کولمبو شہر کی رونقیں


کولمبوسمندر کے کنارے آباد سری لنکا کا شہر ہمارے کراچی سے تقریبا ملتا جلتا ہے۔ یہ قدیم اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔ کبھی کراچی ایک عروس البلاد تھا، پچاس سے ستر کی دیہائی تک یہ مشرق کا ایک ترقی یافتہ اور انٹرنیشنل شہر تھا، جس کی راتیں جاگتی تھیں۔ پھر پتہ نہیں کس کی اس شہر کو نظر لگ گئی۔ سیر کے لئے بیرون ممالک جانے والے نئے لوگوں کو میرا مشورہ ہے۔ جس ملک میں بھی آپ نے جانا ہے انٹرنیٹ پر اس ملک اور اس کے شہروں کے بارے میں اچھی طرح سے سرچ کر لیں۔

کھانے کی جگہیں۔ شاپنگ سینٹر۔ دوسری مشہور جگہوں اور سفری معلومات پر نوٹ لکھ کر پاس رکھ لیں آپ کے بہت کام آئیں گی۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی کولمبوکی۔ اس شہر نے بھی زمانے کے ساتھ ساتھ بہت ترقی کر لی ہے۔ سیاحت کے لئے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب یہاں میسر ہیں۔ اچھی سفری سہولیات۔ پرامن ماحول اور اچھے معیار کے افورڈایبل ہوٹل ٹورسٹ کے لئے دلچسپی کا باعث اور سیاحت کا ایک لازمی جزو ہیں۔ سیاحت اس وقت بہت سے ملکوں کی کمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔

دن بھر کی سفر اورسیر کی تھکاوٹ کے بعد زیادہ تر ٹورسٹ پبوں۔ کلبوں اور مساج سینٹرز میں جانا پسند کرتے ہیں۔ ۔ کولمبو میں بھی سیاحوں کے لئے کافی ایٹریکشنز موجود ہیں۔ شہر میں دو تین بڑے بڑے کسینو ہیں، جن میں سب سے بڑا اور مشہور کسینو کا نام بالیگئیو Bellagio Colombo ہے۔ ہمیں چونکہ ایسی چیزوں میں دلچسپی نہیں تھی اس لئے اندر جانے کا اتفاق تو نہیں ہوا۔ لیکن ہمارے گائیڈنے بتایا کہ کراچی سے کافی لوگ اپنی قسمت آزمانے کے لئے اکثر یہاں آتے ہیں۔

مغرب کے سیاحوں کے لئے دوتین اچھے نائیٹ کلب اور پب ہیں۔ نائیٹ کلب عموما شام چھ سات بجے سے صبح چار پانچ بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ ردہم اینڈ بلو Rhythm and Blues اور سکائی لاؤنج Sky Lounge کولمبو کے بہت بڑے اور کافی مہنگے نائیٹ کلب ہیں جہاں بہت عمدہ معیار کے سگار۔ بہت اچھی شیمپیئن اور بہترین کاک ٹیل دستیاب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انڈین کلب بھی کافی تعداد میں ہیں جہاں انڈین گانوں پر ڈانس ہوتا ہے۔ ہالی ووڈ کولمبو انڈین ڈانسنگ کلب Hollywood Colombo Indian Dancing Club اور پلینٹ بالی ووڈ Planet Bollywood کا شمار اچھے انڈین کلب میں ہوتا ہے۔ سمندر کے کنارے بہت اچھے اور معیاری ریسٹورینٹ ہیں جہاں سری لنکن اور کانٹینینٹل کھانے ملتے ہیں۔

ہم لوگ مدھوگنگا دریا کی سیر سے فارغ ہو کر اپنی کوچ میں بیٹھے۔ اس دفعہ ڈرائیور ہمیں دوسرے راستے سے ایک نئی تعمیرشدہ دو رویہ سڑک سے کولمبو شہر لے کر آیا۔ یہ سفربہت ہی آرام دہ تھا اور ہم بہت جلدی پہنچ بھی گئے۔ ہوٹل پہنچ کر گرم پانی سے غسل کرنے سے کافی راحت ملی اور تھکاوٹ بھی کم ہوئی۔ بستر پر لیٹا تو غنودگی سی چھا گئی۔ کمرے کے فون کی گھنٹی سے آنکھ کھلی۔ لائن پر عابد سلطان تھا جو پوچھ رہا تھا کہ شا م کے پروگرام کا کیا کرنا ہے۔

عابد میرا کولیگ تھا اسے اس بینک میں آئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا لیکن بہت جلد ہماری ذہنی ہم آنہگی ہو گئی تھی۔ ہم تین چارٹورز میں اکٹھے ہوئے اور بہت مزا آیا۔ ہمارا پروگرام یہ بنا تھا شام کو ہم ایک بوتیک پر جائیں گے جہاں سے ہم کچھ شاپنگ کریں گے۔ بوتیک کے بارے میں میں نے انٹرنیٹ پر پڑھا تھا اور ا یک دن پہلے بوتیک سے رابطہ کر کے ایڈریس اور لوکیشن کے علاوہ شام کا وقت بھی لے لیا تھا۔ میں نے عابد سے لاؤنج میں ملنے کو کہا اور خود تیار ہو کرنیچے آیا۔

ہم دونوں ہوٹل سے باہر آئے اور سڑک پر کھڑے ایک رکشے والے سے ایڈریس دکھا کر چلنے کا پوچھا۔ اس نے پندرہ سو روپے مانگے جو کہ بہت زیادہ تھے۔ کافی بھاؤتاؤ کے بعد وہ آخر ایک ہزار میں مان گیا۔ بوتیک ہمارے ہوٹل سے کافی دور تھا۔ سڑک پر گاڑیاں۔ ٹیکسیاں۔ بسیں اور رکشے ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ٹریفک بہت زیادہ تھی اس کے باوجود چل رہی تھی۔ بوتیک کے ایڈریس پر رکشے والا ہمیں اتار کر چلا گیا تھا ے یہ ایک رہائشی علاقہ تھا۔

ایک بنگلے کے گیٹ پر چھوٹا سا بوتیک کے نام کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ ہم تھوڑا سا گھبراہٹ کا شکار تھے۔ ایک غیر ملک۔ اجنبی شہر اور رہائشی علاقہ۔ کمرشل ائریا کی اور بات ہے۔ عابد نے بیل بجائی۔ تھوڑی دیر بعد گیٹ کھلا اور ایک نوجوان خاتون نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے اسے بوتیک کا پوچھا۔ اس نے ہمیں انتظار کرنے کو کہا۔ دو منٹ بعد وہ واپس آ ئی اور ہمیں اندر آنے کو کہا۔ میں اور عابد اس کے پیچھے چل پڑے۔

وہ ہمیں ایک بڑے کمرے میں لے گئی اور بیٹھنے کو کہا۔ ہم دونوں ایک طرف پڑے صوفے پر بیٹھ گئے اور کمرے کا جائیزہ لیا۔ کمرے کے ایک طرف کپڑوں کا سٹاک تھا۔ دوسری طرف کچھ گتے کے کارٹن تھے جن میں بھی کپڑے تھے۔ ایک دیوار کے ساتھ بڑی بڑی الماریاں بنی تھیں۔ ان میں سلے کپڑے لٹکے تھے۔ ایک طرف ٹیلرنگ کا سامان تھا۔ جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں دو صوفے اور ایک سینٹرل ٹیبل پڑا تھا۔ اتنی دیر میں ایک خاتون اندر آئیں۔

وہ پینتیس چالیس سال کی ایک خوبصورت سانولی سلونی خاتون تھیں۔ تعارف کے بعد ہماراحال احوال پوچھا۔ وہ بڑے اچھے لہجے میں بہت اچھی انگلش بول رہی تھی۔ ا س نے بتایا کہ وہ دس سال سے یہ بوتیک چلا رہی ہیں اور زیادہ تر آن لائین آردڈر بک کرتی ہیں۔ وہ کپڑا انڈیا سے منگاتی ہیں اور وہیں سے ڈیزائین بھی بنواتی ہیں لیکن سٹچینگ لوکلی کرواتی ہیں۔ ہمیں ایک دو سوٹ پسند آ ئے جو کہ بہت مہنگے تھے پھر بھی ہم نے دودو سوٹ خرید ہی لئے۔

قیمت اس نے کچھ کم کر دی کہ آپ پاکستان سے آئے ہیں اور میرا بوتیک ڈھونڈ کر یہاں پہنچے ہیں۔ اتنے میں وہی پہلے والی لڑکی چائے لے کر آ گئی۔ ساتھ میں کچھ نمکین رول اور سبزی سے بنے پکوڑے اور بسکٹ تھے، ہم نے چائے کے لئے اس کا شکریہ ادا کیا تو اس نے کہا کہ آپ مہمان ہیں اور ویسے بھی میں آن لائین ہی آردڈر بک کرتی ہوں اس لئے یہاں بوتیک میں لوگ کم ہی آتے ہیں۔ ۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ میرے کپڑوں کے زیادہ تر خریدار انگلینڈ۔

امریکہ۔ کنیڈا اور یورپ میں مقیم ایشائی خواتین ہیں۔ میرا اصول مناسب قیمت۔ اچھی کوالٹی کا کپڑا اور بہت اچھی سلائی ہے۔ ایک ایک تیار کپڑا میں خود چیک کرتی ہوں اس لئے پچھلے آٹھ دس سالوں میں کبھی کوئی شکایت نہیں آئی۔ ہم نے کچھ ذاتی باتیں بھی کر لیں۔ اس نے بتابا کہ اس کے میاں کولمبو میں ایک پرائیویٹ فرم میں انجینیر ہیں۔ تین بچے ہیں جو ایک بہترین سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ گھر کے ایک حصے میں بوتیک ہے اور ایک حصے میں وہ خود رہتے ہیں۔

سمندر کے کنارے بنا یہ خوبصورت گھر ان کا اپنا ہے جس کی موجودہ مالیت اڑھائی کروڑ تک ہے۔ وہ اس بزنس سے اپنے میاں سے زیادہ کما رہی ہیں اور ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم نے اجازت چاہی تو اس نے ہمیں بتایا کہ گلی مڑ کے سو گز کے فاصلے پر مین سڑک ہے جہاں سے آپ کو رکشہ ٹیکسی یا بس مل جا ئے گی۔ میں اور عابد نے چائے کے لئے اس کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آ ئے۔ مین سڑک پر پہنچے تو نزدیک ہی بس سٹاپ تھا۔

ہم بس سٹاپ پر کھڑے ہو گئے۔ دس منٹ تک رکشہ نہیں ملا۔ اب ہم نے بسوں کو دیکھنا شروع کیا۔ لیکن پتہ نہیں تھا کون سی بس ہمارے ہوٹل کی طرف جائے گی کیونکہ سب کے بورڈ مقامی زبان میں تھے۔ ہمارے قریب ہی ایک نوجوان کھڑا تھا میں نے اس کو مخاطب کیا۔ ایکسکیوز می پلیز۔ اس نے بڑی اچھی انگلش میں جواب دیا۔ جی میں آپ کے لئے کیا کر سکتاہوں۔ عابد نے اسے پوچھا کہ ہم نے سنامن گرینڈ ہوٹل میں جانا ہے، کون سی بس جائے گی۔

اس نے نمبر بتایا تو ہم نے اپنی مشکل بتائی تو اس نے کہا کہ میں نے جانا تو کہیں اور ہے لیکن آپ والی بس پر آدھے رستے چلتا ہوں۔ ایک بس کو دیکھ کر اس نے ہمیں اشارہ کیا اور ہم اس کے ساتھ بس میں بیٹھ گئے۔ دس دس سری لنکن روپے کے ٹکٹ تھے ہم نے اس کا ٹکٹ لینے کی کوشش کی لیکن اس نے منع کر دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک وکیل ہے اور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتا ہے۔ تین چار سٹاپ کے بعد اس نے بس کنڈیکٹر کو بلایا اور اپنی زبان میں کچھ کہا اور ہمیں بتایا کہ وہ اگلے سٹاپ پر اتر جائے گا لیکن اس نے کنڈیکٹر کو بتا دیا ہے اور وہ آپ کو ہوٹل کے بالکل نزدیک اتار دے گا۔

ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ تین سٹاپ کے بعد کنڈیکٹر نے ہمیں اشارہ کیا کہ تیار ہو جائیں۔ ہم جیسے ہی بس سے اترے تو سامنے ہی ہوٹل کا سائن نظر آ رہا تھا۔ تقریباً سو میٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم ہوٹل میں داخل ہو گئے۔ لابی میں گروپ کے کچھ دوست اور ساتھی خواتین بیٹھی تھیں ہمارے ہاتھوں میں شاپنگ بیگ پوچھا کیا لے کر آئے ہیں۔ جب ہم نے بتایا تو کہا کہ ہمیں کیوں نہیں لے کر گئے۔ ہم نے کمرے میں سامان رکھا اور لابی میں آ گئے۔

آج کے ڈنر کے لئے ہمارے ٹور مینیجر نے سب کو پہلے ہی نقد ادائیگی کر دی تھی اس لئے ڈنر ہم نے اپنے طور پر کرنا تھا۔ ہم دو تین دوست ہوٹل سے باہر نکلنے لگے تو ایک صاحب نے بتایا کہ ساتھ والے شاپنگ مال کے بیسمنٹ میں بہت بڑا فوڈ کورٹ ہے۔ یہ ایک بہت بڑا اور جدید شاپنگ مال تھا جہاں اوپر والے تین فلورز میں لوکل اور انٹرنیشنل برینڈز کے بڑے بڑے سٹور ز کے علاوہ سری لنکن لوکل ورائیٹی کے بھی اچھی شاپس تھیں۔ ہم لفٹ سے نیچے بیسمنٹ میں اترے۔

یہ کافی بڑا کورٹ تھا۔ میکڈونلڈ، کے ایف سی اور سب وے کے علاوہ اور بہت سے کھانے کے ہوٹل تھے، جس طرح آج کل ہمارے سینٹورس اور گیگامال میں ہیں فرق صرف یہ ہے کہ یہاں یہ چوتھی منزل پر ہیں اور وہاں یہ تہہ خانہ میں واقع تھے۔ ہم نے چونکہ دوپہر کو کافی پرتکلف کھانہ پیٹ بھر کر کھایا تھا اس لئے کوئی خاص بھوک نہیں تھی۔ ہم کوئی حلال دیکھ رہے تھے کیونکہ میکڈونلڈ، کے ایف سی اور سب وے میں حلال ملنا مشکل تھا۔ ایک جگہ سے حلال تسلی کے بعد ہم نے دال چاول پسند کر کے آرڈر دیا۔

بہت ہی مناسب قیمت میں بہت ہی مزیدار دال چاول تھے جو بھوک کم ہونے کے باوجود خوب سیر ہو کر کھایا اور یہ فیصلہ ہوا کہ رات کا کھانا اب یہیں کھانا ہے۔ دن میں زیادہ چلنے کی وجہ اور کچھ خون میں یورک ایسڈ کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے میرے ایک پاؤں میں درد ہو رہا تھا۔ کمرے میں آکر میں نے جوتا اتارا تو درد میں اضافہ ہونے لگا۔ یہ پہلی بار تھی جب میں اپنے ساتھ گاؤٹ کے درد کی ادویات لانا بھول گیا تھا۔ پین کلر نہ کھانے کی صورت میں درد کے اضافہ کا اندیشہ تھا۔

درد زیادہ ہونے کی صورت میں صبح کا پروگرام خراب ہونے کا بھی خطرہ تھا۔ میں نے کچھ دیر ریسٹ کی۔ پھر چپل پہن کر نیچے لابی میں آ یا کہ اگر نزدیک کوئی ڈسپینسری ہو تو وہاں سے دوائی لے لوں۔ لابی میں اپنے کولیگ خرم تصدق سے ملاقات ہوگئی۔ باس کیا ہوا، لنگڑا کیوں رہے ہیں، اور کہاں جا رہے ہیں۔ خرم نے پوچھا۔ یار گاؤٹ کا درد ہے، کسی فارمیسی کی تلاش کرنے لگا ہوں۔ میں نے اسے بتایا۔ باس آپ مجھے دوائی کا نام لکھ دیں میں لے آتا ہوں۔

خرم نے اپنی روایتی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔ نہیں یار میں خود ہی لے آتا ہوں۔ میں نے اسے جواب دیا۔ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ یہ کہہ کر خرم میرے ساتھ چل پڑا۔ ہم ہوٹل سے باہر نکلے۔ ایک رکشے والے سے کسی فارمیسی کا پوچھا تو اس نے کہا بیٹھو میں لے چلتا ہوں۔ ہم نے پیسوں کا پوچھا تو اس نے پندرہ سو مانگے جو کہ بہت ہی زیادہ تھے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ گوگل پر دیکھا جائے اس خیال کے آتے ہی میں نے جیب سے اپنا سمارٹ فون نکالا اور گوگل پر نزدیک ترین فارمیسی سرچ کی۔

گوگل نے سو میٹر کا فاصلہ بتایا۔ گوگل میپ ایک ایسی جدید ٹیکنالوجی ہے جو آ پ کو آپ کی مطلوبہ جگہ لے جا تی ہے۔ سری لنکا میں ویسے بھی انٹرنیٹ کی سروس بہت اچھی ہے۔ میں نے وہاں ائیرپورٹ سے ہی سم لے لی تھی۔ اس لئے سارے ٹور کے دوران اس کا فائدہ اٹھایا۔ میں اور خرم گوگل کے بتائے ہوئے راستے پر پیدل ہی چل پڑے۔ تقریباً سات آٹھ منٹ پیدل چلنے کے بعد ہم ایک فارمیسی کے سامنے کھڑے تھے۔ ہم نے گوگل زندہ باد کا نعرہ لگایا اور فارمیسی کے اندر چلے گئے۔

کاؤنٹر پر کھڑے ایک لڑکے کو میں نے ایک کاغذ پر متعلقہ دو دوائیوں کے نام لکھ کر دیے۔ اس نے وہ چٹ اپنے ساتھی کو دکھائی تو اس نے بتایا کہ یہ تو نہیں ہیں۔ میں نے اسے گاؤٹ کے لئے کسی دوائی کا پوچھا ا۔ اتنے میں ایک ادھیڑ عمر صاحب اندر سے آئے اور پوچھا کہ کیا بات ہے۔ میں نے دوائی کے متعلق بتایا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ بیرون ملک سے آئے ہیں۔ ہم نے پاکستان کا بتایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور ہمیں بتایا کہ یہاں دوائیوں کے جینرک نام ہیں۔

پھر کاؤنٹر والے لڑکے کو دو نام بتاکر کہا کہ یہ لے کر آؤ اور ہمیں چائے کا پوچھا ہم نے شکریہ ادا کیا۔ ایک سو پچاس سری لنکن روپے ادا کر کے دوائی لی اور واپسی کی راہ لی۔ واپسی پر ہم پریذیڈینسی کے سامنے سے گزرے، کوئی گارڈ وغیرہ نہیں تھا۔ گیٹ بند تھا اور اندر کوئی تھا یا نہیں کوئی پتہ نہیں تھا۔ ہم نے گیٹ کے سامنے کھڑے ہو کر فوٹو بنائے لیکن کسی نے کچھ نہیں کہا۔ پریذیڈینسی کے بالکل سامنے سڑک پر سے ساری ٹریفک گزرتی ہے۔

ہوٹل پہنچ کر خرم کا شکریہ ادا کیا اور کمرے میں آیا اور میڈیسن کھا لی۔ اس وقت گیارا بج رہے تھے۔ ابھی چینج نہیں کیا تھا کہ دروازے کی بیل ہوئی۔ دروازہ کھولا تو چار پانچ ساتھی اندر آ گئے اور پھر جو محفل سجی تو رات کے دو بجے تک باتیں چلتی رہیں۔ اگلی صبح ہم نے کینڈی جانا تھا اس کے حوالے سے پروگرام ترتیب دیا اور سب کو رخصت کیا اور بستر کی راہ لی۔

کینڈی ایک خوبصورت قدیمی شہر

کینڈی سری لنکا کا ایک بڑا شہر ہے جوکہ سطح مرتفع پر سری لنکا کے وسط میں واقع ہے۔ یہ شہران پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جہاں قدرتی طور پر زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ ان پہاڑیوں پر چائے کی کاشت ہوتی ہے اس لئے یہ علاقہ چائے کی کاشت کے لئے بہت مشہور ہے۔ شہر کے وسط میں بوگمبارا Bogambara Lake جھیل شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ سیر اور گھومنے پھرنے کے لئے ایک بہترین جگہ ہے۔ کینڈی قدیم بادشاہوں کا دارالخلافہ بھی رہا ہے۔

اس شہر میں مقدس بدھا کی بہت سی قدیم یادگاریں ہیں۔ ان یادگاروں میں مقدس بدھا کے دانت کا مندر سری دلادرہ کالی گواہ The Temple of the Tooth Relic (Sri Dalada Maligawa) ، ۔ ایک پہاڑی نسب پر مقدس بدھا کا دیوہیکل مجسمہ۔ ایک عظیم الشان بادشاہی نباتاتی باغ Royal Botanical Garden، Peradeniya۔ نیشنل میوزیم اور آخری سری لنکن بادشاہ سری وکرم راج سنہا کا بنایا بادشاہی محل ماہا وا سالہ The Royal Palace of Kandy شامل ہیں۔

کینڈی ایک انتظامی اور مذہبی شہر ہے جس کی بنیاد تیرویں صدی کے وسط میں وکرم بہاوو نے رکھی۔ اس کو اٹھارہ سو پینسٹھ میں میونسپلٹی کا درجہ ملا۔ 5۔ 28 مربع کلومیٹر رقبہ پر آباد اس شہر کی موجودہ آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے۔ یہ ماڈرن سری لنکا کا دوسرا بڑا شہر ہے جو کہ مرکزی صوبے کا صدر مقام بھی ہے۔ پہاڑی مقام ہونے کی وجہ سے اس شہر کا درجہ حرارت نسبتاً کم ہے لیکن پھر بھی سارا سال اوسطً 27 : 28 تک رہتا ہے۔

یہاں پر زیادہ تر سنہالی آبادی ہے۔ کافی انڈسٹری بھی اس شہر میں ہے۔ یہ شہر سڑک اور ریل کے ذریعے دوسرے شہروں سے منسلک ہے۔ بہت قدیمی درسگاہیں بھی اسی شہر میں ہیں۔ سری لنکن لوگوں کو کرکٹ سے بہت لگاؤ ہے اس لئے یہاں بھی بہت اچھا کرکٹ گراؤنڈ ہے۔ کولمبو سے کینڈی کا فاصلہ ایک سو بیس کلو میٹر کے قریب ہے۔ جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).