حکمران ٹولے میں شامل نقب زن اور حاکم وقت کا عنقریب امتحان


نیب پراسیکیوٹر واثق ملک سے میں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ نیب جن ملزمان کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرتا ہے آپ لوگ عدالتوں میں اُن کے جرائم ثابت نہیں کر سکتے؟

انھوں نے جواب میں کہا کہ اس کا بڑا سبب کرپٹ عناصر کی وہ تکنیکی، صفائی، مہارت اور چالاکی سے جرائم کرتے ہیں کہ بڑے سے بڑا وکیل اور سراغ رساں ناکامی کی حد تک مشکل محسوس کرتا ہے اُس تکنیک کو ”وائٹ کالر کرائم“ کا نام دیا جاتا ہے۔

یہ بات بہت حد تک درست ہے مگر عوام کا یہ سوال بھی بہت حد تک جائز ہے کہ جن جرائم کو ثابت کرنے میں حکومتی ادارے ناکام ہو رہے ہوں عوام ان کے ثبوت کیونکر مہیا کر سکتی ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ کرپٹ لوگوں خلاف عوام آگے بڑھیں اور ہمیں ثبوت مہیا کریں تاکہ احتساب کی رفتار اُن کی امنگوں کے مطابق تیز کی جا سکے، میرے خیال میں وائٹ کالر کرائمز کی ایک بڑی وجہ وہ حکمت عملی ہے جو ستر سالوں سے ”ڈکیت گینگ“ نے اختیار کر رکھی ہے۔

یہاں مجھے مولانا روم کی ایک تمثیل شدت سے یاد آ رہی ہے جسے انھوں نے اپنی شہرہ افاق مثنوی میں درج کر کے اس حکمت عملی سے پردہ اُٹھایا مولانا روم فرماتے ہیں۔

کسی علاقے میں نقب زنوں کا ایک گروہ رہتا تھا اور اس گروہ میں شامل ہر فرد اپنے اپنے فن اور طاق میں یکتا تھا، ریاستی ادارے ان نقب زنوں کو پکڑنے اور اُن کے جرائم روکنے میں مکمل ناکام ہو چکے تھے، ایک رات سلطان محمود غزنوی بھیس بدل کر بذات خود گشت پر نکلا اتفاق سے اس گروہ تک جا پہنچا، نقب زن کسی وردات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

جب انھوں نے ایک اجنبی کو اپنے پاس دیکھا تو چونکے مگر محمود نے بڑی حکمت سے انھیں باور کروایا کہ میں خود حالات کا مارا ہوا غربت کا شکار ہوں اور ایسے گروہ کی تلاش میں ہوں جو مجھے اپنے ساتھ رکھے تاکہ میں بھی اپنا دھندا کر سکوں اور مجھ میں ایک خوبی ایسی بھی ہے جو تمھارے لیے ممدومعاون ہو سکتی ہے۔ وہ لوگ اس پر مطمئن ہو گئے ان سب نے ایک دوسرے سے کہا کہ ہر ایک اپنا اپنا کمال فن بیان کرے تاکہ واردات کے لیے نکلا جا سکے کہیں ایسا نہ ہو کہ رات گزر جائے اور کوتوال شہر جاگ جائے۔

ہر ایک نے اپنی اپنی مہارت کا باری باری ذکر کیا ان میں سے ایک بولا میرے اندر یہ خوبی ہے کہ میں مٹی سونگھ کر بتا سکتا ہوں کہ یہاں کیا دفن ہے؟ سونا چاندی، نقدی یا کچھ اور دوسرے نے کہا میں کسی کُھرپے پھاوڑے کی مدد کے بغیر ہاتھوں سے نقب لگا سکتا ہوں اگر اس دوران کتا بولے تو میں اُس کی بولی سمجھ جاتا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ تیسرے نے اپنی خوبی بتائی کہ وہ اگر کسی کو رات کے گُھپ اندھیرے میں دیکھ لے تو دن کی روشنی میں وہ اُسے پہچان سکتا ہے، جب سب لوگ اپنے اپنے اوصاف بیان کر چُکے تو انھوں نے نووارد سے پوچھا تم بتاؤ تمھاری کیا خوبی ہے؟ محمود نے جواب دیا کہ اگر میں داڑھی ہلاؤں تو قتل کے مجرم کی جان بخشی ہو سکتی ہے وہ سب خوش ہوئے یہ تو کام کا آدمی ہے۔

چنانچہ اُس گروہ نے اپنے ٹھکانے سے نکل کر واردات کا پروگرام بنایا ایک گھر کے سامنے پہنچ کر اپنے ساتھی سے کہا کہ مٹی سونگھ کر بتاؤ کہ گھر کے اندر کچھ ہے کہ نہیں وہ گھر ایک مالدار بیوہ کا تھا۔ اس نے مٹی سونگھی اور بتایا کہ گھر کے فلاں کونے میں خزینہ مدفن ہے، اب باری تھی ہاتھوں سے نقب لگانے والے کی اُس نے نقب لگائی اُدھر سے کتا بھونکا، سب نے چونک کر ساتھی سے پوچھا بتاؤ کتا کیا کہہ رہا ہے؟ اُس نے کتے کی آواز تھوڑی دیر سنی اور بولا ڈاکہ ڈالنے والو ذرا سوچ لو حاکم وقت تمھارے درمیان کھڑا ہے، سب نے اُس کا مذاق اُڑایا اور کہا تمھاری مہارت جعلی ہے بھلا یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ حاکم وقت یہاں موجود ہو۔

کامیاب واردات کے بعد ہر ایک اپنا اپنا حصہ لے کر چلتا بنا، سپیدہ سحر پھوٹا سلطان نے دربار لگایا اور اپنے کارندے بھیج کر ان سب مجرموں کو پکڑ لیا جب مجرم دربار میں پیش کیے گئے تو اُن کا وہ ساتھی بول اُٹھا جسے رات میں ملنے والے شخص کی کو دن کے وقت پہچان لینے میں مہارت تھی وہ پُکار اُٹھا تخت نشین وہی ہے جو رات ہمارے ساتھ تھا۔ اُس وقت انھیں اپنی ساتھی کی اُس بات پر یقین آ گیا جس نے کتے کی آواز سن کر بتایا تھا کہ وقت کا حاکم تمھارے درمیان موجود ہے بادشاہ نے اُن کے جرم کے بارے میں استفسار کیا۔

سب نے کہا کہ جہاں پناہ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی مہارت کا استعمال کیا، مٹی سونگھنے والے نے خزانے کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کی، ہاتھ سے نقب لگانے والے نے محض انگلیوں سے دیوار میں شگاف ڈال دیا، کتے کی آواز سمجھنے والے نے رات کو درست اطلاع دی اور رات کو دیکھے شخص کو دن کی روشنی میں پہچان جانے والے نے بتا دیا کہ رات کا ساتھی تخت شاہی پر جلوہ افروز ہے حضور والا اس وقت آپ کے کمال کے منتظر ہیں کہ اپ داڑھی ہلا دیں اور رہائی ہم سب کا مقدر بنے۔

اس حکایت سے یہ حکمت کشید کی جاتی ہے کہ ہمارے ہاں جرائم ہوتے ہیں مگر سراغ نہیں ملتا اگر مجرم پکڑے جائیں تو وہ عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں یہاں شروع دن سے یہ ہوتا آیا کہ ہر مجرم اپنے فن میں یکتا تھا اُن میں سے جو بھی کسی منصب پر فائز ہوا کرسی سونگھ کر اُسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے پاؤں میں کتنا خزانہ ہے۔ خواہ وہ پارلمینٹ کی سیٹ ہو یا افسرانہ کرسی، افسرانہ کرسی فوج کی ہو یا بیوروکریسی کی، ہر ایک کے ہاتھ اتنے لمبے اور مضبوط تھے کہ قوم کے خزانے پر بھی نقب لگاتے ہوئے انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی، اگر کسی صحافی کو کرپشن کی سُن گن ہو گئی اور اس بابت انھیں خبردار کیا تو یہ مطمئن رہے کہ حاکم وقت بھی اُن کے ساتھ کھڑا رہا اگر کہیں یہ لوگ پکڑے بھی گئے تو اونچی گدی پر انھیں رات کا ہمراہی بیٹھا نظر آیا ہر بار داڑھی ہلا کر ان کی مشکل آسان کرتا رہا۔

اس وقت بھی وہی حالات ہیں وہی منظر ہے، ویسے ڈاکو اور چور بھی ہیں، کمالات اور کرامات رکھنے والے اس کابینہ میں بھی موجود ہیں انھیں حاکم وقت سے پہلے جیسی توقع ہے اس لیے وہ پُھدک رہے ہیں یہ محمود غزنوی پر منحصر ہے کہ وہ اپنا سر نیچے کی طرف ہلاتا ہے یا گردن نفی میں گھماتا ہے۔

آئندہ چند دنوں میں حاکم وقت کی کابینہ کے دو اہم رُکن پکڑیں جائیں گے۔ دیکھتے ہیں کہ حاکم وقت داڑھی ہلا کر اُن کی جان خلاصی کراتا ہے یا گردن نفی میں گُھما کر انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالتا ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui