قبائلی اضلاع میں انتخابات: ’اب سرداروں کی جگہ نوجوان نمائندگی کریں گے‘


fata

’پہلے دہشتگرد تھے، مسلح افراد کھلم کھلا گھومتے تھے، جو خود کو طالبان کہتے تھے، اب وہ تو نہیں ہیں۔ لیکن ان کی مچائی ہوئی تباہی اور ان کے خلاف ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں ہونے والی تباہی آج بھی ویسے ہی موجود ہے۔ انھی مسمار شدہ علاقوں میں ہم انتخابی مہم چلانے جاتے ہیں۔‘

اورکزئی ایجنسی کے درہ منی خیل سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ احمد عباس کا یہ تبصرہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں قبائلی اضلاع میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں اس وقت 297 امیدوار حصہ لے رہے ہیں جن میں زیادہ تعداد آزاد امیدواروں کی ہے۔

انھی امیدواروں میں پی کے 110 سے احمد عباس بھی شامل ہیں۔

قبائلی علاقوں میں صوبائی انتخابات کے بارے میں مزید پڑھیے

’یہاں خاتون امیدوار جلسہ نہیں کر سکتی‘

’قبائلیوں کو بھی سہولت گھر کی دہلیز پر ملنی چاہیے‘

قبائلی اضلاع کا ماضی اور مستقبل

احمد کا اپنا خاندان تو سیاست سے کوسوں دور رہا ہے لیکن احمد اپنے علاقے کی سیاست اور اس کے پس منظر سے بخوبی آشنا ہیں۔ وہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے لوگوں میں قبائلی اضلاع کے حوالے سے غیر دلچسپی کو قابلِ افسوس قرار دیتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنے علاقے اور بالخصوص قبائلی اضلاع کے حالات کا بھی احوال دیا اور کہا کہ ’انتخابی مہم کے نام پر کھیل کھیلا جارہا ہے۔‘

وفاق المدارس سے عربی، اسلامیات اور اردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد احمد نے 2014 میں ضلعی انتخابات میں حصہ لیا اور اب وہ پشتون تحفظ موومنٹ سے منسلک ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’سیاست میں آنے کی بڑی وجہ ہماری قوم کی محرومی ہے۔ آج ہم ایسے مسائل سے دوچار ہیں جن کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔‘

fata

قبائلی علاقہ جات میں انتخابات کے اعلان کے بعد سے زیادہ تر نعرے تبدیلی لانے کے حوالے سے ہیں۔ لیکن اس بارے میں زمینی حقائق کیا ہیں، احمد عباس اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’فاٹا کے حالات میں تبدیلی لانے کی باتیں دراصل چند نعرے ہیں جو سوشل میڈیا کی حد تک محدود ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ فاٹا میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ کل اور آج کے انتخابات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فاٹا میں پہلے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے انتخابات ہوتے تھے۔ لیکن اب فاٹا کے اضلاع خیبر پختونخواہ میں ضم کیے گیے ہیں اور ایجنسیوں کے ضلع بنائے گیے ہیں۔ تو یہ قبائلی علاقوں کا پہلا صوبائی الیکشن ہے جس سے بہت امیدیں باندھی جا رہی ہیں۔

ابھی کچھ عرصے پہلے تک وزیرستان میں دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی اور پانچ سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں امیدواروں کو مہم چلانے میں خاصی مشکلات پیش آئیں۔

حکام کے مطابق جون کی سات تاریخ کو شمالی وزیرستان کے علاقے خڑقمر میں سڑک کنارے نصب بم حملے میں پاکستانی فوج کے چار نوجوان ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔

کرفیو تو سات روز میں ختم ہوگیا تاہم اس کے بعد وزیرستان میں دفعہ 144 ایک مہینے تک نافذ رہی۔

احمد نے اس بارے میں کہا کہ فاٹا کے انتخابات دوسرے علاقوں کے مقابلے میں خاصے مخلتف ہیں۔

’سب سے پہلے تو ہمارے فاٹا کے نمائندگان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ابھی جنوبی و شمالی وزیرستان میں اسمبلی کے دو منتخب نمائندوں علی وزیر اور محسن داوڑ کو جیل میں ڈالا گیا ہے۔ جو اس انتخابات کا حصہ ہیں ان کے ساتھ بھی یہی کیا جا رہا ہے۔

فاٹا

’تو ہمیں پیغام تو یہی دیا جارہا ہے کہ منتخب نمائندوں کی کوئی حیثیت، کوئی قدر نہیں ہے۔ یہ انتخابات برائے نام ہیں صرف یہ دکھانے کے لیے کہ جمہوریت چل رہی ہے۔ کیسے چل رہی ہے یہ نہیں پوچھ سکتے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دوسرے علاقوں میں تو ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ووٹ مانگا جاتا ہے کچھ ڈیلیور کرکے ووٹ مانگا جاتا ہے لیکن ہمارا تو بنیادی گھر ہی مسمار ہے۔‘

ترقیاتی کاموں کی بات کرتے ہوئے احمد نے بتایا کہ ’فاٹا میں کچّے روڈ کو سڑک کہتے ہیں۔ مسمار شدہ علاقے کو گھر کہتے ہیں۔ یہاں بجلی اور ٹیلیفون نیٹ ورک کا ناقص نظام ہے۔ تو اس وقت سب سے مشکل کام اپنی بات دوسروں تک پہنچانا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس وقت قبائلی اضلاع کو آباد کرنے کی ضرورت ہے۔’ہمارے علاقے سے بہت لوگ نقل مکانی کر کے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں گیے ہیں۔ ان کے گھر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔‘

اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ ’ہم اس امید کے ساتھ لڑ رہے ہیں کہ شاید یہ انتخابات ہمارے لیے اچھے ہوں۔ ہم پچھلے انتخابات کے نتائج دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے نمائندگان کے ساتھ کیا ہوا اور ہمارے علاقے کے ساتھ کیا کیا گیا۔ امید ہے کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔‘

’قبائلی سرداروں کے بجائے اب نوجوان نمائندگی کریں گے‘

فاٹا

صوبائی اسمبلی کے حلقے پی کے 106 خیبر سے بلاول آفریدی آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ سابق رکنِ قومی اسمبلی الحاج شاہ جی گُل کے بیٹے اس وقت سیاسی حلقوں میں ایک مضبوط امیدوار سمجھے جارہے ہیں۔

جب بی بی سی نے ان سے انتخابی مہم کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’اللہ کا کرم ہے ہمارے علاقے سے کوئی آئی ڈی پی نہیں ہے۔ اور امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہے۔ جہاں تک مشکلات کی بات ہے تو میرے ساتھ اس وقت سکیورٹی گارڈ ہوتے ہیں جو مجھے ڈی پی او کی جانب سے فراہم کیے گیے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس وقت قبائلی اضلاع کے تین بڑے مسائل پانی، بجلی اور گیس ہے۔ ’اس کے علاوہ جو مسائل چند عناصر کی طرف سے بتائے جارہے ہیں وہ افہام و تفہیم سے بھی حل ہوسکتے ہیں نا کہ الزام تراشی اور ملکی سالمیت کو نقصان پہنچا کر۔۔‘

جب بلاول سے یہ سوال کیا گیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر آزاد امیدوار کے طور پر کیوں انتخابات لڑ رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کو آزما کر دیکھ لیا ہے۔ اب قبائلی علاقوں میں لوگوں کی نمائندگی قبائلی سرداروں کے بجائے نوجوان کریں گے۔‘

اطلاعات کے مطابق اس وقت انھیں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سے بلاول کو جماعت میں شمولیت کی پیشکش کی جا چکی ہے۔ جب ان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے ہنس کے کہا کہ ’یہ تو دیکھا جائے گا کہ تبدیلی لانے کی امید مجھے کہاں لے جاتی ہے۔‘

’بدقسمتی سے میڈیا کو آنے نہیں دیا جا رہا‘

باجوڑ ایجنسی کے نظام الدین سالارزئی مسلم لیگ نواز کی یوتھ ونگ کا حصہ ہیں اور جماعت کی طرف سے انتخابات میں پی کے 102 سے حصہ لے رہے ہیں۔

اس سے پہلے نظام نے 2012 اور 2013 میں بطور صحافی بھی کام کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جب کوئی مجھ سے قبائلی اضلاع کے بارے میں پوچھتا ہے تو میں بتاتا ہوں کہ جتنا خوبصورت مالاکنڈ اور دیر ہے اتنا ہی خوبصورت باجوڑ بھی ہے۔ تاریخی طور پر ہم سب ایک ہی لوگ ہیں حالانکہ انگریزوں کے دور میں ہم تقسیم ہوگئے تھے۔ ہم کوئی الگ مخلوق نہیں ہیں۔‘

نظام نے کہا کہ اس وقت ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ صحافیوں کو قبائلی اضلاع کی خبریں دینے سے روکا جارہا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ’اگر صحافی آئیں تو وہ دیکھیں گے کہ کیسے حکمران جماعت کی جانب سے انتخابات کے پروٹوکول کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔‘

باجوڑ میں مسلم لیگ نواز کی سیاسی ساکھ اگر دیکھی جائے تو اب تک مسلم لیگ نواز کی نشست پر قومی اسمبلی کے تین امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔ جن میں نظام الدین کے والد، وزیرستان سے غالب خان وزیر اور نذیر خان وزیر شامل ہیں۔

نظام نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کا کارکن بھی موجود ہے اور انتخابات میں لڑتا بھی رہا ہے۔ لیکن چونکہ پچھلے انتخابات میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوا تھا تو لوگوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید مسلم لیگ نواز کمزور پڑگئی ہے۔‘

تجزیہ کار اور پختون سیاست اور حلقوں پر نظر رکھنے والے سابق وفاقی سیکریٹری غلام قادر کا کہنا ہے کہ ’قومی اسمبلی کی نشستوں پر آنے کے باوجود یہ نمائندے فاٹا کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرسکے جن کا انھوں نے وعدہ کیا تھا۔ اب یہ امید کی جارہی ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بعد منتخب نمائندے قبائلی اضلاع کے لیے قانون سازی کر سکیں گے۔ اور جو کوتاہیاں فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے نتیجےمیں دکھائی گئی ہیں یہ لوگ اس کو پورا کرسکیں گے۔‘

قبائلی اضلاع اور امن و امان

انتخابات سے پہلے ہی قبائلی اضلاع کے پولنگ سٹیشن میں فوج کی تعیناتی کو لے کر خاصے اعتراضات سامنے آچکے ہیں۔

حال ہی میں حزبِ اختلاف کی کُل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں نے انتخابات فوج کی زیر نگرانی کروانے کے خلاف چیف الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے جس میں اعتراض کیا گیا ہے کہ فاٹا میں انتخابات کے دوران فوج کی تعیناتی کے بارے میں سیاسی جماعتوں سے مشاورت نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں انتخابات کے شفافیت پر سوال اٹھیں گے۔

خط کے ذریعے سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پولنگ سٹیشن کے اندرونی معاملات کی ذمہ داری پریزائڈنگ افسران کو دی جائے جو بنیادی طور پر انھی کا ذمہ ہے۔

انتخابات میں فوج کی تعیناتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے خیبر پختونخواہ کے گورنر فرمان شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ہی فوج کو تعینات کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم نے دیکھا ہے کہ انتخابات میں شفافیت فوج کی تعیناتی سے ہی ممکن ہو سکی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ انتخابات کے روز امن و امان کوخراب کرنے والی کسی قسم کی صورتحال کو روکنے کے لیے جو ممکن کوشش ہوسکے گی کریں گے۔

امیدواروں کو انتخابی مہم میں مشکلات پیش آنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرمان شاہ نے بتایا کہ ’یہ تو انتخابات سے پہلے انتخابات کو متنازع بنانے والی بات ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ آزاد امیدوار پی ٹی آئی کی طرف سے ہیں۔ جس سے ہمیں بھی ڈر ہے کہ ہمارا ووٹ تقسیم ہورہا ہے۔ لیکن اگر پچھلی جماعتوں نے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی اور اس کے نتیجے میں لوگ ان کو مہم میں مدد نہیں کررہے تو یہ پی ٹی آئی کا قصور تو نہیں ہوا۔‘

تجزیہ کار غلام قادر نے کہا کہ ’امن و امان کے حوالے سے فاٹا کی صورتحال پہلے سے بہت بہتر ہے۔ سیاسی صورتحال ویسی ہی ہے جیسے کہ باقی ملک میں ہے۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ ’پشتون تحفظ موومنٹ سے منسلک امیدواروں کو اتنی جگہ نہیں دی جارہی جیسے کہ پچھلے انتخابات میں دیکھنے میں آیا تھا۔ نتیجتاً وہ اس طرح کا ڈینٹ نہیں دے پاییں گے جیسا کہ پچھلی بار دے سکے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ فاٹا میں زیادہ تر آزاد امیدوار ہی جیتتے ہیں جو پھر دوسری جماعتوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔

دوسری جانب احمد عباس نے کہا کہ ’ہم اپنی ہی زمین پر مسافر بنے بیٹھے ہیں۔ ہم اپنی زمین پر اپنی مرضی کی زندگی نہیں گزار سکتے۔ تو ان حالات میں الیکشن کیا ہوں گے اور کیا کہلائیں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp