میں پہلے ہی کسی خاندان کی اجارہ داری نہیں ہے اور اب کانگرس نے بھی یہ بوجھ اتار پھینکا ہے۔ اب انڈیا ایک جدید جمہوری ریاست کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک چاے والا اس ملک کا دوبار وزیر اعظم منتخب ہو کر صدیوں پرانی خاندانی اور مذہبی مطلق العنانیت کی لعنت کو اپنے عوام کے سر سے اتار چکاہے۔ انڈیا کے علاوہ جاپان، جنوبی کوریا، سنگا پور اور اسرائیل میں پہلے ہی جدید دور کا بہترین جمہوری نظام موجود ہے۔

پاکستان میں قائد اعظم کا خاندانی طور پر کوئی جانشین نہیں تھا۔ ان کے بعد مسلم لیگ میں ویسے بھی کوئی بہت بڑا مقبول لیڈر موجود نہیں تھا۔ الیکشن ملک میں ہوے نہیں، درمیان میں دو مارشل لا آگئے۔ اس طرح واحدمضبوط سیاسی پارٹی چند سیٹوں تک محدود ہوگئی۔ پیپلز پارٹی وجود میں آئی اور فوراً ہی ایسی زیر عتاب ہوئی کہ اسے مقبولیت کے تاوان میں دو نسلوں کی قربانی دینا پڑی۔ مسلم لیگ کچھ سنبھلنا شروع ہوئی تو دوسری بار نشان عبرت بنائی جا رہی ہے۔

مطلق العنان خصوصیات کی حامل اندرونی اور بیرونی قوتیں ان کے رستہ کی دیوار ہیں اور قربانیاں مانگ رہی ہیں۔ بھٹو کے ساتھ تو جیالے بھی خوشی خوشی سولی پر لٹک گئے تھے، نواز شریف کو لینے تو بھائی بھی ائیر پورٹ تک نہیں پہنچتے۔ قربانی صرف اولاد سے لی جاے گی۔ جب خوشیاں اور خون وہ دیں گے تو ظاہر ہے کہ وراثت کے بھی وہی حقدار ہوں گے۔ اس طرح اس ملک میں جمہوری سیاسی پارٹیوں میں خاندانی اجارہ داری کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔

ان کوسیاسی کام ہی نہیں کرنے دیا جاتا۔ انڈیا میں تقریباً ڈیڑھ صدی کی بلا روک ٹوک جمہوری جدو جہد کے بعدمطلق العنان حکومتوں اورسیاسی پارٹی میں خاندانی اجارہ داریوں سے نجات ملی۔ پاکستان میں تو ابھی ابتدا بھی نہیں ہونے دی جارہی۔ اس لئے مذہب، خاندان، قبیلہ، فرقہ، زبان اور نسل کی بنیاد پر اجارہ داریاں برقرار ہیں اور رہیں گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مطلق العنان، ظالم، جابر آمروں، جمہوری لیڈروں اور ان کے چیلوں سے نجات ملے تو جمہوری عمل کو بلا روک ٹوک جاری رکھنا پڑے گا۔

ان سیاسی پارٹیوں کی آبیاری کرنا پڑے گی تب ہی ان کے اندر بھی صحیح جمہوریت پنپ سکے گی۔ اس کے بعدجب ہمارے اپنے من میں موجود غلامی کی صدیوں پرانی روح مر جاے گی تو ہم بھی خاندانی اور نسلی اجارہ داریوں کو کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ پھر ارسطو کا قول شاید ہم پر بھی صادق آجاے، ”یونانی لوگوں کی طبیعت مطلق العنانیت (Despotism or Abslutism) کو گوارا نہیں کرسکتی۔ وہ آزادی پسند ہیں اور اگر وقتی طور پر آمریت کے زیر عتاب آبھی جائیں جونہی موقع ملے، وہ بغاوت کر دیں گے۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).