آسام میں ملک بدری کے خوف اور صدمے سے خودکشیاں


آسام

گزشتہ سال جولائئ میں حکومت نے ایک فائنل ڈرافٹ جاری کیا تھا جس میں چالیس لاکھ لوگوں کے نام شامل تھے

انڈیا کی ریاست آسام کو ’غیر قانونی تارکین سے پاک کرنے کی مہم‘ کے دوران اب تک 40 چالیس لاکھ لوگوں کو ان کی انڈین شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ان افراد کو ملک بدری کا سامنا ہے اور ان لوگوں کے رشتے داروں اور سماجی کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ کچھ لوگوں نے تو اس خوف سے خودکشی بھی کی ہے۔

مئی کے مہینے میں 88 سالہ اشرف علی نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ وہ افطار کا سامان لینے جا رہے ہیں۔ کھانے کا سامان لانے کے بجائِے انھوں نے زہر کھا کر خود کشی کر لی۔

اشرف علی اور ان کا کنبہ اس فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا جو دستاویز سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ انڈین شہری ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

آسام انتخابات: 40 لاکھ باشندوں کی شہریت کا سوال

شہریت کا قانون : انڈیا کے ہندو ہی ہندوؤں کے مخالف کیوں؟

آسام: لاکھوں مسلمانوں کے بے وطن ہونے کا اندیشہ

آسام کے 40 لاکھ باشندے انڈین شہریت کی فہرست سے خارج

تاہم اس فہرست میں ان کی شمولیت کو ان کے ہمسائے نے ہی چیلنج کر دیا اور علی کو ایک بار پھر ان کی شہریت ثابت کرنے کے لیے بلایا گیا تھا اور اگر وہ ثابت کرنے میں ناکام ہوتے تو انھیں گرفتار کر لیا جاتا۔

ان کے گاؤں میں رہنے والے محمد غنی کہتے ہیں ‘اشرف علی خوفزدہ تھے کہ انھیں ‘حراستی مرکز’ میں بھیج دیا جائِے گا۔

آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز 1951 میں بنایا گیا تھا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کون اس ریاست میں پیدا ہوا ہے اور انڈین ہے اور کون ہمسایہ ملک بنگلہ دیش سے آیا ہے۔

آسام

اس رجسٹر کو پہلی بار اپڈیٹ کیا جا رہا ہے

اس رجسٹر کو پہلی بار اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ اس میں ان لوگوں کو بطور انڈین شہری تسلیم کیا جانا ہے جو یہ ثابت کر پائیں کہ وہ سنہ 1971 سے پہلے سے ریاست میں رہ رہے ہیں۔

یہ وہ سال ہے جب بنگلہ دیش نے پاکستان سے الگ ہو کر اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔

انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ یہ رجسٹر ملک میں غیرقانونی تارکینِ وطن کی شناخت کے لیے ضروری ہے۔ جولائی 2018 میں انڈین حکومت نے ایک فائنل ڈرافٹ جاری کیا تھا جس میں ایسے 40 لاکھ لوگوں کے نام شامل نہیں تھے جو اس وقت آسام میں مقیم ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر بنگلہ نژاد لوگ ہیں اور ان میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔

جون 2019 میں حکام نے اعلان کیا کہ آسام کے ایک لاکھ ایسے شہری جو گذشتہ برس این آر سی میں شامل کیے گئے تھے اب اس کا حصہ نہیں اور وہ اپنی شہریت کا ثبوت دیں۔

این آر سی کی حتمی فہرست 31 جولائی کو جاری ہونی ہے اور خارج شدہ افراد میں سے نصف سے زیادہ اپنے اخراج کے خلاف اپیلیں کر رہے ہیں۔

1980 کے اواخر میں رجسٹریشن کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ریاست میں سینکڑوں ٹرائبیونل قائم کیے گئے تھے جو مبینہ غیر قانونی تارکینِ وطن کی شناخت کر رہے ہیں جنھیں ملک سے نکالا جانا ہے۔

شہری رجسٹر اور ٹرائبیونل نے خاص ثقافت شناخت والے لوگوں میں خوف پیدا کر دیا ہے اور اس بحث کے سبب مقامی آبادی اور بنگالی تارکینِ وطن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

سیاسی رہنماؤں نے اس بحث میں آگ پر تیل کا کام کیا ہے کہ ریاست میں کس کو رہنے کا حق حاصل ہے۔

مظاہرہ

سیاسی رہنماؤں نے اس بحث میں آگ پر تیل کا کام کیا ہے کہ ریاست میں کس کو رہنے کا حق حاصل ہے۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ 2015 میں جب سے سٹیزن رجسٹر کو اپ ڈیڈ کرنے کی شروعات ہوئی ہے تب سے شہریت چھینے جانے اور حراستی مرکز بھیجے جانے کے خوف سے بہت سے ہندو اور مسلمان بنگالیوں نے خودکشی کی ہے۔

سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی تنظیم کے جام شیر علی نے آسام میں خود کشی کے ایسے پچاس واقعات کی فہرست دکھائی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان میں زیادہ واقعات 2018 کے بعد کے ہیں جب اپ ڈیٹ کیے گئے رجسٹر کا پہلا ڈرافٹ جاری کیا گیا تھا۔

پولیس تسلیم کرتی ہے کہ یہ قدرتی اموات نہیں ہیں لیکن ساتھ ہی پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان اموات کو شہریت کے معاملے سے جوڑنے کے لیے انکے پاس مناسب شواہد موجود نہیں ہیں۔

ایک سماجی کارکن عبدالکلام آزاد 2015 میں رجسٹریشن کا عمل شروع ہونے سے ہی خودکشیوں کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں۔

آسام

لاکھوں لوگ اپنی شہریت ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال جب سے این آر سی کا فائنل ڈرافٹ جاری ہوا ہے تب سے خودکشیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ ان لوگوں کے اہلخانہ سے ملے ہیں۔

عبدالکلام نے بتایا کہ آسام کے ضلعے بارپیٹ میں ایک 46 سالہ دیہاڑی دار مزدور شمس الحق نے گذشتہ نومبر میں خودکشی کی تھی کیونکہ ان کی بیوی ملکہ خاتون کو فہرست میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

ملکہ 2005 میں مشتبہ ووٹر کی فہرست میں شامل کی گئی تھیں لیکن بارپیٹ کے فارنرز ٹرائبیونل میں وہ یہ کیس جیت گئی تھیں پھر بھی ووٹر لِسٹ یا این آر سی میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

اسی سال 49 سالہ مزدور بھابین داس نے خود کشی کی۔ ان کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ قانونی لڑائی کے لیے انہوں نے جو قرضہ لیا تھا وہ اسے ادا نہیں کر پائے۔ داس کے وکیل نے ان کا نام این سی ار میں شامل کیے جانے کی اپیل کی تھی اس کے باوجود بھی ان کا نام فہرست میں شامل نہیں تھا۔

آسام

سپریم کورٹ نے این آر سی کی آخری فہرست بنانے کے لیے اکتیس جولائی تک کی مہلت دی ہے

این سی ار کے حوالے سے یہ اس خاندان میں دوسری خود کشی تھی۔ 30 سال پہلے ان کے والد نے بھی خود کشی کی تھی کیونکہ انھیں اپنی شہریت واپس کرنے کے لیے کہا گیا تھا حالانکہ ان کی موت کے کچھ مہینے بعد ٹرائبیونل نے انھیں انڈین شہری قرار دے دیا تھا۔

کھروپیٹیا قصبے میں ایک استاد اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ ان کے دوستوں اور رشتے داروں نے بتایا کہ ان کی لاش کے پاس سے تین دستاویزات ملی تھیں۔

ان میں این آر سی نوٹیفکیشن جس میں انھیں غیرملکی بتایا گیا تھا، ایک خودکشی نوٹ جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی موت کے لیے ان کے گھر کا کوئی بھی فرد ذمہ دار نہیں ہے اور ایک اپنی بیوی کے نام خط جس میں دوستوں سے لیے گئے قرض کی ادائیگی کی بات شامل تھے۔

ان کے بھائی اکھل چندر کہتے ہیں کہ انھوں نے 1968 میں گریجویشن کی، 30 برس سکول میں پڑھایا اور ان کے تمام سرٹیفیکیٹس سے ظاہر ہے کہ وہ غیرملکی نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ این ار سی نافذ کرنے والے اہلکار ہی ان کے بھائی کی موت کے ذمہ دار ہیں۔

بی بی سی نے حال ہی میں انڈیا کے ایک ایوارڈ یافتہ سابق فوجی محمد ثنا اللہ کی کہانی شائع کی تھی۔

جون میں غیر ملکی قرار دیے جانے کے بعد انھیں 11 دن تک حراستی مرکز میں رکھا گیا تھا جس کے بعد قومی سطح پر ہنگامہ ہوا تھا۔

حراستی مرکز سے رہائی کے بعد انھوں نے کہا تھا کہ میں نے انڈیا کے لیے اپنی جان کی بازی لگائی تھی، میں ہمیشہ ہی انڈین رہوں گا۔

انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ شہریت سے متعلق تمام مہم ہی گڑبڑ ہے۔’

آسام کی حکومت سپریم کورٹ کی جانب سے شہری رجسٹر کی تیاری کے لیے دی گئی 31 جولائی کی حتمی مدت کے خاتمے سے پہلے اسے حتمی شکل دینا چاہتی ہے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں بنگالی ہندو اور مسلمان بےریاست قرار دیے جانے کی کگر پر ہیں۔

ایک مقامی وکیل حافظ رشید چوہدری کا کہنا ہے کہ ’این آر سی کی ڈرافٹ لسٹ سے جن 40 لاکھ افراد کو نکالا جا چکا ہے ان میں سے ممکنہ طور پر نصف سے زیادہ دوبارہ اس فہرست کا حصہ بننے میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp