بھارتی جاسوس کل بھوشن سے انڈین پائلٹ ابھی نندن اور چند عناصر تک


ستر سالوں سے بھارت پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگاتا رہا ہے جبکہ مکمل ثبوت فراہم کرنے سے بھی قاصر رہا ہے۔ دور جدید میں یہ بات روز روشن کی طرح پوری دنیا پر عیاں ہے کہ ہندوستان مختلف طریقوں سے پاکستان میں دہشتگردی کرانے کا خواہاں رہا ہے۔ کبھی ان کے سابق آرمی چیف پاکستان میں انتشار پھیلانے کی تجویز دے رہے ہوتے ہیں تو کبھی ان کے حاضرسروس میجر پاکستان کو دہشتگردی میں جھونکنے

کے نت نئے بولی وڈ ٹائپ ٹوٹکے بتارہے ہوتے ہیں جبکہ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول بھی پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ یہ ہی نہیں بھارتی وزیراعظم مودی بھی اپنے دہشتگردانہ اقدام اور پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہچانے پر اپنے عوام سے داد وصول کرتے رہے ہیں۔

عالمی شہرت یافتہ جاسوس کل بھوشن یادیو کو کون نہیں جانتا موصوف مارچ 2016 میں ہمیں گھس کر مارنے کی نیت سے آئے تھے تاہم سرحد پار کرتے ہی ”مارخور“ کے ہتھے چڑھ گئے۔ تحقیقی اداروں کی کاوش سے پتہ چلا کہ کل بھوشن یادیو، کمانڈر کل بھوشن یادیو ہیں۔ اس کے پاس سے نکالے جانے والے کاغذات اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ وہ انڈین نیوی کا حاضر سروس افسر ہے اور سترہ بار غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرچکا ہے۔ ایران کے راستے سے پاکستان میں داخل ہونے والے بھارتی جاسوس نے 29 مارچ 2016 کو ویڈیو اعترافی بیان میں کہا وہ انڈین نیوی کا حاضر سروس ملازم ہے۔

اس کی مدت ملازمت 2022 تک ہے۔ اعترافی بیان میں اس کا کہنا تھا کہ وہ بھارتی ایجنسی کی ایما پر پاکستان میں انتشاری کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ 2013 میں را میں شمولیت کے بعد اس کا ٹاسک بلوچستان کی علحیدگی اور کراچی میں خونریزی کرانے کا رہا ہے۔ اب کی بار بھی وہ اسی نیت سے آیا تھا مگر کارروائی کا آغاز کرنے سے قبل پاکستانی انٹیلی جنٹس کی گرفت میں آگیا۔ را ایجنٹ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایران میں چھوٹے پیمانے پر کاروبار کا سہارا لے کر رہائش اختیار کی اور اپنا نام بدل کر حسین پٹیل رکھا تاہم اتنی ہوشیاری کے باوجود معصوم لوگوں کا قاتل اللہ کی پکڑ سے نہ بچ سکا۔ واضح رہے بھارتی ایجنسی را کے جاسوس نے پاکستانی افواج کے پروفشنل ازم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کا روئیہ اس کے ساتھ بہت مثبت اور پیشہ وارانہ ہے۔ دوران گفتگو اس کی بے فکر مسکرائٹ اور قابل رشک صحت بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ بہت آرام سے ہے۔ جس کا اس نے خود اعتراف کیا ہے۔

پاکستانی ابلاغ عامہ پر جب بھارتی جاسوس کی گرفتاری کی خبر نشر ہوئی تو گویا بھارت کو سانپ ہی سونگھ گیا جب وہاں کے حزب اختلاف نے شور مچا اور اپنی سرکار سے جواب طلب کیا تو آئیں بائیں شائیں کے بعد کہنے لگے کے نا جانے پاکستان نے کس کو گرفتار کیا ہم تو نہیں جانتے مگر جب رفتہ رفتہ سچ پوری دنیا کے سامنے آگیا اور ایجنٹ کے دستاویزی ثبوت سامنے آئے تو انہوں جاسوس نیوی افسر کو اپنا سپوت مانا مگر وہ اسے حاضر سروس ماننے سے کنی کتراتے رہے۔

را ایجنٹ کے اعتراف کے بعد صوبائی حکومت بلوچستان کی جانب سے کل بھوشن پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کردی گئی بعد ازاں دس اپریل 2017 کو معصوم شہری کے قاتل بھارتی ایجنسی را کے ایجنٹ کو پھانسی کی سزا سنادی گئی۔

پھانسی کی سزا کا سنتے ہی بھارت تلملا گیا اور قونصلر رسائی کی ضد کرنے لگا غالبا وہ اس دوران یہ بھول گیا کہ 2008 میں دونوں ممالک کے مابین جاسوسی اور غیر ریاستی تحاریکی معائدے میں یہ طے پایا تھا کہ جاسوسی کی معاملے میں قونصلر رسائی ممکن نہیں ہوگی۔ اس معائدے کی شق کو نظر انداز کرکے ہندوستان کو ویانا کنونشن کی شقیں یاد آگئی اور اس نے عالمی عدالت انصاف کے سامنے ایڑیاں رگڑنا شروع کر دیا۔ پاکستان قونصلر رسائی کے مخالف نہیں تھا بس ہماری جانب سے کہنا تھا کہ آپ اس بات کو واضح کر دیں کہ وہ آپ کا حاضر سروس افسر ہے مگر بھارت چٹ بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی کی ضد لئے واویلا کرتا ہوا دس مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف کی چوکھٹ پر جا بیٹھا۔ پندرہ مئی 2017 کو عالمی عدالت کی بھارتی درخواست پر پہلی سماعت ہوئی 18 مئی 2017 کو آئی سی جے نے پاکستان کو ہدایت دی کہ عدالتی فیصلہ آنے تک کل بھوشن کو پھانسی نہ دی جائے۔

پاکستان نے 2017 کی 25 دسمبر یعنی یوم پیدائش بانی وطن قائداعظم محمدعلی جناح کے دن انسانی ہمدردی کے تحت بھارتی ایجنٹ سے اس کی ماں اور زوجہ کی ملاقات یقینی بنائی۔ سیکیورٹی کے حصار میں قاتل ایجنٹ کی ماں اور زوجہ کو لایا گیا۔ مکمل چیکنگ سے علم ہوا کہ خواتین کے چپل میں ایک چپ لگائی گئی ہے جسے تحویل میں لیا گیا اس کے باوجود پاکستانی دفتر خارجہ نے اس انسانی تقاضے کی بنیاد پر 30 منٹ کی ملاقات کو 40 منٹ تک یقینی بنایا مگر پھر بھی بھارتی رونا نہیں روکا۔

رواں سال 18 تا 21 فروری کو عالمی عدالت انصاف، ہیگ میں پاکستانی و بھارتی وکلا کی جانب سے دلائل دیے گئے۔ پاکستان کا مقدمہ وکیل خاور قریشی نے اس بہترین طریقے سے لڑا کہ بھارت کے پسینے چھوٹ گئے۔ بھارتی وکیل ہریش سالولے نے اپنا کمزور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی انگریزی روزنامہ ڈان میں شائع ہوا سابق وزیراعظم نواز شریف کا ایک انٹرویو کا ذکر کیا جس میں انہوں نے ممبئی حملوں میں پاکستان میں موجود تنظیموں کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ بھارتی وکیل کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی وکیل خاور قریشی نے کہا کہ پاکستان کی اعلی عدالت انہیں تاحیات نا اہل کرچکی ہے۔ بطور پاکستانی یہ بات ہم سب کے لئے باعث شرم ہے کہ ان کا سابق وزیراعظم اپنے ذاتی کاروبار کی ترقی و کامرانی کے لئے قومی سلامتی کے برعکس بے بنیاد بیان بازی کرچکا ہے۔

21 فروری 2019 کو دوطرفین کے دلائل سننے کے بعد عالمی عدالت انصاف نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو کہ سترہ جولائی کو سنایا گیا۔ جس کے فیصلے کے تحت بھارت کی تین درخواستوں میں سے ایک درخواست کو تسلیم کیا گیا۔

بھارت کی خواہش تھی کہ پاکستان کل بھوشن کی سزا ختم کرکے اسے رہائی دے یہ دونوں باتیں آئی سی جے نے مسترد کردئیں البتہ قونصلر رسائی کی درخواست تسلیم کرلی گئی۔ جس کی اہمیت محض ملاقات کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ آئی سی جے کے مطابق پاکستان کل بھوشن کو جب تکب پھانسی نہیں دے سکتا جب تک قونصلر رسائی اور پھانسی کی سزا کے فیصلے پر نظر ثانی نہ ہوجائے۔ عالمی عدالت انصاف کل بھوشن کا ری ٹرائل سویلین عدالت میں چاہتی ہے جو پاکستانی قانون کے مطابق ہوگا۔

اگر بھارت اپنا وکیل کرتا بھی ہے تب بھی پاکستانی قانون کا اطلاق ہوگا لہذا فیصلے کے تناظر میں بڑی کامیابی پاکستان کے حصے میں آئی ہے جبکہ بھارت بھی خوب تالیاں بجا رہا ہے۔ ہندوستان کے حکام اور میڈیا کی خوشیاں مناتی عکس بندی دیکھ دیکھ کر پی ایم ایل این کے دوستوں کی مھٹائیاں کھاتی تصاویرذہن میں اجاگر ہوگئیں تب سمجھ آیا عوام کو کیسے بے وقوف بنایا جاتا ہے جبکہ 27 فروری 2019 کا واقعہ بھی تو زیادہ پرانا نہیں ہے۔

رواں سال بھارت کی گیڈر بھبکی اور خود ساختہ سرجیکل اسٹرائیک جو درحقیقت درخت گراؤ ماحول دشمن مہم کا ڈراپ سین ہوا جس کے تحت ہندوستان کے دو جنگی جہاز اور ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہوا جبکہ بھارتی دہشتگرد پائلٹ پاکستان فوج کی گرفت میں آیا جیسے ہم نے لاہوری ناشتہ اور چائے پلاکر خیر سگالی کے تحت اس کے ملک واپس بھیجا، اعلی ظرفی اور مہمان نوازی پر ابھی نندن پاک فوج مداح بن کر گیا۔ بجائے اس کے ہندوستان، پاکستان کا احسان مند ہوتا بلکہ مزید ڈھٹائی پر اتر آیا اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ہمارے ایف سولہ گرانے کی بے سروپا باتیں کرنے لگا جبکہ ترجمان پاکستان فوج میجر جنرل آصف غفور کے مطابق 27 فروری کو ایف سولہ کی موجودگی یقینی ہی نہیں بنائی گئی تھی۔

بھارتی بے شرمی تو یہاں بھی واضح ہے کہ ان کے صحافی کنول جیت نے جس ایف سولہ کے ٹکڑے اپنے لائیو شو میں دیکھائے، دوران شو ہی پتہ چل گیا تھا کہ وہ ٹکڑے تو بھارتی طیارے کے ہی تھے مگراس صحافی کو بھی اپنی خبر باونس ہونے پر ذرا شرمندگی نہ ہوئی، خیر ایسے بد تہذیب اور صحافتی اقدار سے عاری منہ بولے سینئر صحافیوں کا ٹولہ تو وطن عزیز میں بھی کثیر تعداد میں موجود ہے۔ میری آنکھیں گواہ ہیں، جب، 26 فروری کو بھارتی خودساختہ سرجیکل درخت گراؤ اسٹرائیک کے ڈرامے کی اطلاع پر پاک افواج کا مذاق اڑاتی اور بھارتی ”ڈرامائی جیت“ کو مناتی اپنے تئیس میڈیائی دانشور ٹولے کے مسرت بھرے چہروں کی پھر جب پاک فوج کی جانب سے 27 فروری کو بھارت کا منہ توڑ جواب دیا گیا تو ان عناصر کے سوجی ہوئی شکلوں کی۔ یہ ہی نہیں بلکہ یہ آنکھیں تو انہیں بھی جانتی ہیں جو سترہ جولائی پر پاکستان کی ناکامی اور کل بھوشن کی رہائی کے منتظر تھے، مگر جب اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان سرخرو ہوا تو ان میڈیائی عناصر نے اپنے سوشل میڈیا

اسٹیٹس ہی ریمووے کردیے۔ حد تو یہ ہے ان میڈیائی وبائی عناصر نے نا تو 27 فروری پر خوشی منائی اور نہ ہی سترہ جولائی پر اظہار مسرت کیا کیونکہ ان ”بڑوں“ کو جو شکست ہوئی تھی۔ صدحیف ہے ان منہ بولے سینئر صحافیوں پر جو رہتے پاکستان میں ہیں مگر گاتے ہندوستان کا ہیں۔ ان قلم کاروں سے کہنا اتنا چاہونگی کہ کل بھوشن پاکستان میں ہی رہے گا۔

مجھے یقین ہے جس طرح اللہ کے فضل وکرم سے بھارت کو کل بھوشن اور ابھی نندن کی صورت میں شکست در شکست کا سامنا ہوا ہے انشاء اللہ یہ عناصر بھی جلدازجلد بے نقاب ہوکر اپنے انجام تک پہنچے گئے۔

رہے اللہ کا نام پاکستان زندہ آباد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).