کپتان کی امریکہ میں مقبولیت سے ٹرمپ پر لرزہ طاری


کل رات کپتان کا امریکی سرزمین پر بہت کامیاب شو رہا۔ یہ کسی پاکستانی وزیراعظم کا امریکی سرزمین پر پہلا عوامی جلسہ تھا جو واشنگٹن میں کیپٹل ون ایرینا میں ہوا۔ اس ایرینا میں 20 ہزار افراد کی گنجائش ہے اور شو ایسا ہاؤس فل تھا کہ منتظمین کے مطابق بہت سے لوگ داخل نہ ہو سکے اور باہر سکرینوں پر جلسہ دیکھتے رہے۔ امریکہ جیسے مصروف ملک میں بیس ہزار لوگوں کا جمع ہونا مذاق نہیں ہے۔ اس لئے جلسے کو بہت کامیاب گردانا جائے گا۔

اب ہم جانتے ہی ہیں کہ وزیراعظم کے دورہ امریکہ کا بنیادی مقصد پاکستان کے لئے کچھ پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔ اسی سلسلے میں وہ ٹرمپ سے بھی ملیں گے اور پاکستانیوں سے بھی۔ اس تناظر میں ہمیں امید ہے کہ ادھر جلسے میں چندے کا بکسا بھی رکھا گیا ہو گا اور ان بیس ہزار لوگوں نے کئی سو ملین ڈالر کپتان پر وار دیے ہوں گے کیونکہ کپتان کرپٹ نہیں ہے۔ اب ہمیں آئی ایم ایف کی غلامی کی ضرورت نہیں رہے گی۔

اب دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ سے کیا نکلوایا جا سکتا ہے۔ اس کا بھی الیکشن آنے والا ہے۔ یقیناً کپتان کی اتنی زیادہ سپورٹ دیکھ کر وہ یہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور ڈیل پر آمادہ ہو گا۔ اور یہ صرف بیس بائیس ہزار ووٹر تو وہ ہے جو ایرینا میں کپتان کو دیکھنے گیا۔ امریکی پاکستانیوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

امریکی محکمہ شماریات کی 2010 کی پوتھیوں کے مطابق امریکی پاکستانیوں کی تعداد محض تین لاکھ ساٹھ ہزار تھی مگر اسلام آباد میں امریکی ایمبیسی کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ امیرکن پاکستانی فاؤنڈیشن کے مطابق سنہ 2010 میں امریکہ میں سات لاکھ پاکستانی موجود تھے۔ پاکستانیوں کی خداداد صلاحیتوں اور دیسی حکیمی کشتوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے نہایت وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اب نو برس بعد یہ تعداد ضرور کوئی پندرہ لاکھ ہو چکی ہو گی۔ ہمارے ملک میں کسی بندے کے پاس بیس بائیس ووٹ ہوں تو امیدوار اس کے بہت سے مطالبات مان لیتا ہے، یہ تو دس پندرہ لاکھ ووٹر ہے۔ ٹرمپ اسے کیسے نظرانداز کر سکے گا۔ ٹھیک ہے کہ انتخابی حکمت عملی میں ٹرمپ امریکہ کی پندرہ کروڑ سے زیادہ عورتوں کی پروا نہیں کرتا مگر پندرہ لاکھ پاکستانیوں کو وہ نظرانداز نہیں کر سکتا کیونکہ پاکستانی دنیا کی سب سے زیادہ باصلاحیت اور ذہین ترین قوم ہیں۔

ان امریکی پاکستانیوں میں سب سے زیادہ پرجوش یہی بیس ہزار نکلے جو ایرینا پہنچے۔ میرا خیال ہے کہ ان میں سے کم از کم لوگ آدھے جھیل والے ڈاکٹر کی قیادت میں اسی مہینے پاکستان واپس آ جائیں گے۔ باقیوں کو ممکن ہے کہ ہفتہ دس دن اوپر لگ جائیں۔ ویسے تو ہم جانتے ہی ہیں کہ امریکہ میں موجود ہر پاکستانی کئی ملین ڈالر کے اثاثوں کا مالک ہوتا ہے لیکن قنوطی افراد کو مطمئن کرنے کے لئے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس کل ایک ایک لاکھ ڈالر ہیں۔

اب جب یہ بیس ہزار افراد ایک ایک لاکھ ڈالر لے کر پاکستان واپس پہنچیں گے تو اس کے ساتھ ہی ہمیں دو ارب ڈالر تو کھڑے گھاٹ مل جائیں گے۔ اور اگر نئے پاکستان میں پانچ لاکھ پاکستانی واپس آ گئے تو ان کے پچاس ارب ڈالر سنبھالنے ہی مشکل ہو جائیں گے۔ بلکہ ہمیں الٹا آئی ایم ایف کو پیسہ دینا پڑ جائے گا کہ غریبوں کو دے دینا۔

اس جلسے نے ٹرمپ اور امریکیوں کو شدید متفکر کیا ہو گا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ کپتان نے تقریر کرتے وقت داہنے ہاتھ پر امریکی جھنڈا رکھا اور باہنے پر پاکستانی۔ گویا ٹرمپ کو انتباہ کر دیا کہ اگر تم نے مجھے پاکستان میں حکومت نہ کرنے دی تو اپنی اس بے پناہ مقبولیت کے سبب میں امریکہ کا صدارتی انتخاب جیت کر امریکہ پر حکومت کر لوں گا۔ اس کے لئے امریکی آئین بھی بدلنا پڑا تو ایسی بے پناہ مقبولیت کے باعث اس میں بھی کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ نہ تو امریکہ کا کوئی صدارتی امیدوار اتنا ہینڈسم ہے اور نہ ہی کسی نے ورلڈ کپ جیتا ہوا ہے۔ بہرحال ٹرمپ کی اعلیٰ ظرفی کو داد دینی چاہیے کہ اس نے کیپٹل ون ایرینا میں گٹر کا پانی چھوڑ کر جلسہ ناکام بنانے کی کوشش نہیں کی۔

جلسے میں کپتان نے بار بار دلیری سے یہ بتایا کہ پاکستانی بہت کرپٹ ہیں اور اب وہ انہیں ٹھیک کر رہا ہے۔ وہ تمام کرپٹ لوگوں کو جیل میں ڈال کر ان سے ائیرکنڈیشنر کی سہولت بھی واپس لے لے گا۔ ساتھ ہی کپتان نے واشنگٹن میں کھڑے ہو کر ریاست مدینہ بنانے کا للکارا مارا۔

ریاست مدینہ بنانے کی للکار سن کر امریکی سہم گئے ہوں گے۔ انہیں ہماری کیا اپنی تاریخ کا بھی علم نہیں ہے، ریاست مدینہ کا مطلب نکالیں گے اسلامی سٹیٹ، اور اس کے ساتھ ہی ان کا ذہن آئسس کی طرف جائے گا یعنی اسلامک سٹیٹ ان عراق اینڈ سیریا۔ اب تصور کریں کہ امریکی صدر اوول آفس میں بیٹھا یہ سوچ سوچ کر لرز رہا ہو گا کہ کپتان کی حکومت کے بقیہ چار سال کے اندر اندر 22 کروڑ مجاہدین پر مشتمل ایک ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح اسلامی ریاست معرض وجود میں آنے والی ہے۔ امریکیوں سے تو چار لاکھ داعشیوں والی ریاست سنبھالنی مشکل ہو گئی تھی تو اب وہ بے بس ہو جائیں گے۔ کہاں وہ زمانہ تھا کہ امریکی صدر رعونت سے ہمارے کرپٹ حکمرانوں سے بات کیا کرتے تھے اور کہاں یہ عالم ہو گا کہ وہ کپتان کی منت خوشامد کر رہے ہوں گے۔

ایک طرف کپتان کا امریکی سرزمین پر یہ کامیاب ترین جلسہ تھا۔ دوسری طرف لائلپور میں مریم نواز کا ناکام جلسہ۔ یہ جلسہ اتنا زیادہ ناکام تھا کہ کوئی ادھر گیا ہی نہیں اسی لئے کسی چینل نے اسے نہیں دکھایا۔ ہم نے بارہا نوٹ کیا ہے کہ مریم اور بلاول عوام سے بری طرح مسترد ہونے کے بعد مقامی پٹواریوں اور بلدیہ کے نچلے درجے کے اہلکاروں سے ساز باز کر کے اپنی اپنی مقررہ جلسہ گاہ میں گٹر کا پانی ڈلوا دیتے ہیں اور حکومت پر اس کا الزام دھر دیتے ہیں۔

انہیں علم ہے کہ وہ جلسہ گاہ لوگوں سے نہیں بھر سکتے اس لئے گندے پانی سے بھر دیتے ہیں اور کسی تنگ سی گلی میں جا کر تقریر کرتے ہیں جہاں کیمرہ ٹرک کے ذریعے دو تین درجن لوگوں کو بھی ہزاروں لاکھوں کا مجمع بنا کر پیش کرنا ممکن ہوتا ہے۔ پاکستان کا مستقبل واضح ہے۔ اب ادھر یہ کرپٹ لوگ حکومت میں واپس نہیں آئیں گے۔ کپتان ہی حکومت کرے گا۔ اور ٹرمپ اس کے تمام مطالبات مانے گا۔

اسی بارے میں: درویش کپتان کا امریکہ میں رعب اور خوفزدہ امریکی

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar