یونیورسٹی آف کراچی میں یادگار سیاسی مباحث


آج سے بہت سال پہلے کی بات ہے جب روشنیوں کے شہر کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی سیاست اپنی عروج پر پہنچ گئی تھی اور ملک میں مشرف کا سکہ چل رہا تھا۔ جس نے مملکت پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان میں جمہوریت کے تابوت میں ایک کارگر کیل ٹھونک دینے کے بعد ملک کو Enlightened Moderation کے نام پر ایک عظیم الشان عہد میں داخل کرنے کا وعدہ کر رکھا تھا۔

جنرل صاحب کے ڈنڈے سے متاثر بعض سرکاری دانشور اور صحافی حضرات جنرل صاحب کا موازنہ جدید ترکی کے بانی معطفی کمال اتاترک سے کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔

یہ وہ دور پراشوب تھا جب دہشت گردوں نے امریکہ کے دفاعی مرکز پنٹاگون اور تجارتی مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا تھا اور جواباً امریکہ نے اتحادی فوجی تنظیم نیٹو کے ساتھ ملکر دنیا بھر میں دہشت گری کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کیا تھا اور ہمسایہ ملک افغانستان میں گمسان کی جنگ جاری تھی۔

اس زمانے میں پاکستان کے ایک اور ہمسایہ ملک نیپال میں بدستور بادشاہت کا نظام رائج تھا مگر نیپال کے ماؤ نواز باغی اس شاہی حکومت سے شدید ناخوش تھے اور ماؤ نواز باغیوں اور نیپال کے شاہی خاندان کی فوج کے درمیان جنگ چل رہی تھی۔ نیپال کے بادشاہ سلامت تخت چھوڑنے پر راضی نہیں تھے اور ماؤ نواز باغی کسی بھی قیمت پر بادشاہت کا خاتمہ چاہتے تھے۔ جبکہ پاکستان کے اندر بعض مارکسی دانشور ماؤ نواز باغیوں کی اس مسلح جدوجھد کو ایشیا کے اندر پھوٹنے والے سرخ سویرے سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔

پاکستان کے بعض سوشلسٹ نوجوان طالب علم حضرات عام طور پر نیپال میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما Parachanda اور وینزویلا کے فوجی جرنیل ہوگوشاویز سے متاثر نظر آتے تھے۔ جبکہ امریکن CIA کو بے آف پگس (Bay of pigs) میں شکست سے دوچار کرکے کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والے مشہور کمیونسٹ لیڈر فیڈل کاسترو اور ارنسٹو چی گویرا، کے علاؤہ برٹش انڈیا کے نوآبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کرنے کے الزام میں سولی چڑھنے والے نوجوان انقلابی بھگت سنگھ بھی سوشلسٹ نظریات رکھنے والے نوجوانوں کے ہردلعزیز ہیرو مانے جاتے تھے۔

البتہ ماؤ نواز یا سٹالن کے حامی سوشلٹ نوجوانوں اور اور لیون ٹراٹسکی سے متاثر کامریڈز کے درمیان اس بات پر بھرپور اختلاف پایا جاتا تھاکہ ان سب عظیم رہنماؤں میں حقیقی سوشلسٹ کون تھے؟

اس طرح کے دلچسپ فکری اور نظریاتی موضوعات پر گرما گرم بحث و مباحثہ کے دوران کامریڈ حضرات کبھی کبھار انقلابیوں سے زیادہ کسی مذہبی فرقے کے مرید لگتے تھے۔

البتہ امام انقلاب یعنی عظیم روسی انقلاب 1917 کے بانی ولادیمیر لینن جس نے مشہور دستاویز ”کیا کیا جائے“ بھی لکھا ہے کو سوشلسٹوں کے سبھی جتھے ایک عظیم لیڈر مانتے تھے جو کارل مارکس اور اینگلز کے بعد علمی دنیا میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔ انقلاب روس کے بانی لینن کا ایک قول کامریڈز کے درمیان مشہور تھا کہ

There are comrades or enemies۔

مگر سوشلزم سے متاثر طالب علم حضرات ماؤ نواز باغیوں کے متعلق بحث و مباحثہ کرتے ہوئے اکثر اس بات پر جذباتی ہو جاتے تھے کہ لینن کے بعد روس میں سٹالن نے انقلاب کو ہائی جیک کیا اور لیون ٹراٹسکی کو اقتدار سے محروم کیا اور سوشلزم کو سٹیٹ کپٹلیزم میں بدل دیا اور نیشنل سوشلزم کو پروان چڑھا کر سوشلزم سے غداری کی ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ چین کا انقلاب دراصل کسان انقلاب تھا جبکہ کارل مارکس نے داس کپٹل میں لکھا تھا کہ سوشلٹ انقلاب انڈسٹریل ورکر یعنی پرولتاریہ کرکے گا اور پروفیشنل انقلابی ان کی رہنمائی کریں گے۔

مگر چین کے ماؤ نے سٹالن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے نظریے ”سوشلزم ایک ملک میں“ کو چین میں آزمایا اور انٹرنیشنل سوشلزم کی بجائے نیشنل سوشلزم کو پروان چڑھایا جو کہ سوشلزم کی روح کے خلاف اور مارکس کے نظریے کی بھی نفی ہے۔ ان دونوں ایک طرف سوشلزم کا ماحول لاطینی امریکہ سے نیپال تک گرم تھا، تو دوسری طرف کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم بنیاد پرست نظریات سے متاثر طالبہ و طالبات بشمول بعض استاتذہ کرام بھی سرخ نظریات رکھنے والوں کو ناپسندیدہ مخلوق سمجھتے تھے اور کبھی کبھار بنیاد پرست طلبا تنظیموں کے لشکر سرخوں کے چھوٹے چھوٹے گروپس پر حملے بھی کرتے تھے، اور مارپیٹ کر یونیورسٹی سے باہر نکل جانے پر مجبور کیا کرتے تھے۔ مگر کامریڈ لوگ اگلے دن اسی سرخ جذبے کے ساتھ واپس یونیورسٹی کے کسی کینٹین میں انقلابی نظریات پر بحث کرتے نظر آتے تھے۔ یہ علم سیکھنے کے دن تھے!

ان دونوں سوشلزم کے نظریات رکھنے والے دوستوں کے ساتھ ساتھ بنیاد پرست نظریات کے حامل دوستوں اور استاتذہ کرام سے بھی سیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔ ان کی محبت اور شفقت قابل ستائش ہے۔ اس طرح کے پس منظر میں نیپال کے شاہی دربار کے ایک طالب علم کے ساتھ ملاقات کرنا کافی دلچسپ بات تھی۔

دوران گفتگو پتہ چلا کہ طالب علم موصوف جس کا نام اب ذہن سے محو ہو گیا ہے وہ نیپال کے شاہی دربار کا ایک ملازم ہے اور سیاست میں بھی خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بحثیت انٹرنیشنل ریلیشنز کے ایک طالب علم کے میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں کون سا سیاسی نظام بہتر ہے بادشاہت یا آمریت؟ سوشلزم یا ماؤازم جس کے لیے نیپال میں کامریڈز لڑ رہے ہیں؟

تھوڑی دیر کے لئے تو وہ خاموش رہا پھر جواب دیا کہ اگر آپ کے عوام پڑھے لکھے ہوں تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ ایک بادشاہت میں رہتے ہیں یا سوشلسٹ ملک میں رہتے ہیں۔ ”

انھوں نے انگلینڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دیکھو وہاں بھی بادشاہت ہے مگر انگلینڈ دنیا کے تمام پارلیمانی جمہوری نظام کی ماں ہے۔

طویل بحث و مباحثے کے دوران ہوسٹل کی کینٹین میں چائے کے دو کپ پینے کے بعد ہم اپنے اپنے راستے پر چل دیے مگر سالوں بعد ماضی کے مزار میں جھانکنے سے اب لگتا ہے کہ بات تو اس نے ٹھیک ہی کی تھی کہ لوگ پڑھے لکھے ہوں تو نظام بدل بھی سکتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ تاج برطانیہ کے بادشاہ سلامت اور ہاؤس آف لارڈز کے پیرز بھی بھلا کہاں خوشی سے اپنے اختیارات سے دستبردار ہوئے تھے؟ برطانیہ کی چارٹسٹ تحریک دراصل مزدوروں کی سیاسی تحریک تھی، اس کا نعرہ تھا سیاسی اقتدار ہمارا ذریعہ، سماجی مسرت ہماری مقصد۔

چارٹسٹ تحریک سیاسی اقتدار حاصل کرنے میں تو ناکام رہی البتہ 1846 کی آئینی اصلاحات میں عوامی چارٹر کے سبھی مطالبات منظور کر لیے گئے۔ چارٹسٹ تحریک کا آغاز یوں تو انقلاب فرانس کے زمانے میں ہی ہو چکا تھا جب جولائی 1830 کے انقلاب میں بادشاہ چارلس دہم کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ لیکن چارٹسٹ تحریک کا اصل زور 1835 کے لگ بھگ شروع ہوا اس تحریک کے پہلے مرکز برمنگھم اور مانچسٹر تھے لیکن بعد میں لندن اس کا صدر مقام بن گیا۔ اور طویل جدوجھد کے بعد انگلستان میں بادشاہ سلامت کا نام ہی باقی رہ گیا جبکہ تمام تر اختیارات عوامی نمائندوں کومنتقل ہو گئے اور کچھ ایسا ہی نیپال میں بھی ہوا۔

کمیونسٹ پارٹی آف نیپال اور نیپال کے شاہی خاندان یعنیShah Monarchy of Gorkh کے درمیان 1996 سے 2006 تک مسلح جنگ جاری رہی، اس دس سالہ خونی جنگ میں ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا، اس جدوجہد کا مقصد نیپال سے بادشاہت کا خاتمہ کر کے اس کو ایک سیکولر عوامی ریپبلک بنانا تھا۔

اگرچہ انگلستان اور نیپال کے لوگوں نے مختلف معروضی حالات میں مختلف انداز سے جہدوجہد کی تھی، البتہ ایک بات مشترک اور طے ہے کہ کسی بھی ملک میں آمریت اور بادشاہت اس وقت تک چلتی رہتی ہے جب تک لوگ ظلم و جبر کے اس نظام خلاف جدوجہد نہیں کرتے ہیں۔ قصہ مختصر، چند سال بعد اخبارات پڑھنے سے پتہ چلا کہ ایک طویل جدوجہد کے بعد نیپال میں جاری 240 سالہ بادشاہت کے کے ساتھ شاہی دور حکومت کا بھی خاتمہ ہوا۔ اس طرح بالآخر نیپال کا نظام بھی بدل گیا، نتیجتاً نیپال ایک سیکولر عوامی ریپبلک بنا۔

مگر ہمارے نظام کو دیکھ کر جون ایلیا کا ایک مشہور شعر یاد آتا ہے کہ

گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا

یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں

جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے

وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).