ہمپٹی ڈمٹی سَیٹ آن آ وال


Humpty Dumpty sat on a wall
Humpty Dumpty had a great fall
All the kings Horses & all the kings Men
Could not put Humpty together again

یہ وہ انگریزی لوک نظم ہے جو برسہا برس سے نہ صرف انگلینڈ بلکہ پوری دنیا میں بچوں کو نرسری سے ہی سکھائی پڑھائی جاتی ہے۔ تھوڑا سا اس کے پس منظر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیشہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ ننھے بچوں کو جس طرح چاہے اس سانچے میں ڈھال کر اسے بہترین نقش و نگار سے سجا سنوار کر دنیا کے میدان میں زندگی کے مختلف ادوار کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔ اِس نظم میں بچوں کو سکھایا جا رہا ہے کہ کسی کمزور، ناپائیدار دیوار پہ بیٹھنا کس قدر خطر ناک ہے کیونکہ آخر اس پوری دیوار کو ڈھے جانا ہے لیکن کچھ اناڑی، بھدے اور ڈھیٹ گندے بچے بھی ہوتے ہیں جو بات نہیں مانتے اور جا بیٹھتے ہیں اس دیوار پہ جو ناپائیدار ہونے کے سبب آخر گر ہی جاتی ہے۔

یہ نظم عالمی عدالت برائے انصاف میں کلبھوشن یادیو کے مقدمے میں پاکستان کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے کوئین کونسل خاور قریشی صاحب نے جو Barristerial Cap پہنے ہوئے اپنے دُبلے سے وجود مگر چہرے پہ متانت اور اعتماد کا گہرا رنگ لیے اس نظم کو انہوں نے پڑھا اور بھارت کے وکیل کو چاروں شانے چِت کر دیا۔ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اسی طرح بھارت نے ایک جعلی ناپائیدار جھوٹ کا سہارا لیا اور آج پوری دنیا دیکھ چکی ہے کہ وہ جھوٹ کی دیوار ڈھے گئی ہے۔

خاور قریشی صاحب کو QC یعنی کوئین کونسل کا اعزاز ملکۂ برطانیہ کی طرف سے دیا گیا۔ جب کوئی قانون کی دنیا میں غیر معمولی خدمات انجام دیتا ہے تو ملکہ برطانیہ اس اعزاز سے نوازتی ہے۔ خاور قریشی صاحب نے دلائل دیے کہ بھارت کے چال چلن کی جانچ پڑتال کریں تو معلوم پڑتا ہے بھارت ہمیشہ سے ہی حقائق کو توڑ مڑور کر پیش کرنے کا شوقین رہا ہے اور قانون کو بھی اپنے گھر کی باندی سمجھتا رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کے مقدمے کا فیصلہ سُنا دیا گیا: کہ کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میں ہی رہے گا۔

اس کی سزا پہ نظر ثانی پاکستانی عدلیہ کا اختیار ہے اس کی سزا بھی برقرا ہی رہے گی۔ مزید یہ کہ اُسے قونصلر رسائی دی جائے گی۔ ویانا کنونشن جاسوس قیدیوں کو اس حق سے محروم نہیں کرتا۔ جج عبدالقوی احمد یوسف نے 42 صفحوں پر مشتمل یہ فیصلہ پڑھ کر سُنایا۔ یہ کیس اتنا زبان زد عام ہے کہ اس کے پس منظر سے پاکستانی تو کیا بقیہ دنیا کے لوگ بھی واقف ہوں گے۔ کلبھوشن یادیو 2016 میں ایران کے چاہ بہار کی سرحد سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے پکڑا گیا۔

پھر ٹرائل کورٹس میں اس کا مقدمہ چلایا گیا۔ کلبھوشن یادیو کے اپنے جرائم کو قبول کرنے کے اعترافی بیانات موجود ہیں۔ فوجی عدالتوں کے تحت کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سُنا دی گئی۔ بھارت پہلے تو کلبھوشن یادیو کو ماننے سے ہی انکار کرتا رہا پھر بھارت نے کہنا شروع کیا کہ وہ بھارت کا بیٹا ہے اسے واپس کیا جائے۔ ظاہر ہے اس کے تمام جرائم ثابت ہونے کے بعد حتیٰ کہ غلط فرضی نام کے ساتھ بھارت حکومت کے زیرِ نگرانی اس کا بنایا گیا پاسپورٹ تک دنیا کے سامنے آگیا تو واپسی کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔

بھارت خود اس مقدمے کو لے کر دنیا کے سب سے بڑے انصاف مہیا کرنے والے فورم پہ گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دی ہیگ پیس پیلس میں یہ انصاف کی عدالت قائم کی گئی تھی اس کا بنیادی مقصد دو ملکوں کے مابین پنچایتی فیصلے کروانا ہے۔ 1963 میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس کا نام Vienna Convention تھا۔ اس معاہدے کے تحت جنگی قیدیوں کو انسانی حقوق کی پاسداری فراہم کرنا تھا جس میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ان کے Fair Trial کا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے قونصلر وغیرہ لے سکتے تھے۔

اگر دنیا میں کہیں دو ملکوں کے درمیان جنگ ہورہی ہو تو کسی بھی ملک کے فوجی جو گولیاں وغیرہ چلارہے ہوں اسی دوران پکڑے جائیں تو انہیں جنگی قیدی کہا جاتا ہے۔ جبکہ جاسوس چُھپ چُھپا کر آتا ہے اور پکڑا جاتا ہے۔ اس ضمن میں 1991 میں سب سے پہلا مقدمہ جرمنی نے امریکہ کے خلاف کیا تھا کہ لگ بھگ آٹھ دس سال سے کچھ جرمن امریکہ کی حراست میں رکھے گئے لیکن امریکہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔

کلبھوشن یادیو کے کیس میں انڈیا کہتا تھا کہ یہ ایران میں تجارت کرتا تھا جاسوس نہیں ہے ہمیں واپس کیا جائے۔ یہاں تک کہ بھارت نے نواز شریف کا وہ بیان جس میں اس نے کہا تھا کہ پاکستان سے دہشت گردی ہوتی ہے وہ بھی پڑھ کر سُنایا لیکن عالمی انصاف عدالت نے اسے بھی مسترد کردیا۔ ICJنے کلبھوشن یادیو کی سزا کو کالعدم نہیں کہا بلکہ اسے قونصلر رسائی دینے کی استدعا سنائی ہے۔ اس فیصلے نے بھارت کو دُھول چٹائی ہے کیونکہ یہ فیصلہ کُھل کر واضح کرتا ہے کہ کلبھوشن مجرم ہے اور یہ کہ پاکستان کا عدالتی نظام کتنا شفاف ہے۔

یہاں ایک خیال آتا ہے کہ آئیندہ انڈیا کبھی یہ جرأت نہیں کرے گا کہ پاکستان پہ جھوٹی تہمت لگائے۔ اس فیصلے نے پاکستان کا چمکتا انسانیت اور امن پسند چہرہ پوری دنیا پہ عیاں کردیا۔ ابھی نندن کو ہم نہیں بُھولے کہ وہ 27 فروری 2019 کو مِگ 21 اُڑاتے ہوئے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں داخل ہوا تو dogfight میں اسے میزائل مارا گیا۔ ابھی نندن نے اپنا پیرا شُوٹ کھولا اور طیارے سے بیدخل محفوظ نیچے اتر گیا۔

گاؤں میں اترتے ہی اس نے پوچھا کیا یہ بھارت ہے ایک نوجوان نے کہا ہاں! ابھی نندن نے جے ہند کے نعرے لگائے تو جواب میں لوگوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے اور اسے مارنا شروع کیا اتنے میں فوجی جوان آگئے اور اسے بچا کر اپنے ساتھ لے گئے نہ صرف اس کا علاج کروایا بلکہ عزت کے ساتھ اسے واپس کیا۔ ابھی نندن کی واپسی کا واقعہ امن، کشادہ دلی اور انسانیت کا واقعہ ہے۔ اگر حکمران مخلص ہوتو عوام کی سوچ بدل جاتی ہے۔

جنگ و بربریت میں کبھی کسی کی جیت نہیں ہوئی بس صرف انسانیت ہار جاتی ہے۔ ابھی نندن کو جنگی قیدی کہا جاسکتا تھا لیکن کلبھوشن یادیو کو کسی طور بھی نہیں۔ دوسری طرف افغان امن میں بھی پاکستان نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ بھارت کے بہت سے اخبارات نے اس بات کو قبول کیا کہ پاکستان افغان میں کامیابی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہا ہے اور انڈیا نے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ اب اس فیصلے کے بعد عالمی انصاف عدالت نے سارا اختیار پاکستان کو دے دیا ہے۔

کلبھوشن یادیو اپنے جعلی پاسپورٹ جس پہ حسین مبارک پٹیل نام درج تھا پر 17 بار بھارت سے باہر گیا اور واپس آیا۔ کلبھوشن کے خلاف مقدمہ اور اس کی سزا پانا کنونشن کی خلاف ورزی نہیں۔ پاکستان نے کلبھوشن کی گرفتاری کے فوراً بعد ہی بھارت کو مطلع کر دیا تھا۔ پاکستان میں نہ صرف یادیو کو سُنا گیا بلکہ اسے اپیل کا حق بھی دیا گیا مگر پھر تمام ثبوتوں کی روشنی میں اسے پھانسی کی سزا سُنا دی گئی۔ پاکستان نے انسان دوست ہونے کا بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے کلبھوشن کی ماں اور بیوی کی بھی ملاقات کی اجازت دی۔

بھارت نے کبھی آج تک ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ بھارت اپنے گریبان میں جھانکے۔ ہمارے یہاں سے اگر غلطی سے بھی کوئی سرحد پار کر جائے تو ہمیں اس کی شکستہ لاش ملتی ہے۔ یہ ہے بھارت کا چمکتا جمہوری چہرہ۔ اب عالمی عدالت نے فیصلے کا مکمل اختیار پاکستان کو دے دیا اور Vienna Convention کی شِق کے مطابق دیکھنا چاہیے کہ کیا کرنا ہوگا کنونشن کا نقطہ پڑھ لیجیے!

A counsul normally operates out of an embassy in another country with two function from which one is:

Protecting in the host country the interests of their countrymen!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).