افغانستان میں خچر اور مراکش میں خچر


افغانستان میں ستر کی دہائی میں بڑھتے ہوئے سوویت اثر و رسوخ نے آخرکار امریکہ کو بھی اس میدان میں سوویت یونین کے مدمقابل لاکھڑا کیا تھا۔ امریکہ اور پاکستان اس جنگ میں اسٹریٹیجک پارٹنرز تھے۔ جیسے جیسے جنگ اور مزاحمت افغانستان کے اندرونی علاقوں میں پھیل رہی تھی ویسے ویسے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں بھاری اور ہلکے اسلحہ اور گولا بارود کی ترسیل ایک چیلنج بنتے جارہی تھی۔ افغانستان کی دشوار گزار وادیوں میں اسلحے کی ترسیل کے لئے خچر سے زیادہ کارگر اور کوئی ذریع ممکن نہیں تھا۔

سی آئی اے نے مختلف ترقیاتی اداروں اور براہ راست بہت سے خچر ہوائی جہازوں میں لاد کر پشاور پہنچا دیے جہاں پر مصنوعی پہاڑیاں بنا کر خچروں کو دشوار گزار علاقوں میں چلنے کی تربیت دے کر فوجی مشن پر بھیج دیا گیا۔ بہرحال ان خچروں کی سخت مشقت، جدید ترین امریکی اسلحہ، افغان مجاہدین کی جنگی صلاحیتوں اور افواج پاکستان کی مہارت کی مدد سے دو دہائیوں پر مشتمل یہ جنگ بظاہر جیت لی گئی۔ اس جنگ نے افغانستان میں کروڑوں افراد کو بے گھر کر کے پاکستان اور ایران ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔ اس جنگ کی بدحالی کے اثرات سے افغانستان آج تک نہیں نکل پایا ہے۔

اب دیکھئے کہ خچروں کا مثبت استعمال کیا اثر لاتا ہے۔ مراکش پہاڑی سلسلے اٹلس میں بربر قبائل بستے ہیں۔ اس علاقے میں محدود زرعی وسائیل کی وجہہ سے یہ علاقہ ہمیشہ غربت کا شکار رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ترقیاتی تنظیموں نے یہاں پر سیاحت کو منظم کرنے میں بہت کام کیا۔ یہاں کی دشوار گزار وادیوں میں خچر سفر کا اک بہترین ذریع ہے جو کم وقت میں وادی کی گہرائیوں سے پہاڑی کی چوٹیوں تک سیاحوں اور انُ کے اسباب کو لے جاسکتا ہے۔

ابتدائی طور پر سیاحت سے منسلک گھرانے کو ایک خچر دیا جاتا ہے جس سے حاصل ہونے والی کمائی سے باآسانی دوسرا خچر خریدا جاسکتا ہے۔ ان علاقوں میں دو خچر رکھنے والا خاندان بہت خوشحال سمجھا جاتا ہے، ایسا خاندان اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلا سکتا ہے۔ یہاں کے گھروں میں خواتین عام طور پر خچروں کی نگہداشت کرتی ہیں جبکہ مرد ان خچروں پر پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کو ٹریکنگ میں مدد دیتے ہیں اور گائیڈ کے طور پر بھی اپنی خدمات مہیا کرتے ہیں۔ خچر افغانستان میں بھی مہیا کیے گئے مگر تباہی کے لئے! خچر مراکش میں بھی مہیا کیے گئے مگر خوشحالی کے لئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).