سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں


کچھ لوگوں کے بقول زندگی ایک حسین اور خوبصورت احساس ہے۔ جہاں خوشیوں کے میلے ہیں۔ جہاں ہر طرف بہار ہی بہار ہوتی ہے۔ جہاں چاروں طرف سبزہ ہی سبزہ ہے۔ مگر میرے خیال سے زندگی وہ ہے، جہاں انسان سکون کی تلاش کا ایک مسافر ہے۔ جہاں مقاصد کو حقیقت کی شکل دینے پر لوگوں کی کوشش جاری رہتی ہے۔ جہاں ہر تاریکی میں ڈوبا شخص روشنی کا پیروکار ہے۔ جہاں ہر شخص دکھوں کا بوجھ اٹھا کر تھک چکا ہے۔ جہاں انسان سالہا سال سے سکون کا متلاشی ہے۔

انسان دنیا میں بہت ترقی کر چکا ہے۔ ہزاروں میل کا فاصلہ چند گھنٹوں میں طے کر لیتا ہے۔ ہزاروں میل دور چند لمحوں میں پیغامات کی ترسیل کر سکتا ہے۔ بات چیت کرسکتا ہے۔ چاند پر بھی قدم رکھ چکا ہے، اس کے علاوہ نت نئی ایجادات آئے دن کرتا رہتا ہے۔ کیا اس نے زندگی سے مطمئن ہونے یا سکون حاصل کرنے کا فارمولا بھی ایجاد کر لیا ہے۔ سکون سے میری مراد کبھی زندگی میں یہ وقت آئے کہ بندہ ہر لحاظ سے اپنے آپ کو مطمئن سمجھے اور دل سے اس کا اظہار بھی کرے۔

زندگی ایک انتہائی پیچیدا لفظ ہے۔ اس کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں۔ کہ زندگی ایک خوبصورت احساس ہے، زندگی کھانے پینے اور موج اڑانے کا نام ہے۔ زندگی کھل کر جینے اور نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا نام ہے۔ زندگی ایسے لوگوں کے لیے تو ایک تحفہ ہے، جن کو یہ چیزیں دستیاب ہیں۔ یا ان لوگوں کے لیے بھی موجیں ہی موجیں جو زیادہ سوچتے نہیں ہیں، جو مل جائے اسی پر اکتفا کر لیں اس پر صد شکر کریں۔ یا جن کو شکر کرنا اور اللہ کے دیے ہوئے پر راضی ہونا آتا ہو۔ ایسے لوگوں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے۔ کیوں کہ اتنا ایمان نہیں ہے یہاں کسی کا اور مولوی تو خود نہیں اللہ کے دیے ہوئے پر اکتفا کر پاتے۔ اور پھر ہم ٹھہرے گناہگار لوگ۔

قدرت انسان کو سکون کب لینے دیتی ہے اگر آپ نے اپنے طور پر جو مقصد سوچاتھا۔ تو کسی طور اپنی محنت سے اور اللہ کے حکم اور رحمت سے حاصل کر بھی لیا ہو، مگر اس کے بعد وہ آپ کو کسی دوسرے مقصد کے پیچھے لگا دے گی۔ دوسرے کے بعد تیسرے اور اسی طرح آپ ایک ایسے پوائنٹ، موقع یا مقام کی طرف بھاگنا شروع کر دیتے ہیں جہاں پر آپ کو لگتا ہے کہ پہنچ کر یا وہ حاصل کر کے آپ مکمل طور پر مطمئن ہو جائیں گے۔ آپ لگے رہتے ہیں ساری زندگی مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا، یہاں تک کہ زندگی کی شام ہو جاتی ہے۔

بات کرتے ہیں اپنے سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کی۔ مطلب ایک شخص کو اس سے زیادہ کیا چاہیے کہ وہ کبھی ملک کا وزیر اعظم بن جائے اور تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ کے لیے لکھا جائے۔ مگر نہیں انسان مطئمن نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ تین بار وزیر اعظم رہ چکا ہے۔ اور اسے جب نا اہل قرار دیا گیا تو ان کے چہرے سے ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی غریب کے گھر فاقے چل رہے ہوں اور تین ماہ سے اسے تنخواہ نا ملی ہو۔ مطلب یہ کہ تین بار وزیر اعظم رہں نے والا اور نام، شہرت، پیسہ ہونے کے باوجود وہ بھی مطمئن نہیں ہو سکا۔

اسی طرح اپنے موجودہ وزیر اعظم کو دیکھ لیں۔ مطلب یہ پاکستان کے ان چند خوش نصیب لوگوں میں سے ہے جس نے عزت، شہرت، پیسہ معاشرے میں مقام اور نام اپنی جوانی میں ہی حاصل کر لیا تھا۔ اور پوری دنیا میں اس کی پہچان بن گئی تھی۔ اور کیا چاہیے تھا اسے کہ انوکھا لاڈلا بن گیا اور چاند کی بجائے ملک کی وزارت عظمٰی کے خواب دیکھنے لگ گیا۔ اور اسے حاصل بھی کر لیا مگر عوام کی چیخیں نکال دیں، خیر بات اور طرف نکل جائے گی۔

بات کرنے کا مقصد ہے کہ انسان کو ضرور جدوجہد کرنی چاہیے۔ ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچنے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے مگر انسان یہ نا بھولے کہ زندگی بھی گزر رہی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ کسی مقصد کے حصول میں لگائے جانے والے دن، مہینے، سال آپ پھر کبھی حاصل کر سکیں گے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ زندگی کی تلخیوں میں بھی جینا سیکھیں، زندگی جیئں، یہ نہیں کہ مقصد کے حصول کے لیے چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم رہو۔ اس سب کے بیچ دوستوں کا حلقہ ضرور رکھیں جہاں پر کچھ دیر کے لیے آپ زندگی کی تلخ، اور نا خوشگوار، حالات کو بھلا کر ایک چائے کے کپ کا لطف لے سکیں۔

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).