صدر ٹرمپ اور مسئلہ کشمیر


وزیراعظم عمران خان کا دورۂ امریکہ ہماری توقعات سے زیادہ کامیاب رہا۔ جب وہ امریکہ جانے والے تھے تو یہاں بہت سی ایسی باتیں کی جا رہی تھیں کہ یہ دورہ تیسرے درجے کے دعوت نامہ پر ہو رہا ہے۔ ایک طرف یہ کہا گیا کہ یہ علی جہانگیر صدیقی سابق سفیر امریکہ کی مہربانی سے ممکن ہوا ہے جن کی ٹرمپ کے داماد سے ذاتی دوستی ہے تو دوسری طرف اسے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد کی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ عمران خان کو بھی ٹرمپ سے ایسے حسنِ سلوک کی توقع نہ تھی، خود اُن کے بقول اُنہیں اِس حوالے سے اَن گنت مشورے دیے گئے۔

اِس موقع پر ہمیں مرحوم وزیراعظم جونیجو شدت سے یاد آئے جو کامیاب امریکی دورے سے واپس لوٹے تو صدر ریگن سے ملاقات کا نشہ انہیں مہینوں نہیں اترا۔ ہر جگہ پر اپنی تقاریر میں یہ الفاظ دہراتے سنائی دیتے کہ ”جب میں نے پریذیڈنٹ ریگن کو یہ بتایا کہ مسٹر پریذیڈنٹ میں نے پاکستان میں جمہوریت کو بحال کیا اور مارشل لاء اٹھوایا تو پریذیڈنٹ ریگن بہت خوش ہوئے اور بولے پرائم منسٹر جونیجو ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

یہاں تو وزیراعظم عمران خان کے پاس صدر ٹرمپ کو بتانے کے لئے بہت کچھ تھا، یہ کہ ہم نے ستر ہزار افراد کی قربانیاں دے کر نہ صرف اپنے علاقے بلکہ افغانستان سے بھی دہشت گردی کا خاتمہ کیا، یہ کہ ہم نے طالبان کو آپ کے ساتھ مذاکرات کے لئے رام کر لیا ہے، یہ کہ ہم نے اپنے ملک میں شدت پسند دہشت گرد تنظیموں پر پابندیاں لگا دی ہیں، یہ کہ ہم عافیہ صدیقی کے بدلے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو چھوڑنے پر تیار ہیں، یہ کہ ہم ایڈ نہیں ٹریڈ کے اصول پر آپ کے ساتھ تجارت بڑھانا چاہتے ہیں، یہ کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں مگر کیا کریں جنوبی ایشیا کے سوا سو کروڑ انسانوں کی زندگیوں اور خطے کا امن مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں میں متوقع تصادم روکنے کے لئے کشمیر ایشو کا حل بہت ضروری ہے اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے صدر کی حیثیت سے آپ اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اِس کے جواب میں عالمی طاقت کے صدر نے جو کچھ کہا وہ لاجواب تھا، بولے :دو ہفتے قبل وزیراعظم مودی سے میری بات ہوئی تھی، اُس میں اُنہوں نے مجھے کہا کہ آپ اس ایشو پر ثالثی کا کردار ادا کریں۔ میں نے پوچھا کس ایشو پر؟ بولے کشمیر ایشو پر، لہٰذا میں مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لئے تیار ہوں۔ اس پر ہمارے وزیراعظم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایسا کریں تو ایک ارب سے زیادہ انسانوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوں گی۔

امریکی صدر کا یہ فی البدیہہ بیان اس قدر غیر متوقع اور حیرت انگیز تھا، جس نے بھی سنا ایک مرتبہ اُسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا لیکن صدر ٹرمپ سے ایسے بیانات کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ بھارت میں اس پر صفِ ماتم بچھ گئی۔ وزیراعظم مودی پر سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے، حکومتی سطح پر اس کی وضاحتیں اور مذمتیں ہو رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا آگ بگولہ ہے تو لوک سبھا میں ہنگامے اور واک آؤٹ کی صدائیں یا ”مودی جواب دو“ کے نعرے ہیں۔ کانگرسی رہنما راہول گاندھی نے کہا ہے کہ وزارتِ خارجہ کا کمزور انکار نا کافی ہے وزیراعظم مودی قوم کو بتائیں کہ ان کی صدر ٹرمپ سے کیا گفتگو ہوئی اگر ٹرمپ سچ بول رہے ہیں تو مودی نے 1972 کے شملہ معاہدے کے ساتھ، پوری بھارتی قوم کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔

پنجابی محاورہ ہے کہ ”کملا بات کرے تو سیانا قیاس کرے“ جو لوگ بھارتی موقف اور وزیراعظم مودی کی ذہنیت سے آگاہ ہیں، وہ یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ اگرچہ ٹرمپ سے جھوٹ کی توقع محال نہیں لیکن اتنے بڑے ایشو پر اتنی بڑی کہانی گھڑنا ناقابلِ فہم ہے۔ ضرور کہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ درویش کی دانست میں مودی نے کشمیر میں دہشت گردی کا ایشو امریکی صدر کے سامنے ضرور اٹھایا ہوگا اور یہ کہا ہوگا کہ اس کو ختم کرنے کے لئے صدر ٹرمپ کوئی مثبت کردار ادا کریں۔

ان کی دیسی انگریزی اور صدر ٹرمپ کی ”سمجھ بوجھ“ سے ضرور یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ بات کہی کچھ اور سمجھی کچھ اور گئی ہو۔ ابھی حالیہ دنوں ایک خاتون جب صدر ٹرمپ کو یہ بتا رہی تھی کہ میری والدہ اور میرے چھ بہن بھائیوں کو داعش نے قتل کر دیا تھا تو صدر ٹرمپ نے اُس خاتون سے حیرت انگیز انداز میں پوچھا کہ اب وہ لوگ کہاں ہیں؟ اس انوکھے سوال پر آس پاس کھڑے لوگ بھی حیرت میں ڈوب گئے۔ بہرحال کشمیر ایشو پر صدر ٹرمپ کی گفتگو سے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو ہرگز کسی نوع کی توقعات وابستہ نہیں کرنا چاہئیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کی سیماب طبیعت سے کسی بھی لمحے کچھ بھی متوقع ہے۔ اپنی اسی گفتگو میں انہوں نے جہاں افغان صدر اشرف غنی کو پریشان کر دیا ہے وہیں طالبان کو بھی غصے اور ناراضی کے اظہار تک پہنچایا ہے۔ ایک طرف وہ جہاں یہ کہہ رہے تھے کہ افغان مسئلہ ایک ہفتے میں حل کر سکتا ہوں مگر اس کے لئے ایک کروڑ لوگ مارنا پڑیں گے، وہیں وہ ایرانیوں کو بھی جھوٹا قرار دے رہے تھے۔ پاکستانیوں کے متعلق کچھ ہی عرصہ قبل ابال نکال رہے تھے کہ یہ ہمارے اربوں ڈالر کھا گئے اور کام ٹکے کا نہیں کیا، یہ بہت جھوٹے ہیں اور آج فرما رہے تھے کہ اسلام آباد کبھی جھوٹ نہیں بولتا، امریکی امداد بند ہوئی تو اُس وقت عمران خان وزیراعظم نہیں تھے، اب یہ امدار بحال ہو سکتی ہے، دونوں ممالک کی باہمی تجارت بھی 12 گنا بڑھا سکتے ہیں۔ اُنہوں نے کھلے لفظوں میں پاکستان کو عظیم قوم اور عمران خان کو اس عظیم قوم کا عظیم لیڈر قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ دعوت ملی تو پاکستان کا دورہ کروں گا۔ ٹرمپ کی بیگم میلانیا نے بھی اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خاں کی کھلے لفظوں تعریف کی ہے۔

جواب میں عمران خان نے بھی صدر ٹرمپ کو صاف دل اور صاف گو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ہمارے دل جیت لیے ہیں۔ ٹرمپ کی باتوں سے حوصلہ پاتے ہوئے انہوں نے ٹرمپ کی کشمیر ثالثی جیسی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی امریکہ ایران ثالثی کے لئے تیار ہیں۔ یہ بھی کہا کہ مجھے افغان صدر اشرف غنی نے اس بات سے روک دیا تھا کہ میں طالبان سے براہ راست مذاکرات کروں، اب واپس جا کر طالبان سے ضرور ملوں گا۔ وزیراعظم عمران خان نے کھلے بندوں یہاں تک کہہ دیا کہ ہم پاکستان میں امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

امید کی جا رہی ہے کہ اس رواروی میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی بھی جان بخشی ہو جائے گی اور وزیراعظم عمران خان عافیہ صدیقی کو چھڑوا کر پاکستانیوں کو مزید خوش کر سکیں گے۔ لہٰذا ہر سو کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں، ایسے میں کوئی دل جلا ہی ہوگا جو عمران خان کے دورۂ امریکہ کو توقعات سے بڑھ کر کامیاب نہ کہہ سکے۔
بشکریہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).