احمدیوں سے نفرت کا اظہار


وطن عزیز میں خود کو احمدی کہنا تو کجا احمدیوں کے متعلق نرم رویہ رکھنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ نرم رویہ ہو نہ ہو اگر آپ احمدیوں سے نفرت کا اظہار نہیں کرتے ہیں تو پھر بھی آپ کو شک کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ گزشتہ دنوں ایک دفتری کولیگ نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ مرزا غلام احمد پر لعنت ملامت کریں ورنہ ہم سمجھیں کہ تم بھی احمدی ہو۔ راقم نے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ احمدی نہیں ہے اور مرزا صاحب کو گالی دینے سے انکار کردیا کہ میں کسی کو گالی نہیں دے سکتا ہوں۔

اب وہ کولیگ اکثر واٹس ایپ پر مرزا صاحب کو گالیاں لکھ کر بھیجتا رہتا ہے۔ دوسری جانب راقم کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ راقم مرزائی، قادیانی اور کافر ہے۔ اس دن سے کئی کولیگز کا رویہ بدل گیا ہے۔ یہاں تک مل کر چائے پینے، کھانا کھانے سے بھی گریز برتنے کی نوبت آچکی ہے۔ گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر ایک احمدی بزرگ کی ویڈیو گردش کر رہی ہے۔ جس میں بزرگ احمدی امریکی صدر ٹرمپ کو احمدیہ کمیونٹی اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے بارے اردو میں بتا رہا ہے۔

انگریزی ترجمہ شان تاثیر کر رہے ہیں۔ اب اس ویڈیو کو لے کر نفرت کے مزید الاؤ جلائے جارہے ہیں کہ دیکھیں قادیانی اور شان تاثیر ملک اور اسلام دشمنی کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ ویڈیو کو ہر طرف پھیلانے کی ہدایات دی جا رہی ہیں۔ سازش تو تب ہوتی کہ احمدی بزرگ غلط بیانی سے کام لے رہا ہوتا۔ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے وہ سب کچھ غلط ہوتا۔ شان تاثیر کے والد گورنر سلمان تاثیر بھی نفرت کی بھینٹ نہ چڑھے ہوتے۔ احمدی عبادتیں گاہیں نہ جلائی ہوتیں۔ احمدیوں کا عرصہ حیات تنگ نہ کیا ہوتا۔ پھر کہا جا سکتا تھا کہ احمدی دروغ گوئی سے کام لے کر ملک اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ پاکستان کا کوئی شہری بزرگ احمدی کی ایک بات کو بھی جھٹلا نہیں سکتا ہے اور اس امر سے انکار نہیں کر سکتا ہے کہ جو بزرگ احمدی نے ٹرمپ کے سامنے باتیں کی ہیں, وہ غلط ہیں اور محض پروپیگنڈا ہے۔ حقیقت سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ابھی چند پہلے سکھر میں ایک بے گناہ احمدی کو دن دیہاڑ ے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

سیالکوٹ میں چند مذہبی سیاسی مقامی راہنماؤں نے بلوا کر کے احمدی عبادت گاہ مسمار کردی تھی۔ لاہور میں احمدیوں کی دو عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے جس میں نوے کے قریب احمدی جاں بحق ہوگے تھے۔ نفرتیں پھیلانے والے کیا یہ چاہتے ہیں کہ ہم قتل کریں۔ احمدیوں سے جینے کا حق بھی چھین لیں اور احمدی چپ چاپ رہیں۔ آہ بکا بھی نہ کریں۔ شکایت بھی نہ کریں۔ حاموشی سے قتل ہوتے رہیں۔ مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر نفرت بعض کے نزدیک جزو ایمان ہے اور ان کی پیدا کردہ نفرتیں کئی انسانوں کی جان لے چکی ہیں۔

اللہ جانے آگے کتنے بے گناہ لوگ ان نفرتوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ ریاست نفرتوں کے خلاف بھی بیانیہ دے۔ ایسے لوگوں کا بھی احتساب کیا جائے جو مذیب اور عقیدے کے نام پر نفرتوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو چند مذہبی قوتوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ عمران خان حکومت نے جس طرح مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی جان بچائی ہے اور اسے آزادی دی ہے۔ امید ہے نئے پاکستان میں احمدیوں سمیت تمام اقلیتوں کو تحفظ دیا جا ئے گا اور تمام اقلیتوں کو برابر کے شہری کی حیثیت سے تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں گے۔ نفرتوں کے مراکز ختم ہوں گے۔ انسانی اقدار کو فروغ ملے گا۔ ہر مذہب اور عقیدے کا احترام کیا جائے گا۔ ایک دوسرے کی مقدسات کو مقدس ہی سمجھا جائے گا۔ مذہب اور عقیدے کے نام پر قتل وغارت گری کا باب بند ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).