شیخ رشید کو جینے دو


پاکستان کے ایک سیاستدان ہیں جن کے پاس ایک قومی راز تھا۔ شاید پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی راز۔ پاکستان میں شاید دو چار سو لوگ ہوں گے جن کے پاس یہ راز ہوگا کہ آج ہم ایٹمی دھماکہ کرنے جا رہے ہیں۔

شاید کچھ درجن ہوں گے جن کو یہ علم ہوگا کہ چاغی میں کرنے جا رہے ہیں اور کس وقت کرنے جا رہے ہیں۔

ہمیں یہ علم نہیں کہ جن کو علم تھا کہ پاکستان ایٹمی دھماکہ کر کے انڈیا کو منہ توڑ جواب دینے جا رہا ہے انھوں نے دھماکے والے دن کیا کیا ہوگا۔ ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ انھوں نے دعا مانگی ہوگی یا دو نفل پڑھے ہوں گے کہ اللہ ہماری مدد فرمائے۔

شیخ رشید سب سے زیادہ پریکٹیکل آدمی تھے۔ انھوں نے صبح صبح جہاز پکڑا اور پاکستان سے نکل لیے اور جب منزل پر پہنچے تو میزبان سفر سے کہا کہ ٹی وی لگاؤ، اگر دھماکہ خیر خیریت سے ہوگیا ہے تو واپسی کی فلائٹ بک کرواؤ۔ اور ہاں، کھانا میں کھا کے جاؤں گا۔

شیخ رشید کو کون سا ڈر تھا جو ان کے کسی ساتھی سیاستدان کو، کسی جنرل کو، کسی جوہری سائنسدان کو اور چاغی کا پہرہ دینے والے کسی سپاہی کو نہیں تھا؟

ان کے اپنے الفاظ ہیں کہ ‘اگر کہیں ہمارا پٹاخہ اوپر نیچے ہوگیا، اگر کہیں کوئی لیکج ہوگئی، تو ان کے دل میں ڈر تھا کہ کہیں اس دھماکے کے نتیجے میں پورا پاکستان ہی نہ اڑ جائے۔ (میرے منہ میں خاک) لیکن وہ یہ منظر کسی دوسرے ملک میں کسی سفیر کے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر ٹی وی پر دیکھنا چاہتے تھے۔

اتنا دور اندیش پاکستانی کبھی کسی نے دیکھا ہے؟

غالباً اسی لیے جب انھوں نے اپنے سوانح لکھی تو اس کا عنوان رکھا فرزندِ پاکستان۔

وفاقی کابینہ

عید سے پہلے قربانی دیں اور شیخ رشید کو وزیر اطلاعات بنا دیں ان کو بھی افاقہ ہوگا اور قوم کو بھی

آج کل وہ وزیرِ ریلوے ہیں اور بہت مصروف ہیں اس لیے چار ٹی وی چینلوں پر بیک وقت نظر آنے کے بجائے ایک آدھ چینل پر ہی نظر آتے ہیں۔

پچھلے چند ہفتوں میں ان کے حکم سے چلنے والی اور رکنے والی ٹرینوں کے حادثوں میں درجنوں پاکستانی شہری جو ایٹمی دھماکوں کے دن محفوظ رہے تھے، مارے جا چکے ہیں جبکہ شیخ رشید کے ازلی دشمن استعفیٰ استعفیٰ کر رہے ہیں۔

شیخ صاحب نے فرمایا ہے کہ میرا ضمیر صاف ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ اپنا ضمیر اسی سفیر کے کمرے میں چھوڑ آئے تھے جہاں بیٹھ کر ٹی وی پر انھوں نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی خبر سنی تھی۔

انھوں نے ٹرینوں کے حادثوں کو انسانی غلطی قرار دیا ہے (کانٹا بدلنے والے کی، ٹرین ڈرائیور کی، ٹکٹ بلیک کرنے والے کی، قلیوں کی، ریلوے سٹیشن پر نان چھولے بیچنے والوں کی، مگر میری نہیں) اور ساتھ یہ بھی مژدہ سنایا ہے کہ اگلے تین مہینوں میں ان کے سارے مخالف جیل میں ہوں گے۔

ہمارے سینیئر اور محترم صحافی شیخ رشید کو لال حویلی کا بقراطِ عصر کہتے ہیں۔ وہ طنز کرتے ہیں لیکن ہمارے پیارے وطن میں ہر لطیفہ ایک بھیانک حقیقت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

ہماری جدید سیاسیات کی تشکیل نو شیخ رشید نے فرمائی ہے۔ ہمارے گلی محلوں میں، ٹی وی سکرینوں پر، سوشل میڈیا پر جو گفتگو ہوتی ہے، اس کی زبان شیخ صاحب نے ہی تو ایجاد کی ہے۔

سیاستدانوں کی ‘فنی خرابیاں’، عید سے پہلے قربانی، ڈیل یا ڈھیل اور اس جیسے کئی سیاسی محاورے انھوں نے ہی عطا کیے ہیں۔

ان کے لیڈر عمران خان بہت اعتماد سے کہا کرتے تھے کہ ٹیم بنانے کا فن ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا، کسی بندے کا کیا ہنر ہے اور اسے کب کہاں استعمال کرنا ہے وہ دنیا کے سٹیج پر ثابت کر چکے ہیں۔

شیخ رشید کے پاس ایک ہی ٹیلنٹ ہے اور وہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ ٹی وی پر ان سے زیادہ رونق کوئی نہیں لگا سکتا ہے۔ شاید اسی لیے وہ یہ سمجھنے کے بجائے کہ اپنی ٹرینوں میں بیٹھے مسافروں کو زندہ سلامت اپنی منـزل تک کیسے پہنچانا ہے وہ اسی چکر میں رہتے ہیں کہ ایک اور ٹرین کا افتتاح عمران خان سے کروا کر فوٹو بنوا لی جائے۔

ریل

ریلوے کے وزیر شیخ رشید کے دور میں ٹرین حادثات میں اضافہ ہوگیا

ٹرینوں سے میرا ذاتی رومانس بھی ہے، اچھے برے وقتوں میں، سیکنڈ کلاس میں، اے سی سلیپر میں سب میں سفر کیا ہے۔ ’چوروں، ڈاکوؤں‘ کی پچھلی حکومت میں خوشگوار حیرت یہ ہوئی تھی کہ ٹرینیں عام طور پر وقت پر چلنے لگیں تھی۔ اپنے بچوں کو بلکہ بعض دفعہ دوستوں کے بچوں کو بھی لے کر ٹرین پر بیٹھ جاتا تھا اور سب ہنستے گاتے، ہر سٹیشن کے پکوان چکھتے لاہور پہنچ جاتے۔

اسی لیے میری ہمشیرہ نے بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں کراچی کی سیر کے لیے آنا تھا۔ ٹرینوں کے لگاتار حادثوں کے بعد اس نے فون کر کے کہا ’نہیں آ رہی، میں نے اپنے بچے نہیں مروانے۔‘

شیخ صاحب کے دشمن جو بھی کہیں وہ ایک مقبول عام شخصیت ہیں۔ ہر سیاسی ٹیم میں اپنی محنت سے جگہ بناتے ہیں۔ جو لوگ فرزند راولپنڈی کے بارے میں یہ پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کون سی پنڈی کے فرزند ہیں وہ بھی حسد میں یہ بات کرتے ہیں۔

خان صاحب اپنی ٹیم کا بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنا جانتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ ریلوے غریبوں اور اب ذیادہ تر متوسط طبقے کا بھی سفر کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ وہ لندن اور انگلینڈ سے سیکھے ہوئے سبق ہمیں پڑھاتے ہیں، یہ بھی یاد رکھیں کہ لندن شہر اور پورا ملک ٹرینوں کے سہارے کھڑا ہے۔

خان صاحب کے پاس بے شمار ترجمان ہیں لیکن شیخ رشید فرزند کسی کے بھی ہوں ان سب ترجمانوں کے باپ ہیں۔

خان صاحب سے گزارش ہے کہ وہ شیخ رشید سے کوئی ڈیل کریں، ریلوے کے مسافروں کو تھوڑی ڈھیل دیں۔ عید سے پہلے قربانی دیں اور شیخ رشید کو وزیر اطلاعات بنا دیں ان کو بھی افاقہ ہوگا اور قوم کو بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).