تحریک انصاف میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی کشمکش


سیاسی پارٹی چلانا، اپوزیشن کرنا اور حکومت کرنا سیاست میں تینوں کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ پارٹی بناتے وقت عوام کے سامنے بھرپور انداز سے اپنا منشور رکھا جاتا ہے۔ اپوزیشن میں حکمران پارٹی کودبنگ انداز سے تنقید کا نشانہ بنانا پڑتا ہے اور حکومت میں آ کر جارہانہ طریقے سے اپنی انا اور ٹکراؤ کی بجائے مفاہمتی طرز سیاست سے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ مگر افسوس تحریک انصاف نے حکومت میں آ کر بھی سیاست نہ سیکھی۔

وزیر اعظم عمران خان ابھی اس حقیقت سے انجان ہیں کہ ان کے علاوہ دوسرے سیاسی رہنماؤں سے پاکستان کی قوم پیار کرتی ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو صرف 32 فیصد ووٹ اور ان کے مخالفین کو 67 فیصد ووٹ ملے تھے۔ عمران خان یہ سمجھنے کے لئے بالکل تیار نہیں کہ ملک چلانے کی ذمہ داری حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی بھی ہوتی ہے۔ قومی ایشوز پر قانون سازی ہو یا نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا معاملہ یافوجی عدالتوں کی توسیع، اپوزیشن اور ناراض اتحادی جماعتوں کے بغیر اکیلے عمران خان حکومتی معاملات کو حل نہیں کر سکتے۔

مفاہمت کی سیاست تو درکنار خود عمران خان اور ان کے اپوزیشن ایکسپرٹ وزرا ء اپوزیشن جماعتوں پر الزامات کے تیر اس طرح برساتے ہیں جیسے وہ ابھی بھی کنٹینر پر کھڑے ہیں۔ تنقید کے زہریلے تیروں کا جواب اپوزیشن عمران خان کے پارلیمنٹ میں آنے پر اسی انداز سے پلٹ کر دیتی ہے، جس کے بعد عمران خان کاوہاں ایک منٹ گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔

عمران خان اپوزیشن خاص کر شریف برادارن کے ساتھ ملنا تو درکنار ان سے ہاتھ ملانا مناسب نہیں سمجھتے۔ اسی لئے عمران خان نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لئے اپوزیشن لیڈر کو ملنے کے بجائے انہیں خط لکھ کر قلمی مشاورت کو ہی کافی سمجھا۔ حکومت کے اس غیر سیاسی روئیے پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف مشاورت کے اس طریقے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ عمران خان کی ناتجربہ کاری سے جہاں ایک طرف اپوزیشن تنگ ہے تودوسری طرف ان کی اپنی پارٹی بھی ایک عرصہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

پارٹی دو واضح دھڑوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ اب یہ دو دھڑے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی لڑائی کی شکل میں کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ دو بڑوں کی لڑائی نئی نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کی پہچان سیاست ہے اور جہانگیر ترین کی پہچان ان کا اثر ورسوخ ہے۔ شاہ محمود قریشی اس بار کھل کر جہانگیر ترین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سرکاری اجلاسوں میں ان کے بیٹھنے پر اعتراض کیا۔ وزیر خارجہ کا ماننا ہے کہ سرکاری اجلاسوں میں جہانگیر ترین کے بیٹھنے سے عدلیہ کے فیصلے کی توہین اور اپوزیشن کو بات کرنے کا موقع دینے کے مترداف ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ جہانگیر ترین کی پارٹی اجلاسوں میں موجودگی پی ٹی آئی کا کارکن ذہنی طور پر قبول نہیں کر پا رہا۔

مانا کہ شاہ محمود قریشی کاموقف درست ہے ان کی بات میں وزن ہے، ان کی دلیل قانونی ہے، اخلاقی ہے۔ و ہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور وزیر خارجہ جیسا اہم عہدہ بھی رکھتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا بڑا نام ہے لیکن جہانگیر ترین کاپارٹی میں دھڑا ان کے نام سے بھی بڑا ہے۔ ایک ہی پارٹی میں رہتے ہوئے یہ جہانگیر ترین ہی تھے جنہوں نے شاہ محمود قریشی کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے خواب کو چکنا چورکیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر شاہ محمود قریشی کو ان کے آبائی حلقہ میں شکست کے پیچھے بھی جہانگیر ترین کا ہی ہاتھ تھا۔ بظاہر تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی اکثریت جہانگیر ترین کے ساتھ نظر آتی ہے۔ انھوں نے کئی لوگوں کو ٹکٹ دلوائے ہیں۔ الیکشن کے بعد عددی برتری کے لئے وہ اپنا جہاز بھر بھر کر لوگوں کو تحریک انصاف میں لائے۔ کابینہ میں بھی جہانگیر ترین کی لابی مضبوط ہے۔

عمران خان سمیت چند وفاقی وزراء اور پارٹی رہنماء جہانگیر ترین کے حق میں بولے بھی ہیں۔ فیصل واوڈا نے کہا ہے کوئی ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا۔ فواد چوہدری نے کہا، شاہ محمود قریشی کے لئے احترام ہے مگر جہانگیر ترین کے لئے احترام زیادہ ہے، شاہ محمود قریشی نے کھلے عام جو بات کی وہ نہ کرتے تو بہتر ہوتا۔ جہانگیر ترین کو دوبارہ بھی کابینہ کے اجلاسوں میں بلائیں گے۔ آج تحریک انصاف اگر حکومت میں ہے تو اس میں بڑا کردار جہانگیر ترین کا ہے۔

کابینہ اجلاس میں ان کی شرکت وزیر اعظم کی خواہش پر ہوتی ہے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کہتے ہیں جہانگیر ترین نے پارٹی کے لئے بہت کچھ کیا ہے، وہ پارٹی کارکنوں کے دل میں رہتے ہیں، پارٹی میں ہر کوئی عمران خان کو جوابدہ ہے۔ وزیرپٹرولیم غلام سرور خان کے مطابق پارٹی کے لئے جہانگیر ترین کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ عمران خان اپنے ان تمام ساتھیوں کی بات پر غور کریں تو انہیں بخوبی اندازہ ہو گا کہ یہ سب جہانگیر ترین کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ عمران خان کو ایک نا اہل شخص کے کابینہ اجلاس میں بیٹھانے کا ذمہ دار ٹھہرانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ یہ الزام کسی بھی وقت قابل گرفت ہو سکتا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے اور ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں عرصہ دراز سے مائنس تھری فارمولے کی بازگشت سنی جا رہی ہے۔ نواز شریف نا اہل ہو چکے، ان کے بعد آصف علی زرداری کی باری کا بتانے والے عمران خان خود ہیں جن کا سکرپٹ میں نام تیسرے اور آخری نمبر پر آتا ہے۔ مائنس تھری فارمولے کی تکمیل تک شاہ محمود قریشی اپنی باری کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ پارٹی کے اندر ان کے ساتھ بھی اتنے ارکان موجود ہیں جو کسی بھی وقت سب کوحیران کرنے کے لئے کافی ہیں جن میں درپردہ اسد عمرکا نام لیا جا رہا ہے۔

شاید اسی لئے جہانگیر خان ترین نے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو نام لیے بغیر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے فیصلے کرنے میں تاخیر کی گئی۔ فیصلوں میں تاخیر سے کئی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ ہمیں فیصلے کرکے آگے بڑھنا چاہیے تھا لیکن ہم نے معاملات کو لمبا کھینچ لیا ہے ”۔ ترین، قریشی چپقلش کو سلجھاتے ہوئے کہیں دیر نہ ہو جائے۔ اس لئے عمران خان کوذاتی پسند اور ناپسند کو بھولا کر قوم اور ملک کی بہتری کے لئے فیصلے کرتے وقت تمام اپوزیشن پارٹیوں سے کھلے دل کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے۔ کہیں ایسانہ ہو کہ مہنگائی کی سونامی میں بہتی عوام جون میں آنے والے بجٹ سے مذید ناقابل برداشت مہنگائی پر احتجاج کرتے ہوئے عمران خان کو مزید سوچنے اور اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ہی نہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).