انڈیا: تلنگانہ میں سکول چھوڑنے والے امتحان نے 23 طلبہ کی جان کیسے لے لی؟


تھوڈا وینیلا

انڈیا کی جنوبی ریاست تلنگانہ میں اپریل میں سکول کے آخری سال کے امتحانات کے نتائج کے اعلان کے بعد کم سے کم 23 نوجوان خود کشی کر چکے ہیں۔ بی بی سی تیلوگو کی دپتی بھتانی نے جائزہ لینے کی کوشش کی کہ 12 ویں جماعت کے امتحانات کے نتائج متنازع کیوں ہو گئے؟

تھوڈا وینیلا کو کھانے بنانے، مزاحیہ شو دیکھنے اور ٹھیلوں پر ملنے والے کھانوں کا شوق تھا۔

ان کے بڑے بھائی 19 سالہ وینکٹیش نے انھیں حالیہ دنوں میں اپنا موٹر بائیک چلانا سکھایا تھا۔ وینیلا میں بہت خوش تھی کہ وہ ایک پروفیشنل بائیکر کی طرح اسے چلا سکے گی۔

ان کے بھائی نے بتایا ’میں کبھی کبھی اپنی بہن کو اس کی مرضی کے بغیرفالو کرتا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنا سکوں کہ وہ محفوظ رہے۔‘

دونوں بہن بھائیوں کی بائیک چلانے پر لڑائی ہوتی تھی، وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتے لیکن وہ ایک دوسرے کے قریب بھی تھے۔

18 اپریل کو تھوڈا وینیلا کو معلوم ہوا کہ وہ 12 ویں جماعت کے امتحان میں فیل ہو گئی ہیں۔ انھوں نے زہر کھا لیا اور چند گھنٹوں کے بعد ہسپتال میں چل بسیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کا ایک ٹائم زون لوگوں کی زندگیاں متاثر کر رہا ہے

‘ایک مسلمان نے گائے ماری تو کیا اس نے جرم کیا؟’

’نصاب میں خواتین کی بہترین فگرز دینے پر تنازع‘

انڈیا: نصابی کتاب میں ’بلیوں کو مارنے کےطریقے‘ پر تنازع

وینٹیٹھ

تھوڈا وینیلا کی والدہ سنیتا یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، وہ بار بار کہتی ’میں کیسے فیل ہو سکتی ہوں۔‘ ہم نے اسے تسلی دی اور بتایا کہ کوئی بات نہیں اور وہ اپنے پیپر دوبارہ چیک کروانے کے لیے درخواست دے سکتی ہے یا پھر سے امتحان دے سکتی ہے لیکن ہسپتال میں بھی وہ بار بار یہی کہتی رہی کہ ’مجھے پاس ہونا چاہیے تھا۔ ‘

وینیلا تلنگانہ میں ان 320,000 سے زیادہ طلبہ میں سے ایک تھیں جو سکول کے آخری سال کے امتحان میں فیل ہوئے تھے۔

یہ سب طلبہ ان سکولوں میں داخل ہوئے تھے جنھوں نے ریاستی تعلیمی بورڈ کے ذریعے مقرر کردہ نصاب پڑھا۔

انڈیا میں اعلیٰ تعلیم میں شدید مقابلے کا رجحان ہے اور سکول چھوڑنے والے امتحانات اچھی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے ضروری ہیں۔ انھیں اچھی نوکری اور شاندار مستقبل کے ٹکٹ کے طو پر دیکھا جاتا ہے۔ انڈیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں داخلے کا ٹیسٹ بھی ہوتا ہے لیکن جو طلبہ ان ٹیسٹوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اب بھی اپنی نشست کھو سکتے ہیں اگر وہ سکول چھوڑنے والے امتحان میں فیل ہو جائیں۔

تلنگانہ میں سکول چھوڑنے والے امتحانات کے نتائج کے اعلان کے بعد فیل ہونے اور صدمے سے دوچار طلبہ اور ان کے والدین نے مظاہرے کیے، انھوں نے الزام عائد کیا کہ نتائج بنانے میں غلطیاں ہوئی ہیں اور مطالبہ کیا کہ پرچوں کی دوبارہ مارکنگ کی جائے۔

وینو گوپال ریڈی

وینو گوپال ریڈی کا کہنا ہے ’میرے بیٹے نے 11 ویں جماعت کے امتحان میں میتھ، فزکس اور کیمسٹری میں پورے نمبر لیے تھے لیکن 12 ویں جماعت کے نتائج کے مطابق میرے بیٹے نے میتھ اور فزکس میں ایک ایک نمبر لیا، یہ کیسے ممکن ہے۔؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ میرا بیٹا مقابلے کے دوسرے ٹیسٹ کے لیے پڑھ رہا تھا لیکن نتائج کے بعد وہ شکستہ دل ہو گیا۔ ’اس نے پڑھنا اور کھانا چھوڑ دیا یہاں تک کہ گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ میں اس کی ذہنی صحت کے حوالے سے فکر مندہ ہوں۔‘

تلنگانہ میں سکول چھوڑنے والے امتحانات کے نتائج کے اعلان کے بعد مظاہروں میں شدت آ گئی، پوری ریاست میں ان امتحانات میں ناکام ہونے والے طلبہ کی جانب سے خود کشیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

تلنگانہ میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم ایک گروپ نے ریاست کی ہائی کوٹ میں اپیل دائر کی جس کے بعد عدالت نے بورڈ کو حکم دیا کہ فیل ہونے والے تمام طلبہ کے جوابات کو دوبارہ چیک کر کے ان کو نمبر دیں۔

نئے نتائج کا 27 مئی کو اعلان کیا گیا، ناکام ہونے والے 1،137 طالب علموں کے جوابات کی نظر ثانی کی گئی اور انھیں امتحان میں کامیاب قرار دے دیا گیا۔ ان طلبہ میں سے ایک لڑکی جس کے ایک مضمون میں پہلے صفر نمبر آئے تھے، جب اس کے پیپر کو دوبارہ چیک کیا گیا تو اس کے 99 نمبر آئے۔

اس پورے تنازعے میں گلوبرانہ ٹیکنالوجی نامی ایک نجی سافٹ ویئر کمپنی بھی، جس نے سنہ 2017 میں ریاست میں 970,000 سے زیادہ طلبہ کا امتحان منعقد کروانے کا حکومتی کنٹریکٹ جیتا تھا، اس کے نتائج کا اعلان کرنے کے لیے حتمی سکور پر عملدرآمد کی ذمہ دار ہے۔

تلنگانہ کے تعلیمی بورڈ کا، جس نے گلوبرانہ ٹیکنالوجی کو یہ کام دینے کا انتظام کیا، کہنا ہے کہ طلبہ کی خود کشیوں کا تعلق تکنیکی اور نتائج کی پراسیسنگ میں غلطیوں سے نہیں ہے۔ دوسری جانب گلوبرانہ ٹیکنالوجی نے تسلیم کیا ہے کہ غلطیاں ہوئیں۔

کمپنی کے سی ای او وی ایس این راجو نے اپریل میں بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم بورڈ کے طے شدہ عمل کی پیروی کرتے ہیں، جو واقعات رونما ہوئے وہ بدقسمتی ہے۔ ابتدائی طور پر تکنیکی غلطیاں تھیں. ہم نے اصلاح کی ہے۔‘

خود کشی کرنے والی ایک طالب علم انامیکا یادو کے خاندان کا کہنا کہ وہ تلنگانہ کے تعلیمی بورڈ اور گلوبرانہ ٹیکنالوجی کمپنی کے خلاف فوجداری مقدمہ دائر کریں گے۔

ان کے خاندان نے بی بی سی کو بتایا کہ 16 سالہ انامیکا کو جب پتہ چلا کہ وہ امتحان میں فیل ہو گئی ہیں تو انھوں نے چند گھنٹوں بعد ہی خود کشی کرلی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 27 مئی کو طالب علموں کے پرچوں کی دوبارہ چیکنگ کے بعد بتایا گیا کہ انامیکا پاس ہو گئیں لیکن چند گھنٹوں بعد پھر بتایا گیا کہ وہ فیل ہو گئی ہیں۔

انامیکا یادو

انامیکا کے والد اتل گنیش کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالب علموں کے نبمروں کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے غلطی ہوئی، بورڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ گلوبرانہ ٹیکنالوجی کمپنی نظر ثانی کے عمل میں شامل نہیں اور یہ ہمیں شک میں مبتلا کرتا ہے۔

دوسری جانب تھوڈا وینیلا کے والد گوپال کرشنا کا کہنا ہے کہ وہ بھی ریاستی بورڈ کے خلاف مقدمہ دائر کرنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’ میں بورڈ پر اعتبار نہیں کر سکتا۔‘

میری بیٹی جو ہمیشہ سے ہی اچھی طالب علم تھی کیسے فیل ہو سکتی ہے؟ مجھے جواب چاہیے۔

شیوانی کے والدین

خیال رہے کہ نظر ثانی کے اس عمل میں ان 23 طلبہ کو شامل نہیں کیا گیا جنھوں نے سکول ٹیسٹ میں ناکام ہونے پر خود کشی کی تھی۔ ان کے والدین نتائج پر یقین نہیں کر رہے۔ وہ صدمے میں ہیں اور ان کے دل ٹوٹ چکے ہیں، وہ حیرت زدہ بھی ہیں اور مشکوک بھی۔

متعدد والدین نے اپنے بچوں کی محنت اور ارادوں کے بارے میں بھی بات کی۔

16 سالہ شیوانی پڑھائی کے لیے روزانہ صبح سویرے اٹھتی تھیں۔ وہ انجنیئر بننا چاہتی تھیں اور اکثر والد سے کہتی تھیں۔ ’پانچ سال انتظار کریں پھر ہماری زندگیاں بدل جائیں گی۔‘

دیواتھو نیرج کے والد روپل سنگھ نے بتایا ’نیرج ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور زیادہ تر راتیں پڑھائی کر کے گزارتی۔ وہ ہمیشہ تمام امتحانات میں کامیاب ہوتی تھی چنانچہ ہم نے سوچا کہ ہم ان کی مدد کرنے کے لیے جو بھی کر سکتے ہیں کریں۔‘

بل بورڈ

18 سالہ بھانو کرن کو میتھ سے بہت لگاؤ تھا اور وہ ایک اخلاقی ہیکر بننا چاہتی تھیں اور اس مقصد کے لیے وہ اپنا زیادہ تر وقت یو ٹیوب پر اس بارے میں ٹیوٹوریل دیکھ کر گذارتی تھیں۔

انڈیا میں طلبہ اور خاص طور وہ جو انجنیئرنگ اور میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ تسلسل کے ساتھ مقابلے کے اعلیٰ امتحانات کی سیریز میں حصہ لیتے ہیں۔

اور کالج میں اپنی جگہ کو محفوظ کرنے کی دوڑ سکول چھوڑنے کے امتحانات سے کم سے کم دو سال پہلے شروع ہو جاتی ہے جس سے طلبہ پر اپنی توقعات اور خوابوں کو پورا کرنے کا دباؤ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ماہرِ نفسیات واسو پراھا کارتک کا اس بارے میں کہنا ہے ’امتحان از خود دباؤ سے گھرا ہوا ہے۔ طلبہ کو باقاعدگی سے مشاورت کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ بلا شبہ طلبہ کو امتحانات سے باہر دیکھنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے، ناکام ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ کے راستے بند ہو گئے ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp