اشفاق حسین، اُردو شاعری کا ایک تہذیبی ورثہ


سچ تو یہ ہے نئی بات، نیا سخن، معتبر لہجہ، دل میں پیوست ہوجانے والا شعر، اسی صورت تخلیق ہوسکتا ہے جب اول تو لکھنے والا جینوئن تخلیق کار ہو، دوئم یہ کہ تخلیق کے وجود میں آنے کے کٹھن اور صبر آزما مراحل سے نہ صرف آشنا ہو بلکہ ان کی معیت میں جینے کا ہنر بھی جانتا ہو۔ اور تخلیق کار کا ہمزاد نقاد ہونا چاہیے۔ کلیشے کی گردان اور پرانے خیالات و تصورات کو دہرانے کے بجائے روزافزوں بدلتی دنیا ’اقدار، روایات، افکار، خیالات و تصورا ت کی عکاسی ہو۔ نغمۂ غم کی بھی اپنی لے ہو تو لفظوں کا برتنے کا ہنر بھی اپنا ہو اس ضمن میں اشفاق صاحب کا کہناہے کہ :

کوئی نئی بات خود ہی سوچیں اور اس کو لکھیں

نصاب میں جو ہیں ان کتابوں کا تذکرہ کیا

اشفاق صاحب کی احتجاجی شاعری میں بھی الفاظ کا چناؤمدبرانہ ہے۔ غم و اندوہ کی کیفیت میں بھی روشنی کا کوئی نہ کوئی استعارہ جگمگاتا رہتا ہے۔ جس موضوع پر بھی لکھتے ہیں اس کی مناسبت سے تراکیب و تشبیہات کی مدد سے ایسی فضا قائم کرتے ہیں جس کا اثر تادیر رہتا ہے۔ ادب کے نام پر جعل سازی ’مکر، فریب اور غیر ادبی رویے اور منافق ادیبوں کے کردار دیکھتے ہو ئے کہتے ہیں :

ادھورے سچ کی کھیتی بو رہے ہیں

ہمارے عہد کے اہلِ قلم کیا

اکیسویں صدی، موضوعات کی تبدیلی کی صدی ہے۔ سائنسی ایجادات کی حیرت انگیز کرشمہ سازیوں نے زمان و مکان کے تصور سے لے کر تہذیب و ثقافت کی راجدھانیوں میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ تصورات، جذبات و خیالات کی کائناتوں میں عجب کہکشاؤں کا ایک نیا اور انوکھا سلسلہ لفظوں اور موضوعات سے لے کر اسلوب کی دنیا میں ہلچل مچارہا ہے۔ ایسے میں کوئی کب تک داستانِ ُکُہنہ سے دل کوبہلائے اور کیوں کر بوسیدہ فکر سے آگے نکلنے کی جستجو نہ کرے۔ انوکھے موضوعات کا طلسم کدہ کھل چکا ہے۔ اب شاعری نئے موسموں کے نئے نغموں کی منتظر ہے۔

اشفاق صاحب کی مندرجہ ذیل نظم کو پڑھیے اور دیکھیے کہ گل و بلبل سے آگے لب و رخسار سے باہر، میرے تیرے فسانے سے بڑھ کر، شاعر کی ذمہ داری کیا ہے؟

نیند سے رشتہ جوڑنے والو

لفظوں کی اگر قیمت ہے کوئی

ہر لفظ یہ ہم سے یہ کہتا ہے

تم مظلوموں کے حامی ہو

تم ان کے دکھ اور درد کو اپنا دکھ اور درد سمجھتے ہو

اور چاہتے ہو

یہ ظلم و ستم کے گہرے بادل چھٹ جائیں

انسانوں کو بانٹنے والے آپس میں خود بٹ جائیں

ایک نئی اور روشن صبح کا سورج چمکے

جس کا اجالا گھر گھر پہنچے

کتنا پاکیزہ جذبہ اور کتنا سچّا ہے آدرش

لیکن یہ تصویر کا ہے بس ایک ہی رخ

گر دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہو

سچائی کے آئینوں کے سامنے آؤ

اور پھر یہ بتاؤ

تم نے مظلوموں کا کتنا ساتھ دیا ہے؟

تخلیق کار جانتے ہیں کہ دوران تخلیق ان سے نوائے سروش وہ کچھ بھی لکھواتی ہے جو ان کے ذہن کی سطح پر موجود نہیں ہوتا اور جس سے وہ خود واقف نہیں ہوتے۔ مجھے نہیں معلوم اس نظم کے طلوع ہونے پر اشفاق صاحب کے ذہن میں یہ کلبلاتے سوالات تھے یا اس نظم کی دو پہر ہوتے ہوتے یہ تلخ سوالات اس نظم کو بے مثال کر گئے؟ یہاں شاعر اپنے ضمیر سے سوال کرتا ہے کہ :

ان کے دکھ اور درد کو کتنا اپنایا ہے؟

تم لفظوں کے سوداگر ہو

شاعر ادیب اور دانشور ہو

اپنی ہر تخلیق کو تم نے

بیچ دیا سرکار کے ہاتھوں

اپنے قلم کی حرمت کو

مجروح کیا خود اپنے ہاتھوں

جھوٹی اور سستی شہرت کے پیچھے بھاگ رہے ہو

یہ تو بتاؤ

نیند میں ہو یا جاگ رہے ہو؟

یہ تو علامت نیند کی ہے

اشفاق صاحب کی یہ نظم یوں تو اپنے مرکزی موضوع سے مکمل طور پر جڑی ہوتی ہے مگرلمحہ بہ لمحہ اس کا ہر اٹھتا قدم سوچوں کا ایک نیا بھنور بناتا ہے۔ کچھ ایسے کہ قاری اس نظم کوٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہے، اس کی معنویت دریافت کرنے کے لیے۔ اشفاق صاحب کی اس نظم نے چبھتے ہوئے سوال اپنے ہم قبیلہ اہلِ قلم سے پوچھے ہیں تو اس نظم میں جا بجا وہ گھاؤبھی نظر آتے ہیں جنہیں شاعر نے خود پر سہا ہے۔ یوں تو سوال بہت سیدھا سا ہے مگر اس کا جواب آسان نہیں ہے کہ تمہیں یہ پیغمبرانہ :وصف کیوں حاصل ہوا؟ اور اس کو تم نے کیسا برتا؟ کیوں کہ

نیند سے مظلوموں کا رشتہ کچھ بھی نہیں ہے

نیند سے رشتہ جوڑنے والو

مظلوموں کی ہمدردی کے گیت نہ گاؤ

ان کو تمہارے گیتوں کی خیرات سے کوئی نہیں لگاؤ

لفظوں کی عظمت کو سمجھو!

لفظوں کی عزت ہوتی ہے

ان کی اک قیمت ہوتی ہے

عزت بک جائے

تو قیمت کچھ بھی نہیں ہے

اسی طرح اشفاق صاحب کی ایک اور نظم ”کیوں لکھوں“ کچھ ایسے ہی سوالات کو سامنے لاتی ہے۔

کیوں لکھوں؟

میں اب وہ حرف کیا لکھوں

کہ جو کاغذ پہ آکے زندگی کا حسن کھو بیٹھے

میں اب وہ لفظ کیا لکھوں

جو پڑھنے والی آنکھوں کو منور ہی نہ کرتا ہو

میں اب وہ شعر کیا لکھوں

جو میری زندگی کے تجربوں کی دسترس ہی میں نہ آیا ہو

میں اب وہ نظم کیا لکھوں

جو میرے دل کے آنگن میں

کوئی مہتاب ہی لائے

نہ کوئی آس کاجگنو

نہ کوئی درد کی خوشبو

نہ کوئی ریشمی آنچل

نہ کوئی سرمئی گیسو

نہ کوئی ہجر کا ماتم

نہ کوئی وصل کا پہلو

میں ایسے شعر کیوں لکھوں

کہ جن کے آئینوں میں اپنا چہرہ خود نہ پہچانوں

میں ایسے لفظ کیوں لکھوں؟

میں ایسے حرف کیوں لکھوں؟

اُردو ادب کی ایک اور روایت بڑی مستند ہے کہ ہر بڑا شاعر اپنے عہد میں اپنے ہم عصر شعرا و ادبا سے لے کر عوام الناس میں بھی عام فہم معنوں میں مشہوری کی سند حاصل کرپاتا ہے۔ درحقیقت بڑا یا سنجیدہ ادب ”مشہوری“ کے لیے نہیں ہوتا۔ ذرا غور کیجیے کہ کیا واقعی شہرت اور ادب کا کوئی تال میل ہے؟ قطعی نہیں، ادب مشہوری کی فضاؤں سے بالا تر اورارفع و اعلیٰ ہے۔ وہ اپنے عہد کا بیان اور عوام الناس کے خیالات کا ترجمان ہے اور جو ترجمان ادب اس ذمے داری کو سنجیدگی، گہرائی اور محبت سے نبھائے گا وہی اپنے عہد کا نبض شناس بن کر آنے والوں کو درست سمت سے آشنا کروا سکتا ہے۔

وہی شاعر اور اس کی شاعری تا دیر زندہ رہے گی کیونکہ اس کا منصب عظیم تر ہے۔ وہ دیکھنے اور سوچنے سے ایک قدم آگے بڑھ کر بیان کرنے کے کرب سے بھی گزرتا ہے۔ صلے اور ستائیش کی تمنا سے بے نیاز، بے قدری، بے مروتی اور زمانے کے ستم سہتا اورحوادث زمانہ سے سیکھتا ہوا۔ شاعری کا سفر ایک مستقل سفر ہے۔ پڑاؤآتے جاتے ہیں مگر اس کی کوئی منزل نہیں۔ ہر جادے کا اپنا ہی ایک رخ ہے، اپنی ہی ایک سمت ہے جس کا انت نا معلوم ہے۔

حدیثِ دل بھی تو میں لکھ نہیں سکا اشفاق

ہجومِ حلقہِ شعر و ادب میں رہتے ہوئے

ہائے وہ لفظ جو تحریر نہ ہو ئے، وہ جذبے جنہیں زبان نہ ملی، وہ خواب جنہیں نظم نہ کیا جا سکا۔ یہ احساس محرومی غالباً ہر سنجیدہ اور جینوئین، قلم کار اور فن کار کا اثاثہ ہے، میراث ہے۔ یہ نا رسائی کا کرب، اسے نا آسودہ رکھتا ہے اور یہی نا اآسودگی اس میں وحشت و جنوں اور دیوانگی کی وہ تحریک پیدا کرتی ہے جو اس سے وہ تحریر لکھواتی ہے جس سے اس کا نام آسمانِ ادب پر درخشاں ستارے کی طرح دمکتا نظر آتا ہے۔ اشفاق حسین صاحب بھی اسی احساسِ ناآسودگی و نارسائی کی رہ گزر کے مسافر ہیں۔ ان کا ہر نیا شعر، نئی نظم اور نئی غزل اک نئے شعری امکان کا در کھولتا ہے۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3