اصلی کمائی


کاش میں تجھے کہہ سکتا خیر مبارک۔

انھوں نے غربت کی تیز آندھیوں کے تھپیڑوں کا ملکر مقابلہ کیا تھا جب ایک کی سائیکل پنکچر ہوجاتی تو دوسرا بھی اپنی سائیکل سے اتر جایا کرتا تھا اور پنکچر ہوجانے والی سائیکل کو دونوں باری باری مل کر کھینچا کرتے تھے دینو اور خدا بخش سائیکلوں پہ ٹین کے خالی ڈبوں میں سبزی لادھ کر قریب قریب کے گاؤں دیہات بستیوں میں بیچنے جایا کرتے تھے۔

بستی میں دینو اور خدابخش کی دوستی ایک مثال تھی دینوں کے تین بچے تھے رانی بوٹی اور اچھو جبکہ خدابخش کے آٹھ بچے تھے چار بیٹیاں اور چار ہی بیٹے آٹھ بچوں میں سے بڑے چھ سکول جاتے تھے جبکہ چھوٹے دو ابھی زیادہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے گھر کے کچے صحن میں اگے نیم کے درخت کے نیچے کھیلتے رہتے بستی کی ساری بچیاں خدابخش کی بیوی کے پاس قرآن کی تعلیم حاصل کرنے آتی تھیں خدابخش کے گھر کو بستی کے متبرک گھر کا مقام حاصل تھا۔

جبکہ دینو خدا بخش کے مقابلے میں بڑا غیر ذمہ دار شخص تھا دینوں کے دونوں بیٹے بستی میں ہی جھورے کے ہوٹل پہ مزدوری کرتے اور دینوکی بیٹی رانی مکھاں دائی کے گھر قالین بنانے کا کام کرتی تھی جب بھی دینواور خدابخش سبزی بیچنے گھر سے نکلتے یا سبزی بیچ کر واپس آرہے ہوتے تو دونوں کا موضوع بحث ان کے بچے ہی ہوتے

دینو کو اپنے دوست خدابخش کی حالت پہ ترس آتا وہ کہتا یار خدابخش دیکھ میرے تین بچے ہیں اور تینوں کام کرتے ہیں میری بیوی نے بھی گھر کے دروازے میں روٹیوں کا تنور لگا رکھا ہے ہم سب کمائی کرتے ہیں میں تیری دوستی کی وجہ سے سبزی بیچنے آجاتا ہوں کیوں کہ تیرے ساتھ میرا وقت اچھا گزر جاتا ہے ورنہ میں اگر سبزی بیچنے نہ بھی آؤں تو میرے بیوی بچے میرے لیے بوجھ نہیں ہیں تو کیوں خود کو ہلکان کرتا ہے تجھے کیا ملتا ہے تو کیوں اپنے بڑے تینوں بیٹوں کو کسی اچھے ہوٹل پہ یا کسی فیکٹری میں کام پہ نہیں لگا دیتا کیوں تو کبھی چھٹی نہیں کرتا اپنے حا ل پہ ترس کھا خدابخش تو میرا یار ہے مجھے تیری فکر ہے تو کہے تو میں کسی سے بات کرتا ہوں مجھ سے تیر ی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی۔

دیکھ تیرے جوتے بھی پھٹے ہیں تیرے کپڑوں پہ جگہ جگہ ہاتھ والی سوئی سے ٹانکے لگے ہوئے ہیں اپنی سائیکل کے ٹائر دیکھ گھس گھس کر ختم ہوچکے ہیں تیری بیوی بھی ہمیشہ پریشان رہتی ہے تو مجھ سے کہیں زیادہ سبزی اپنی سائیکل پہ لادھ کر لاتا ہے تو کتنی محنت کرتا ہے مگر تیری محنت سے کمائے سارے پیسے تیرے بچوں کی کتابوں کاپیوں اور سکول کی وردیوں فیسوں میں چلے جاتے ہیں تو چاہتا کیا ہے میں جمعے کو چھٹی کرتا ہوں جبکہ تو جمعے کو بھی سبزی بیچنے نکل پڑتا ہے۔

کل میں نے دیکھا تیری بیوی نے شاپر سے چپل کو باندھ کر پہن رکھا تھا۔ تیری بیوی ہمیشہ ماسی پھتے کی دکان سے کلو دو کلو أٹا لیتی ہے۔ کئی کئی دن تمھارے گھر چائے نہیں بنتی۔ تو کیا سوچتا کیا چاہتا ہے کیا کرتا ہے مجھے بالکل سمجھ نہیں أرہی۔ مجھے بھی تو کچھ سمجھا کیا تیرے بیٹے تیری بات نہیں مانتے مجھے دیکھ پچھلے اتوار بوٹی گھر سے کام پہ گیا تھا اور آوارہ گردی کرتا رہا شام کو جب مجھے پتہ چلا تو میں نے بوٹی کو اتنا مارا اتنا مارا کہ بس پوچھو مت اگر ماسی مختاراں درمیان میں نہ آتی تو میں بوٹی کی کوئی ہڈی توڑ دیتا۔

تو کیوں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی زندگیاں بھی تباہ کرنے پہ تلا ہے انھیں کوئی کام وام سکھا یا ر یہ ہی ان کی عمر ہے بڑے ہوجائیں گے تو بگڑ جائیں گے پھر کھینچتا رہیو یہی سائیکل عمر بھر۔ یہ ہڈیاں کب تک تیر ا ساتھ دیں گی میری بات سمجھ جا ۔

خدابخش ہمیشہ ساری بات سن کے کہتا دینو میرے یار تو نہیں سمجھ سکے گا جب شام کو گھر جاتا ہوں اور میں اپنے بچو ں کے ہاتھ میں کتابیں دیکھتا ہوں وہ مجھے لپٹ کر پنسل کاپیوں کے لیے پیسے مانگتے ہیں تو میری ساری تھکان اتر جاتی ہے دینو جو میں دیکھ رہا ہوں تو نہیں سمجھ سکے گا نہ تجھے نظر آئے گا

دو دن بعد عید تھی خدابخش بہت پریشان بیٹھا تھا۔ جب توحید نے اپنے ابا کے پاس بیٹھ کر انتہائی ادب سے پوچھا ابا جان کیا پریشانی ہے فرحان بھائی بھی پہنچنے والے ہیں میری بات ہوئی ہے ان کو چھٹی مل گئی ہے فاخر بھی شام کو آجائے گا آپ کی سب بیٹیوں کو بھی بلاوا بھیج دیا ہے کل تک سب لوگ آجائیں گے۔ پھر پریشانی کیا ہے آپ کے حکم کے مطابق یہ عید ہم سب مل کر کر ہے ہیں۔

تو خدابخش نے نم آنکھوں سے توحید کی طرف دیکھا اور کہا بیٹا جب سے تم لوگوں کی نوکریاں ہوئی ہیں ہم اس شہر کے ہی ہوکر رہ گئے ہیں ہم کبھی اپنی جونیجو سکیم کے تحت ریت کے ٹیلے پہ آباد کچی بستی میں نہیں گئے وہاں تمھارے دینو چاچا ہیں میرے مشکل دنوں کے دوست مجھے بستی کے سب لوگ بہت یاد آرہے ہیں بیٹا۔ میں چاہتا ہوں اس بار عید پہ ہم سب لوگ اپنی کچی بستی میں جائیں اور وہاں عید کریں جہاں دینو رہتا ہے۔

فرحان نے ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کر گاڑی کا اگلا گیٹ کھولا قیمتی سوٹ میں ملبوس خدا بخش گاڑی کی فرنٹ سیٹ سے اتر نے کے بعد لمبے لمبے سانس کھینچنے لگا جیسے اپنے دوستوں کی خوشبو سونگھ رہا ہو اس کی آنکھیں دینو کو ڈھونڈ رہی تھیں دینو کے بیٹے اچھو اور بوٹی عید کے رش کی وجہ سے اپنے گھر کے دروازے میں لگائے تنور پہ روٹیاں لگا نے میں مصروف تھے، رانی آٹے کے پیڑے بنا رہی تھی ان کے پیچھے کانوں کے چھپر کے نیچے برسوں کا بیمار اور سینکڑوں بیماریوں میں مبتلا دینو کھانستے ہوئے بلغم تھوک رہا تھا

جب خدابخش نے دینو کے پاؤں کی جانب پٹھے کی الانی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا دینو عید مبارک تو دینو کسی معصوم سے بچے کی طرح سسکیاں بھرتے ہوئے بولا اوئے خدابخش تو آگیا میرے یار جب بوٹی مجھے گالیاں دیتا ہے مجھے اکثر مار پیٹ کر گھر سے نکال دیتا ہے تو پھر مجھے تیری اس وقت کی کہی باتوں کی سمجھ آتی ہے پھر میں سوچتا ہوں کاش میں نے بھی تیری طرح اپنی کمائی سے ان کو کتابیں کاپیاں لے کر دی ہوتیں، کاش میں بھی تیرے والی کمائی کر سکتا کاش میں بھی اپنے بچوں کو ہوٹلوں فیکٹریوں میں مزدوری پہ بھیجنے کی بجائے سکول بھیجتا کاش تیر ا فلسفہ اس وقت میری سمجھ میں آجاتا تو اس بڑھاپے میں بوٹی اور اچھو مار پیٹ کر اکثر مجھے گھر سے نہ نکالتے۔ آج میں بھی تیر ی طرح بہو بیٹیوں اور افسر بیٹوں کے ساتھ عید کرتا کاش میں تجھے کہہ سکتا خیر مبارک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).