افغانستان میں امن کے سفیروں کا پرامن دورہ


افغان باقی! کہسار باقی!

سوویت یونین کی افغانستان میں در اندازی کے بعد سے طالبان کا منظم ہونا اور افغانستان میں خانہ جنگی کی فضا کا قائم ہونا تو تقریبا ہر شخص جانتا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے 40 لاکھ سے زائد افغانیوں کو اپنے ملک میں پناہ دینا، اور کم از کم 2 دہائیوں تک افغانیوں کو اپنے بھائیوں کی طرح اپنے ملک میں رکھنا اور ان پر اس حد تک اعتبار کرنا کہ ان کی اولادوں کو پاکستانی بنا دینا کسی بھی ملک کے لئے بڑی بات ہے۔ لیکن گذشتہ عرصہ خاص طور پر 11 / 9 کے بعد کی صورتحال یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان میں طالبان کی پشت پناہی سے بد امنی کا سلسلہ تقریبا ایک دہائی پر محیط ہے، بم دھماکے، لاکھوں جانوں کا ضیاع اور پاکستان کی جانب سے اس کی روک تھام کے لئے کیے جانے والے اقدام نے دونوں ممالک کے درمیان دراڑ پیدا کر دی۔ افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء کا مرحلہ شروع ہوا تو افغان امن عمل کی باز گشت ہر طرف سنائی دینے لگی، پاکستان، بھارت اور امریکہ نے افغانستان میں امن کے لئے مل بیٹھے پھر ان مذاکرات میں چین اور روس بھی شامل ہوگیا۔

لیکن یہ تمام تر کوششیں حکومتوں کی سطح پر ہو رہی تھیں۔ ایسے ہی حالات میں نئی جنریشن کے پڑھے لکھے، میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو پاکستان کے طول و عرض سے اکٹھا کیا گیا اور اسی طرز پر افغانستان میں بھی ہوا، میڈیا سے تعلق رکھنے والے جوانوں کو ایک سیمنار میں بلایا گیا۔ شریک طلباء کو پہلے دو روز پاکستان میں افغانستان کی تاریخ سے متعلق تفیصیلی طور پر آگاہ کیا گیا اور موجودہ صورتحال سے آگاہی بھی دی گئی۔

اس کے بعد اگلے 5 روز کے لئے انہی طلبا کو افغانستان بھیجا گیا، افغانستان بھیجنے کا مقصد اس امن دستے کو گراونڈ ریئلٹی سے آگاہ کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ قریبی گفت و شنید کے ذریعے باہمی راوداری کے فروغ اور مسائل پر بات چیت کرنا موقع فراہم کرنا تھا۔ میڈیا ٹک افغانستان کی جانب سے اس سیمنیار کا انعقاد میڈیا ٹرینگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے تعاون سے کیا گیا۔ پاکستانی میڈیا کے امن دستے کا افغانستان آمد پر گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔

پہلے دن رات کے کھانے کی میز پر دونوں ممالک کے صحافیوں کی ایک دوسرے سے پہلی بات چیت ہوئی، اگلے دن سیشن کے دوران دونوں ممالک کے نوجوانوں میں تناؤ دکھائی دیا، کیونکہ دونوں ممالک کے جوان اپنے ملک اور اس کی پالیسیوں کو بہتر گردانتے تھے لیکن بات چیت کے بعد حالات بہتری کی جانب رواں دواں ہوئے، ایک دوسرے کے آرگومنٹ کو سمجھنا شروع کیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس دو روزہ سیمینار کے اختتام پر ہٹ دھرمی اور قوم پرستی سے بالا تر ہوکر ان نوجوانوں کے خطے اور خاص طور پر افغان امن عمل بارے بات نہ صرف شروع بلکہ اس کو آگے لے کر چلنے میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کو قریب لانے اور ایک دوسرے کے موجود حالات پر بات کرنے کا عزم کیا گیا۔

نوجوان صحافیوں کو افغانستان میں کچھ مقامات عوامی اور سرکاری دفاتر کا دورہ بھی کرایا گیا، جن میں ایک دورہ افغانستان میں پاکستانی ایمبسی کا بھی شامل تھا جو پچھلے کچھ عرصے سے میڈیا کی نظر میں ہے، خاص طور پر ایمبیسی پر حملوں کے بعد سے دونوں ممالک میں تناؤ کی صورتحال بھی پیدا ہوئی۔

جب اس کا دورہ کیا گیا تو وہاں کی حالت بدترین تھی، ویزے کے حصول کے لئے آئے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، گندگی ایسی کہ پناہ بخدا، بدبو کے بھکبھکے اٹھ رہے تھے کہ عام انسان کا ایک منٹ بھی سانس لینا دشوار تھا، لیکن ویزہ کے حصول کے لئے آئے عوام کا ایک جم غفیر تھا جو ایمبیسی انتظامیہ کے کنٹرول سے اس حد تک باہر تھا کہ بدانتظامی کی تصویر نظر آ رہا ہے اور ویزہ لینے والوں میں زیادہ تعداد ان کی تھی جوبیماریوں کے علاج کے لئے پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے تھے۔

امید ہے آئندہ ہونے والے سیمینارز میں اس کی حالتِ زار کو بہتر بنانے کے لئے بھی موضوع زیرِ بحث ہوگا۔ سیمنیار کے اختتام پر دونوں ممالک کے نوجوان سفیروں کے ملکر آگے بڑھنے اور امن عمل میں اپنا کردار اداکرنے کی ٹھان لی۔ ایک دوسرے کی باتوں کو اور آرگومینٹس کو سمجھنا اور اپنے حدود اربعہ سے ہٹ کر امن کی کوششوں کو جاری رکھنے باہمی اتفاق کی فضا نہ صرف قائم کرنے پر زور دیا گیا بلکہ اس میں اپنا حصہ بقدر جسہ ڈالنے کا ارادہ و اعادہ بھی کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).