اشفاق حسین، اُردو شاعری کا ایک تہذیبی ورثہ


گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالب مری تحریر میں آوے
غالب ِ با کمال کو سمجھنا اور اس کے خیالات کی اس حد کو چھونا جس پر پہنچ کر اس سے یہ معرکتہ ا لآرا اشعار تخلیق ہوئے، دراصل لانا ہے جوئے شیر کا۔ تو اقبال نے لفظوں میں خیال کی بلندی سے آزادیِ فکر کو یوں مہمیز دی ہے :

بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
اوراسی قبیل کا ایک نفیس شعر اشفاق حسین نے بھی اپنے دھیمے لہجے میں کیا خوب کہاہے :
لفظوں پہ جو خیال کو دیتا تھا فوقیت
اشفاق اْس گروہ ِ لسانی میں ہم بھی تھے

نری لفاظی بے قیمت ہے، بے مقصد ہے، لفاظی بھلا کیوں ہو؟ خیال کی تابناکی، موضوع کی ندرت اور بنت میں انوکھا پن نہ ہو تو شعر کیا؟ شاعر نے یوں ہی تو نہیں قطرے میں دجلہ دیکھنے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔

رفعت ِ شاعری کی درجہ بندی ممکن نہیں مگرSublime شاعری وہی ہے جو صاحبان ذوق اور اہل نظرکو لفظوں کی ڈور میں بندھی درد کی گٹھڑیوں میں مقید کردے اور ان کے ذہن و دل کی دنیا ان لفظوں کے ارتعاش سے یوں تہہ و بالا کردے کہ ان کے ذہن و دل کے نہاں خانوں تک وہ پیغام پہنچ جائے جو عمومی فکری سطح سے بہت بالا تر ہے۔ نری لفاظی بے قیمت ہے، بے مقصد ہے، لفاظی بھلا کیوں؟ خیال کی تابناکی، موضوع کی ندرت اور بنت میں انوکھا پن نہ ہو تو شعر کیسا؟ شاعر نے یوں ہی تو قطرے میں دجلہ دیکھنے کی اصطلاح استعمال نہیں کی تھی۔ اعلیٰ شاعری تصور، تخیل اور خیال پر تعمیر عمارت میں زلزلہ برپا کردیتی ہے۔ اور جب خیال کو وہ لفظ میسر آجائیں جو احساس کو دو آتشہ کردیں تو گویا شعر ابلاغ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ آتش نے کہا تھا:

بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

ہر بڑا شاعر ’اپنی بات کے ابلاغ کے لیے مناسب ترین حروف کے پیراہن کی جستجو کرتا ہے۔ خیال کو الفاظ کا لباس عطا کرنا بذات خود ایک بڑا فن ہے، ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ آتش نے خیال کی بلندی اور احساسات کے عظیم بہاؤکے پیش نظر ہی شاعری کو مرصع سازی کہا ہے۔ شعر میں ان الفاظ کا چناؤکیسے اور کیوں کر ہو جو ان عمیق اور پر اسرار کیفیات کو بیان کرسکیں جو شاعر کی سوچ میں موجزن ہیں۔ اور یہ ایک شاعرانہ المیہ ہے کہ شاعرجو کچھ محسوس کرتا ہے جب اس کو بیان کرنا چاہتا ہے تو بیان کی دشواریاں اس کے خیالات کی ترسیل میں حائل ہو جاتی ہیں۔ مگر بہت کم شاعروں کو اس کا احساس ہوپاتا ہے۔ اشفاق صاحب نے اس کشمکش کو کس خوب صورتی سے بیان کیا ہے :

رموز حرف نہیں ہاتھ آسکے ورنہ

زمانے بھر سے الگ سوچتا تو میں بھی ہوں

جذبے، حیوان ناطق کا مشترکہ اثاثہ ہیں مگرہر انسان کے احساسات کی سطح مختلف ہوتی ہے۔ شاعر کے احساس کی سطح قاری کے احساس کی سطح کے مقابلے میں کہیں زیادہ منفرد ہوتی ہے اوریہی انفرادیت جذبات اور موضوعات کو محسوسات سے جوڑ کر اسے تخلیق کار بناتی ہے۔ میر انیس نے کہا تھا کہ اک رنگ کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں۔ اور اشفاق صاحب کہتے ہیں :

کئی مضمون ہیں اک آدمی میں

ثقافت بولتی ہے شاعری میں

کیا کہنے اس شعر کے۔ دل چاہتا ہے، کچھ دیر اسی شعر کے ہمراہ جی لیا جائے۔ اسے تھوڑا غور سے پڑھنے اور غور سے سمجھنے کے علاوہ محسوس کرنے کی بھی کوشش کی جائے تو اس شعر کی شعریت کے ساتھ ساتھ اس میں پوشیدہ معنویت کو دریافت کیا جا سکتاہے۔ یوں سخن کا لہجہ بن ہی نہیں پاتا جب تک ثقافتی رنگوں، جلووں اور روایتوں کے جلو میں بقول اشفاق صاحب ”ایک آدمی“ کے ہزار ہا رنگ ونقش نہ دریافت کیے جائیں۔ ثقافت کی جڑوں سے کٹ کر آدمی کیا خلا میں معلق نہ ہوجائے گا؟ اور پھر وہ کس طرح اپنی بات اپنے ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والوں سے بذریعہ شعر کہہ پائے گا؟ ذرا شعر سنیے کہ :

اور دو آتشہ کردیتی ہے آہنگ ِ غزل

ہندوی لَے میں نوائے عجمی تھوڑی سی

میں ساختیاتی مفکرین بالخصوص دریدا کے اس نظریے سے مکمل اتفاق کرتی ہوں کہ اچھی شاعری کی بے شمار تشریحات ہر شخص اپنے حساب سے کرتا ہے یہاں تک کہ یہ تشریحات خود شاعر تک کے لیے اجنبی ہو سکتی ہیں۔ شاعری میں مقصدیت کو بعض نقادانِ ادب زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال کے مطابق یہ عمل شاعری کی روح کے خلاف ہے۔ لیکن یہ تنقید دراصل اس مقصدیت کے خلاف ہے جو خطابت کے زمرے میں آتی ہے اور کبھی کبھی ناصحانہ روپ دھار لیتی ہے۔ اس موضوع کے اعتبار سے اشفاق صاحب کے لہجے کی نفاست ملاحظہ فرمایئے :

استعاروں میں کیا کرتے ہیں باتیں اس سے

اپنے لہجے کو خطابی نہیں ہونے دیتے

یہی شائستگی، سلیقہ، قرینہ، مروّت، محبت، وضع داری، ادب کے لوازمات ہوا کرتے ہیں۔ یہی تو بات کہنے کا وہ پیمبرانہ ڈھنگ ہوتا ہے جس میں نقطہ کے فرق سے بیان بدل جایا کرتے ہیں۔ ان ثقافتی اور شاعرانہ روایتوں سے سجا ہوا یہ برد بار لہجہ اشفاق صاحب کو ہمارے عہد کے دیگر شعرا سے منفرد کرتا ہے۔ حساس شاعرانہ مزاج اور عاشقانہ نزاکتیں بھی اشفاق صاحب کی شاعری میں جا بجا نظر آتی ہیں۔ جن میں لطافت و جمالیات سے بھرپور، استعارات و تشبیہات کے جہان معنی کے ساتھ ساتھ عام روزمرہ کی زبان کا لطف بھی موجود ہے۔ بعض اوقات محسوس ہوتاہے کہ بہت مشکل کیفیت کو اشفاق صاحب نہایت آسانی سے رقم کرسکتے ہیں۔ مثلاً درج ذیل شعر دیکھیے :

حسن کے میں قصیدے لکھتا ہوں

بس یہی کام کا ہنر ہے مرا

کیا رنگ ہے، کیا اندازِ بیاں ہے۔ کیسی سادہ زبان ہے مگر کیسی ُپر کاری۔ ”قصیدے“ کو نیا رنگ عطا کردیا ہے کہ زندگی بسر کرنے کو یوں تو کئی ہنر سیکھے ہیں مگر کام کا ہنر یہی قصیدہ نگاری ہے۔ اور یہ کہ :

پڑھتے ہوئے تمہیدِ کتابِ لب و رخسار

مل جائیں گے ہم حسن کے دفتر میں کسی کے

اب اس مصرعے ”پڑھتے ہوئے تمہیدِ کتابِ لب و رُخسار“ کی تعریف اپنے ڈھنگ سے کیجیے۔ مجھے اس مصرعے کو اس کی غنائیت کی وجہ سے بار بار دہرانا اچھا لگ رہا ہے۔ مرکب الفاظ کیسی روانی اور تسلسل سے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا مفہوم دوڑا چلا آتا ہے۔ مجھے کچھ زیادہ نہیں معلوم، بس اتنا اندازہ ہے کہ ان لفظوں کا جادو آپ کی خوش ذوقی کی تسکین یقیناً کرسکے گا۔ اشفاق صاحب کی شاعری کا نمایاں ترین رنگ غالباً یہی ہے کہ ان کی شاعری کی لَے اور طرز ان کی اپنی ہے۔ یہ لَے کیا ہے اور کیسی ہے یہ فیصلہ ان کے قارئین اور نقاد کریں گے مگر اشفاق حسین صاحب کا کہنا یہی ہے کہ جو میں ہوں، جو مرا رنگ ہے، جو مرا ڈھنگ ہے، وہی مرا طرز ِ شاعری بھی ہے۔

شعر میں اپنے شب و روز بتاتا چلوں میں

یعنی جو میں ہوں وہ سب کو نظر آتا چلوں میں

اور یہ کہ :

میں تری سلطنتِ حسن کا باشندہ ہوں

راجدھانی میں تری مجھ کو مکیں رہنا ہے

کہاں محبوب کو بٹھایا ہے؟ کیا مقام منتخب کیا ہے اس کے لیے؟ شان، تمکنت اور غرور جو محبوب کا سرمایہ ہے، اس کی قدر و منزلت سے کس کافر کو انکار ہے۔ شاعر کا مؤدب اصرار تو فقط یہ گزارش ہے کہ اسی سلطنت میں کہیں تھوڑی سی جگہ میسر ہو، نہ انا، نہ ضد، نہ بحث۔ بس راجدھانی میں تری مجھ کو مکیں رہنا ہے۔ اردو شاعری کی روایت میں عاشق حسن پرست بھی ہے تو محبوب کی جنبش ابرو پر اپنے سارے اختیارات کے لٹا دینے کا آرزو مند بھی ہے۔ یہی روایت اشفاق صاحب کی شاعری کا معیاری اثاثہ ہے۔

اردو ادب کی تاریخ سے گواہی کشید کریں تو معلوم ہوتا کہ وہی لفظ زندہ ہیں، وہی خیال جگمگارہے ہیں جو ریاکاری کا شکار نہیں ہوئے۔ جبر کی فضا میں بھی، گھٹن کے دور میں بھی وہی لفظ تابندہ ہیں جنہیں شاعروں نے مصلحتوں کو جھٹک کر، بے خوفی سے تحریر کیا۔ وہی بے ریا لفظ لکھنے والے شاعر پوری اردو شاعری کی آبرو ہیں جنہوں نے صداقت کا علم بلند رکھا۔ بقول اشفاق صاحب:

جسے بے مصلحت بے خوف ہو کر میں نے لکھا

وہی بس ایک حرفِ معتبر باقی رہے گا

اکیسویں صدی میں اردوادب اور بالخصوص شاعری کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان میں سب سے بڑا چیلنج غالباً یہی ہے کہ نام و نمود کی نمائش بے پناہ بڑھ گئی ہے۔ کتنی ڈھیر ساری کتابیں ہر روز شائع ہو رہی ہیں، کتنی غزلیں، کتنے اشعار، کتنی نظمیں، یہ دنیا بے شمار لفظوں سے بھر گئی ہے۔ وہی لفظ ’وہی رٹی رٹائی باتیں، انہی فرسودہ خیالات کا اظہار، سنی سنائی باتوں کا اعادہ، نہ کوئی نیا رنگ وآہنگ نہ کوئی نئی بات، کچھ بھی نہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3