کرد انجیلینا جولی: حقیقی زندگی کی ہیروئن


\"asia-antar\"مغربی میڈیا کی جانب سے کرد جنگجو آسیہ رمضان انتار کی شہادت کو لیکر نئی بحث کا آغاز شروع کردیا گیا ہے ۔ بظاہر یہ کردوں کے ساتھ لبرل یکجہتی نظر آتی ہے لیکن گہرے تجزیہ میں سب کھوکھلا نظر آئے گا اور صرف کمرشل مفادات ہی باقی رہیجاتے ہیں۔ جب آسیہ اور دیگر کرد خواتین جنگجوں کی بہادری، جنگی حکمت عملیوں اور قابلیت کی بجائے انکی نسوانی خوبصورتی کو مثال بنا کر پیش کیا جائے جو اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ دار دنیا کو خواتین کی بہادری ہضم نہیں ہو رہی اور وہ عملی طور پر آج بھی جیلان آزلپ ، آسیہ یا ریحانہ جیسی سپاہیوں کو نازک اندام عورت کے طور پر دیکھتی ہے۔

آسیہ کا تعلق کرد مزاحمتی گروپ YPJ کے خواتین حفاظتی یونٹ سے تھا جو عراق، شام اور ترکی کے کرد علاقوں میں داعش کے خلاف لڑنے والی کرد خواتین کا سب سے موثر عسکری ونگ ہے جس نے امریکہ، ترکی کے طیب اردگان اور عربی بادشاہوں کے پالتو داعش کے جنگجوں کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ اپنے علاقوں سے نکالا۔

YPJ خواتین کے مردوں کے برابر حقوق کی علمبردار ہے اور پدرسری خاندانی نظام کی شدت سے مخالف ۔ شہید آسیہ کی طرح اس تنظیم کی ارکان حربی، سماجی و معاشی میدانوں سے لیکر گھریلو اور ذاتی معاملات میں خواتین اور مردوں کے ایک جیسے حقوق و فرائض کی حامی ہیں۔ آسیہ کے مطابق خواتین کو مردوں کی نقل کی ضرورت نہیں بلکہ انکو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ یہ فکر مارکسٹ نقطہ نظر سے بہت نزدیک ہے ۔ مارکسزم عورتوں کو سرمایہ داری کی بازاری شئے کے زاویے سے دیکھنے کی سخت مخالفت کرتا ہے اور انسان ہونے کے ناطے خواتین کے سماجی کردار پر زور دیتا ہے جو خواتین کی سماجی محنت کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر اینگلز نے خواتین کی سماجی محکومیت کو معاشی محکومیت کا نتیجہ قرار دیا تھا۔

\"asia-angelina\"

YPJ نے عراق سے لیکر ترکی کے بارڈر تک اسلامی شدت پسندوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ YPJ کی جنگجو جیلان اوزالپ کے مطابق داعش کے ارکان کسی خاتون کو بندوق کے ساتھ دیکھتے ہی کانپنے لگتے تھے اور بھاگ جاتے تھے کیونکہ عورت کے ہاتھوں موت کی صورت میں نہ جنت مل سکتی تھی اور نہ ہی بہتر حوریں۔ اسی لئے داعش کے خودکش حملہ آوروں نے سامنے سے لڑنے کی بجائے آسیہ کے مورچے پر گولہ باری کی حکمت عملی اختیار کی ۔

آسیہ سے پہلے کوبانی کی ایک اور خاتون (جس کو ریحانہ کے نام سے پکارا جاتا تھا ) داعش کے خلاف شہرت حاصل کرچکی تھی۔ اس کو ہلاک کرنے کے دو دعوے آچکے تھے جبکہ داعش کے سپاہی کے ہاتھ میں YJPJ کی ایک خاتون سپاہی کے کٹے ہوے سر کو ریحانہ کا سر ہونے کا دعوی کیا گیا لیکن جلد ہی کرد حریت پسندوں نے داعش کے مذکورہ سپاہی کو مار کر فوٹو جاری کردی۔

یاد رہے کہ ترکی کی جماعت اسلامی اے کے پارٹی کے طیب اردگان کے ساتھ پارٹنرشپ میں تیل کی فروخت کے بعد داعش کا سب سے بڑا ہتھیار بچیوں سے لیکر جوان عورتوں تک کی فروخت ہے اور اس دلالی کو داعش کے سرکردہ اور حامی موجودہ دور میں بھی صحیح ثابت کرنے کے دعوے کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے تناظر میں ان لوگوں کی نیت خوب واضح نظر آنی چاہیں جو پاکستان میں ترکی کے طرز حکومت یا لال مسجد سے داعش کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

لیکن کرد خواتین نے بہت سے علاقوں میں داعش کی کمر توڑ دی ہے ، جبکہ لمبی جدوجہد کے تناظر میں کرد مزاحمت کے مستقبل قریب میں خاتمے کا کوئی امکان نہیں ۔ اگر روس مسقبل میں مغرب سے مصالحت نہیں کرتا اور کرد مزاحمت کی سیاسی حمایت کرتا ہے تو ایسا عمل کردوں کے ہاتھوں علاقے میں سامراجی گماشتہ رجعت پسندوں کو کاری ضرب لگا سکتا ہے۔

سیاسی اختلافات کے باوجود آسیہ سمیت تمام شہید اور میدان جنگ میں نبرد آزما کرد خواتین سپاہیوں کوزندگی کی حقیقی ہیروئن قرار دیا جاسکتا ہے۔ جو خصوصاً پاکستان میں گھروں میں قید عورتوں ، یونیورسٹی میں سیاسی شعور سے نابلد طالبات اور سماج کے پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لئے مشعل راہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments