اشفاق حسین، اُردو شاعری کا ایک تہذیبی ورثہ


(کینیڈا میں مقیم اُردو کے ایک اہم شاعر اشفاق حسین کی شاعری پر ایک نظر)
تحریر : ڈاکٹر شہناز شورو
اکیسویں صدی کی بساطِ ادب پہ بھی
مصروف ہیں ہم اہلِ قلم واہ واہ میں

چند شعرا کو چھوڑ کر جب سے اردو شاعروں کی اکثریت نے مشاعرے لوٹنے ہی کو کمالِ شاعری اور حاصلِ زندگی سمجھ لیا ہے اور داد طلب نظروں سے ناظرین کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے تب سے شاعری کچھ پریشان سی لگنے لگی ہے۔ ”مشہوری“ کی اس بے مقصد دوڑ نے اردو شاعری کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ فن عروض کی باریکیوں سے ناواقف اور شاعرانہ جمالیات سے عاری شعرا نے شہرت کے حصول کی دوڑ میں تجربا ت اور مشاہدات کی بھٹی میں تپے بغیر، بحرا ور وزن سے خارج بے تکی اوربے سر و پا باتوں کے بیان کو اور محض چونکا دینے کے لیے شعر گوئی کو اپنا مقصدو مدعا بنا لیا ہے۔ شاعری کے نام پر کی گئی لفاظی، عروض کے کھانچے میں فٹ کیے ہو ے ردیف و قافیے، شاعری کی نفی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

فوری طور پر متاثر کرنے والی شاعری دراصل کہی سنی باتوں کا پرتو ہوتی ہے لہٰذا اسے سمجھنے کے لیے ذہن کو محنت نہیں کرنی پڑتی۔ اہم، نرالی اور فکر و سوچ کے کسی انوکھے رخ یا زاویے کو دکھانے والی، کسی نئی سوچ سے روشناس کروانے والی شاعری قاری کی سماعت، سوچ اور خیال تک پہنچنے میں وقت ضرور لیتی ہے مگر اسی سے شعرکاتاثر دیر پا ہوتا ہے۔ یہ کیا ضروری ہے کہ ایک ایک مصرعے کویوں تراشا جائے کہ اس میں معنی و مفاہیم کی ایک عجیب و غریب فضا بن جائے؟

اور جسے غور سے پڑھنے کے بعد نہ فکر کو مہمیز ملے اور نہ جمالیاتی حس کو ذوقِ بالیدگی میسر آئے۔ شاعری تو اعلیٰ ترین جذبات کا با معنی اور مہذب اظہار ہے۔ یہ کسی کلیشے کی محتاج نہیں۔ چبے چبائے نوالوں کی طرح لفظوں کا استعمال اور ہزار بار دہرائے ہوئے خیالات کی جگالی، وقت کے زیاں اور شاعری پہ تہمت کے سوا اور کچھ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ شاعری کی عمارت میں جب جذبات اور اعلیٰ فکر کی آمیزش کا گارا استعمال ہوگا تب ہی یہ عمارت خوش نما اور جاذب نظر دکھائی دے گی۔ اسی لیے تو غالب نے شاعری کے میدان میں قدم رکھنے والے کے لیے یہ شرط لگائی تھی کہ ع : پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی۔ اوراشفاق حسین کہتے ہیں :

درد سے کوئی تعلق نہ علاقہ غم سے

صرف لفظوں کے برتنے سے غزل کیسے ہو

اشفاق حسین صاحب عرصہ دراز سے شاعری کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ فیض صاحب سے بھی اپنی نسبت یوں جوڑے ہوئے ہیں کہ فیض شناسی کے سلسلے میں ان سے رجوع کیے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہو چکا ہے۔ لیکن دراصل اشفاق صاحب کی انفرادیت ان کی سنجیدہ شاعری ہے۔ وہ اردو شاعری کے اس سلسلے کے نمائندہ شاعر ہیں جن کے دم سے، باوقار، متین اور شاندار فکر ی شاعری سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ بھی مشاعروں میں اکثر اپنا کلام پڑھتے ہیں مگر مشاعرہ لوٹنے کے لیے کلام لکھتے نہیں ہیں۔

لفظ اور زبان کی حرمت کا پاس ان کی پوری شاعری میں موجزن ہے۔ دوسری اہم بات ان کی شاعری کی اوریجنلٹی ہے۔ اپنے خیا لات اور تجربات جیسا کہ وہ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں انہیں اپنے ہی ڈھنگ سے نظم کرتے ہیں۔ اپنے دل پر گزرنے والی کیفیت و احساسات کے اظہار کے لیے ان کے پاس الفاظ کا مناسب ذخیرہ بھی ہے توسلیقہ اظہار بھی۔

اردو شاعری میں اس وقت بہت کم ایسے شعرا ہیں جن کے پاس ادبی ثقافت، برد باری اور تہذیبی رکھ رکھاؤ (جو کہ اردو شاعری کا ایک دل نواز سرمایہ ہے ) موجود ہے اور بلاشبہ اشفاق حسین ان میں سے ایک ہیں۔ ان کے ہاں ادبی روایات کا تسلسل بھی ہے اور علم مجلسی کی دل ربائی بھی۔ شاعری جان جوکھم کا کام ہے۔ یعنی بقول محبوب خزاں :

بات یہ ہے کہ آدمی شاعر

یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

اور اسی طرح شاعری یا تو ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ ہر کہی یا لکھی ہوئی چیز پر شاعری کا لیبل لگانا مناسب بات نہیں ہے۔ بقول کسی کے کہ ایک نظم، ایک غزل، یا ایک شعر جینے کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک اچھا شعر ایک ناول پر بھاری ہوتا ہے۔ بلکہ اردو شاعری کی روایت تو کہتی ہے کہ ایک اچھا شعر اس پھول کی پتی کی طرح ہے جو ہیرے کا جگر چیر دیتی ہے۔ مگر اس کے لیے شاعر کو اپنے دل میں کئی تیر ترازو کرنا پڑتے ہیں۔ میر نے کہا تھا :

مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے

رنج و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

اشفاق صاحب کہتے ہیں :

اسی کے دم سے ہے آرائش سخنِ اشفاق

سجی ہوئی غمِ دل کی دکان رہنے وے

شہرت گزیدوں کے اس انبوہ میں منطقی گفت و شنید کی محافل تقریباً عنقا ہوچکی ہیں۔ اساتذہ کی شاگردی اختیار کرنے اور ان سے کچھ سیکھنے کے ایک روایتی صبر آزما مگر نتیجہ خیز مراحل سے گزر کر شاعری میں نکھار حسن اور اثر پذیری پیدا ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ یقینا جان لیوا ہے مگر کیا کیجیے کہ سچی شاعری کا راستہ یہیں سے پھوٹتا ہے۔ بقول اشفاق صاحب:

درد کا خوں کی طرح آنکھوں سے بہنا اور ہے

شعر لکھ لینا الگ ہے شعر کہنا اور ہے

درد کو لکھنا اور درد و غم محسوس کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ دو مختلف عمل ہیں۔ درد، غم، سانحہ، حادثہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، جب اسے لکھا جاتا ہے تو وہ خبر ہی ہوتا ہے۔ مگر جب محسوسات ان صدمات کے کرب و اندوہ میں گرفتار ِ اذیت ہوجائیں تب جو شعر وجود میں آتا ہے وہی شعر میزان ِ شاعری پر پورا اترتا ہے اور تب ہی بات مکمل ہوتی ہے۔ جب ہی تو اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ:

اُس وقت کہیں جا کے غزل ہو گی مکمل

آنکھوں سے ٹپک جائے جو اک قطرہٴ خوں بھی

شاعری اور شاعرانہ وصف یا اس کے وہبی ہونے کے متعلق بے شمار تعریفیں مختلف زبانوں کے وسیلے سے ہم تک پہنچتی ہیں۔ اگر ایک طرف شاعری کو آفاقی اور اور شاعروں کو پیغمبرانہ وصف سے مالامال کہنے والے موجود ہیں تو دوسری طرف شاعر کو ناقص العقل اور شاعری کو ہذیان یا غیر ضروری کہنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ مگر ادبی اور سماجی مطالعہ کا شعور رکھنے والوں کے ہاں شاعری کو منفرد مقام حاصل ہے اور وہ نہ صرف شاعری کوکشف و کیف اور فکر و ادراک کی منزلوں تک رسائی کا نام دیتے ہیں، بلکہ اسے احساسات وخیالات کے بے سمت و بے حساب ہیجانات کی بے پناہ ترجمانی کا فریضہ انجام دینے والا وہ ارفع و اعلیٰ وصف کہتے ہیں جس کی تشریح کرنایا جس کو گفتگو میں بیان کرنا ممکنات میں شامل نہیں۔

شاعر پر نزول ہوتا ہے اور نہیں بھی ہوتا ہے۔ جن شاعروں پر نزول ہوتا ہے وہی شاعر ہیں باقی صرف کاریگر ہیں۔ حرفت ساز، لفظ ساز، مصرعہ ساز، غزل ساز، وغیرہ۔ جبکہ شاعری وارد ہوتی ہے، آمد ہوتی ہے اور اگر اس روحانی دنیا سے اس کی وابستگی نہیں ہے، رابطہ نہیں ہے تو پھر یہ محض گفتگو ہے، رسمی خیالات ہیں، صرف باتیں ہیں یہ شاعری ہر گز نہیں۔ اسی لیے تو غالب نے کہا تھا کہ :

ع آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

اب آپ لفظ ”غیب“ کی تشریح کرتے پھریں۔ لغات کھنگالیں۔ اساتذہ سے رہنمائی چاہیں۔ غالب فہمی پر لکھی گئی کتابوں میں سر کھپائیں۔ جب تک آپ کی سخن فہمی و سخن شناسی آپ کو ”غیب“ کے اس مفہوم و معنی سے آشنا نہیں کرواتی جس کا سلسلہ وجدان کی کرشماتی فضا سے جڑا ہوا ہے، آپ اس نزول اور امکان نزول اور کیفیت نزول کی آفاقی فضا کے کسی معمولی سے پہلو کو بھی سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔ یہی فرق ہے الہامی شاعری، اور غیر الہامی شاعری میں۔ اسی لیے اشفاق صاحب کے نزدیک غزل لکھنا اور غزل کہنا دو مختلف کیفیات و واردات ہیں۔ ایک کا تعلق روحانیت سے تو دوسرے کا مصنوعیت سے ہے۔

مغربی نقادوں کے ہاں بھی اس الہامی و آفاقی اور پر شکوہ طریق گفتگو یعنی (ایک فرد یا شاعر کا شاعرانہ اظہار جو عمومی اظہار سے بدر جہا اعلیٰ و ارفع ہے ) کو سندِ امتیاز اور پزیرائی حاصل ہے۔ کچھ یوں ہے کہ جب فطرت اور شاعر کے وصف ِ شاعرانہ کے درمیان ایک مرئی مگر مضبوط رابطہ متحرک و فعال ہوجاتا ہے تب شاعر کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مشاہدے و مطالعے میں آنے والی چیزوں، باتوں اور سوچوں کے حوالے سے، شعور سے منسلک رہتے ہوئے بھی لاشعور کے ہمراہ سفر کرتا ہے تو یہ حیرت و استعجاب کا ایک انوکھا مشاہدہ ہوتاہے۔ مگرہر آنکھ اس مشاہدے کی اہل نہیں ہو سکتی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3