جج کی ویڈیو کا فارنزک تجزیہ۔ اب کیا ہوئیں گا


جج ارشد کی ویڈیو کے فارنزک تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ چھٹی والے دن عدالت سے پریس ریلیز جاری کر کے ویڈیو کو ”جعلی اور مفروضی“ کہنا ایک جعلی اور مفروضی بات تھی۔ یعنی ویڈیو اور آڈیو اصلی ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ ارشد ملک نے غلط بیانی کی تھی کہ مختلف مواقع پر کی جانے والی گفتگو جوڑ کر یہ ویڈیو بنائی گئی ہے۔ ویڈیو میں ارشد ملک نے نواز شریف کو سزا دینے کے لئے دباؤ کا اعتراف کیا تھا۔ فارنزک تجزیہ وفاقی وزارتِ داخلہ کے ماتحت ادارے ایف آئی اے نے پنجاب فارنزک سائنس لیبارٹری سے کروایا ہے۔

ارشد ملک کے اعتراف جرم (کسی بھی دباؤ پر ایسا فیصلہ کرنا جو جج کے خیال میں درست نہ ہو جرم ہی کہلائے گا۔ کم از کم اس پر فراہمی انصاف کی تہمت تو نہیں دھری جا سکتی) کی سنگینی کم کرنے کا واحد طریقہ اب یہی رہ گیا ہے کہ ویڈیو سامنے آنے کے ڈیڑھ منٹ بعد فیاض چوہان کے سامنے آنے والے اس دعوے کو سچ مان لیا جائے کہ جج ارشد کو شراب کے نشے میں دھت کر کے یہ باتیں کہلوائی گئیں۔

اس صورت میں البتہ ایک قباحت ہے کہ ارشد ملک کو بھی شراب نوشی کی سزا دینی پڑ جائے گی۔ اس کی وجہ یہ کہ آپ کے اپنے ڈرائنگ روم میں آپ کی بھیجی ہوئی گاڑی پر تشریف لا کر کوئی آپ کو زبردستی تو دھت نہیں کر سکتا۔ یعنی یہ کہہ کر ارشد ملک کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ان کو زبردستی پلائی گئی۔ اگر دھت تھے تو انہوں نے برضا و رغبت پی ہو گی۔ اس دوران آلات موسیقی پر ماہرانہ گفتگو سے بھی یہی لگتا ہے انہوں نے اگر پی تو طبیعت سے پی۔ ڈنڈے کے زور پر پینے والے ستار کی تاروں کی ترنگ پر گفتگو نہیں کرتے، بلکہ کچھ بھی بولتے ہوئے قے کر دیتے ہیں۔

بہر حال جملہ معترضہ خاصا طویل ہو گیا۔ قے تو ارشد صاحب کر بیٹھے۔ اگرچہ معدے میں انڈیلے گئے ماکولات و مشروبات نہیں بلکہ ذہن میں گھر کیے ہوئے خوف کو منہ سے اگل دیا۔

تو اب ان پر شراب نوشی کی حد لگانی پڑ جائے گی۔ لیکن اس میں بھی مزید قباحت یہ ہے کہ صرف ایک پریس کانفرنس پر گھبرا کر جھوٹی پریس ریلیز جاری کرنے والا شراب نوشی کی سزا کا سن کر مزید سچ نہ بولنا شروع کر دے۔ اگر اس نے یہ بتانے کا تہیہ کر لیا کہ دباؤ کہاں سے تھا، کس کے ذریعے تھا وغیرہ وغیرہ تو پھر۔ یہ معاملہ مزید پیچیدگیوں کو جنم دے گا۔

عملیت پسندی پر مبنی ہماری رائے یہی ہے کہ اس کیس کو بجائے جج ارشد، ناصر بٹ یا اسی قبیل کی کسی معزز شخصیت پر ڈالنے کے جس کا ردعمل نامطلوب ہو سکتا ہے، شراب سپلائی کرنے کے الزام میں مدعا ارشد مسیح یا ناصر پطرس پر ڈال دیا جائے۔

اس نام کے دو شہری ڈھونڈنا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام آباد کے پوش سیکٹروں میں برساتی نالوں کے گرد آباد کچی بستیوں اور ایکسپریس وے پر مشرقی سمت میں ایسے کئی گھر ہیں جہاں سے ان ناموں کے لوگ مل سکتے ہیں۔

ویسے بھی سارا ملک جانتا ہے کہ یہ نیم خواندہ اور ان کچی بستیوں کے مکین قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور لائسنس پر حاصل کردہ لال پری دکھا کر سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلاتے رہتے ہیں کہ ان سے مال خرید لیں۔

پیش نوشت: یہ ایک طنزیہ تحریر ہے۔ اسے نظام عدل اور احتساب کے عمل کی حقانیت کے بارے میں قانونی موشگافی سمجھنے سے گریز کی درخواست ہے۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).