کامیاب ہو نے کے لئے صرف ڈگری کافی نہیں


آج کے اس آرٹیکل میں میں حقیقت پر مبنی واقعات اوراپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں چند باتیں لکھوں گا۔ اُمید ہے کہ یہ آپ کی اپنی اور آپ کے خاندان کی زندگی کے لئے بہت اہم اور قیمتی معلومات ہوں گی۔ دراصل یہ معلومات نہیں بلکہ ایک سوچ ہے جو میں رکھتا ہوں اور آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔ اس سے قبل کہ میں آپ کے ساتھ یہ بات شیئر کروں میں آپ کو اپنی زندگی کا مختصر سا تعارف کروانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو میرا پس منظر معلوم ہو جائے اور میری بات با آسانی آپ کو سمجھ آجائے۔

میں ایک زمیندار خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، جس کا جنوبی پنجاب کے گاؤں چک نمبر 270 ٹی ڈی اے لیہ میں اپنا گھر اور زمین ہے۔ بچپن وہیں گزرا لیکن میرے والد صاحب کراچی کاروبار کی خاطر شفٹ ہوگئے جس کی وجہ سے ہمیں بھی گاؤں سے کراچی آنا پڑا۔ یہاں حالات اور زندگی بالکل مختلف تھے اور مالی حالات بھی خاصے نا ساز تھے۔ دوسرا والد کی نوکری بھی جاتی رہی۔ غربت کی انتہا کا تجربہ کرنا پڑا لیکن جیسے تیسے کرکے وقت گزرتا گیا اور حالات بہتر ہوتے گئے۔

رب کی ذات کا کرم تھا۔ کچھ محنت کرکے تعلیم حاصل کی۔ کالج کے زمانے میں پھر مالی حالات خراب ہوئے تو پڑھائی کے ساتھ میں نے جاب کر نا شروع کردی۔ جاب کی وجہ سے کئی مواقع ملے، اچھے لوگ ملے، شعور اور شوق بڑھا تو مزید پڑھائی کا جذبہ پیدا ہو ا۔ لیکن نوکری، گھریلو ذمے داریاں اور تعلیمی اخراجات کی وجہ سے پھر اس سلسلے کو جاری نہ رکھ سکا۔ آخر کار پھر حالات بہتر ہوئے۔ چند مزید کورسزاورٹریننگزکیں اور کراچی کی معروف یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری کرنے کے لئے داخلہ لے لیا۔

پولیٹیکل سائنس اور اُردو میں ماسٹرز کیا۔ سی ایس ایس کے امتحانات بھی دیے۔ مشکل وقت اور حالات گزرتے گئے۔ مسائل کا سامنا بھی رہا لیکن ہمت نہ ہاری۔ پڑھنے میں شروع سے ہی کمزور تھا لیکن شوق بہت تھا اور خاندان میں کوئی پڑھا لکھا شخص نہ ہو نے کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ رہنمائی نہ ملی، جس کی وجہ سے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ باتیں آپ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میں گزشتہ دس سالوں سے مختلف سطح پر پروگراموں، سیمینارز، ٹریننگز، ورکشاپس اور کانفرنسز میں شرکت کررہا ہوں، ہر رنگ اور طبقے کے لوگوں سے واسطہ رہا ہے۔ اسکول، کالج اور یو نیورسٹی کے لیول تک تعلیم حاصل کرنے اور لکھنے پڑھنے کے شوق کے وابستہ رہنے کے بعدمیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمارا اصل مسئلہ صرف تعلیم نہیں۔ کیو نکہ تبدیلی کے لیے پہلا قدم آگہی اور شعور ہے۔

ہمارے ان پڑھ اورغریب والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے پڑھ لکھ کر اچھی نوکری حاصل کریں گے تواُن کی زندگی بہتر ہو جائے گی اور وہ معاشرے میں اچھا مقام حاصل کریں گے۔ اس خواب کی تکمیل کے لئے وہ اپنے بچوں کو پڑ ہاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے مالی حالات اتنے مضبوط نہیں ہوتے اور ہمارے ملک میں اچھی اور معیاری تعلیم عام آدمی کی سوچ سے بھی دُور ہے۔ پہلے تو ہمارے بچے پڑھتے نہیں اور اگر چند ایک پڑھنے کا رجحان رکھتے ہیں تو اُنہیں کیرئیر گائیڈ نس نہیں ملتی اور نہ ہی اچھی اور معیاری تعلیم۔ اوروہ بھی مکمل!

دوسرا ہم سمجھتے ہیں کہ پڑھائی صرف نوکری کے لئے ہی کرنی ہے۔ ویسے بھی اب پاکستان میں کامیاب ہو نے کے لئے صرف ڈگری کافی نہیں ہے۔ آپ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر ہُنر بھی آنے چاہئیں۔ واپس اپنے مقصد کی طرف آتے ہیں کہ اگر چند ایک طالب علم تعلیم حا صل کر بھی لیں تو اُنہیں بھی خود نوکری کرکے اپنی فیس ادا کرنی پڑتی ہے اور ساتھ ساتھ گھر کی دیگر ذمے داریاں بھی سرانجام دینی ہوتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں کسی بھی طالب علم کے لئے بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ تعلیم مکمل کرے اور بہتر جاب حاصل کرے۔

اس ساری صورتحال میں آخرکار طالب علم ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ گھروالوں کی طرف سے، فیس کے طعنے، معاشرے کی طرف سے۔ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود نوکری نہ ملنے کے طعنے اور کمپنی و آفس کی طرف سے ادھوری وسستی تعلیم کے طعنے۔ میں خود اس ساری صورتحال سے دوچار ہو ا ہوں اس لئے میں ایک طالب علم کی کیفیت کو سمجھ سکتا ہوں، جس پر سب کی توقعات کا پریشر ہوتا ہے اور اس خوف میں وہ اپنی قدرتی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرسکتا۔

اس ساری صورتحال میں ہمیں سب سے پہلے اپنے اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ والدین کو اپنے بچوں کی سوچ بدلنا ہوگی۔ اُنہیں صرف پڑھائی پر نہیں بلکہ زندگی میں کامیاب ہونے کی ترغیب دینی ہوگی۔ میں خاص طور پر ایسے خاندانوں کو مخاطب کر رہا ہوں جو مالی طورپر اتنے مضبوط نہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ اُن کے بچے معمولی تعلیم حاصل کرکے اُن کے حالات بدلیں گے، تو یہ اُن کا خواب ہی رہے گا۔ اگرآپ واقعی ہی اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں تو اپنی سوچ بدلیں۔

صرف تعلیم حا صل کر نا ہی کافی نہیں بلکہ مکمل اورمعیاری، پروفیشنل اور ٹیکنیکل تعلیم کے ساتھ زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے تمام ضروری سکلزسیکھنا لازم ہے۔ ہم جو اپنے آپ کو غریب کہتے ہیں، ہم اپنی وجہ سے غریب ہیں، اس میں کسی کا قصور نہیں ہے۔ ہم غریب اس لئے کہ ہم تعلیم پر پیسے خرچ نہیں کرتے۔ ہم صرف کام چلانے والی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ہر مصیبت اور مجبوری کے لئے پیسے آجاتے ہیں لیکن کبھی ہم نے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے بینک سے قرض نہیں لیا، اپنا زیور نہیں بیچا، اپنا گھر کرایہ پر نہیں دیا، اپنی زمین نہیں بیچی۔

کیوں کریں ہم ایسا؟ یہ تو ہماری دولت اور عزت ہے! یہ ایک دفعہ خرچ ہو گئی تو پھر کہاں سے ملے گی۔ ہم کبھی بھی اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے کوئی بڑا قدم نہیں اُٹھانے دیتے۔ میں یقین اور مکمل بھروسے کے ساتھ آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے تو تیار ہیں تو آپ کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد چند سالوں میں آپ کو نیا گھر، زمین اور زندگی کی ہر اچھی چیز لے کر دے سکتے ہیں۔

اپنے بچوں اور اُن کی تعلیم و تربیت پر بھروسا کرنا سیکھیں۔ آپ کی زندگی بدل جائے گی۔ اپنے بچوں کو اگر تعلیم دلانی ہے تو مکمل اور معیاری تعلیم دلوائیں ورنہ اس سے بہتر یہ ہی ہے کہ اُنہیں نہ پڑھائیں ورنہ وہ ساری زندگی ادھوری تعلیم کی ڈگری لے کر اپنے نصیب اور معاشر ے میں نا انصافی کا رونا روتے رہیں گے۔ اگر آپ واقعی ہی اپنے بچوں سے حقیقی اور خالص محبت کرتے ہیں تواُنہیں حقیقی اور خالص تعلیم وتربیت دیں۔ اُنہیں زندگی میں رِسک لینا سکھائیں۔

مشکل حالات اور بُرے دن گزر جاتے ہیں لیکن غربت کی زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تعلیم کو ایک مرتبہ اپنی زندگی اور خاندان میں بہترین اور مکمل انداز میں موقع دیں تو نتائج آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ اور ایک بات اور، اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کا پیسہ، گھر، زمین اور دیگر چیزیں آپ کے بچوں کی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہیں تو یہ آپ کی غلطی فہمی ہے۔ وہ یہ سب کچھ جلد ہی ہضم کر لیں گے۔ اس لئے اپنے بچوں کو زندگی میں بہتر انسان اور ذمے دار بننا سکھائیں جس کے لئے تعلیم بہت ضروری ہے کیو نکہ آنے والا وقت بہت کچھ تبد یل کر دے گا۔ خیر چھوڑیں میری باتوں کو۔ کریں گے تو آ پ اپنی مرضی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).