یہ آئین سیاست دانوں کا محافظ ہے یا عوام کا؟


پوچھا جاتا ہے کہ سب الزامات صرف سیاست دانوں پر ہی کیوں لگتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ سیاست دان ہی ریاست چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں جمہوریت ریاستی امور چلانے کا بہترین ماڈل ہے۔ اس ماڈل کا سب سے اہم حصہ انتخابات اور منتخب ہونے والے سیاست دان ہوتے ہیں۔ انتخابات اور منتخب کرنے کے قواعدو ضوابط کو آئین کا نام دیا جاتا ہے۔ انتخابات کا جیسا طریقہ کار ہوگا اور منتخب سیاست دانوں کا جو میرٹ مقرر کیا جائے گا ملکی حالات اُسی کی عکاسی کریں گے۔

پاکستان میں بھی آئین سازی کی مختلف کوششیں کی گئیں۔ سب سے پہلی کوشش ناکام رہی جس کی سزا آج تک بھگتی جارہی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا افتتاح کیا لیکن یہ اسمبلی برس ہا برس تک کوئی بھی آئین نہ بناسکی۔ آئین سازی کی دوسری کوشش 1956 ء اور تیسری 1962 ء میں کی گئی لیکن یہ سب دستاویزات تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ آئین سازی کی سب سے موثر اور جان دار کوشش 1973 ء میں ہوئی۔

اسی آئین کے تحت ہمارا موجودہ سیاسی ڈھانچہ قائم ہے۔ اسی آئین کے تحت عام انتخابات ہوتے ہیں اور سِول حکومتیں اپنا کام سنبھالتی ہیں۔ مختصر یہ کہ 1973 ء کا آئین وہ قواعدو ضوابط ہیں جن کے تحت ریاستِ پاکستان کا انتظام چلایا جارہا ہے۔ اس آئین کے ظہور پذیر ہونے کے بعد کے مسلسل واقعات کا جائزہ لینے سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 1973 ء کا آئین کس حد تک عوام دوست اور صاف ستھری جمہوریت لانے کا حامل ہے۔ مثلاً اگست 1973 ء میں آئین کے نفاذ کے ٹھیک 4 سال بعد ملک میں سیاسی بدامنی پھیل گئی اور فوج نے آئین کو نکرے لگا کر اقتدار سنبھال لیا۔

یہ کہنا درست ہے کہ اُس وقت کی فوج نے غیرآئینی حرکت کی لیکن یہ پوچھنا بھی درست ہے کہ اُس وقت کی سیاسی قیادت جو آئین بنانے میں شامل تھی وہ سیاسی انتشار میں داخل کیوں ہوئی؟ کیا اُس وقت کی سیاسی قیادت آئین سے دغا کرگئی یا انہی کا بنایا ہوا آئین اُن سے دغا کرگیا؟ یاوہ آئین اپنی کمزوریوں کے باعث جمہوری اقتدار کی بجائے شخصی اقتدار کی نذر ہوگیا؟ 1973 ء کا آئین 1977 ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔

اگر اُس مارشل لاء کو ہوا میں دھماکے سے نہ اڑایا جاتا تو شاید 1973 ء کا آئین مزید کئی برس دفن رہتا۔ 1988 ء میں 1973 ء کے آئین کی دوبارہ رونمائی کے بعد آئندہ 11 برسوں تک اس آئین نے اپنا سراٹھائے رکھا لیکن پاکستان کی سیاست میں جمہوریت یا امن کی بجائے بدامنی اور غیرجمہوریت ہی چلتی رہی۔ بیشک 90 ء کی دہائی میں کوئی مارشل لاء ڈکٹیٹر نہیں آیا لیکن حقیقی جمہوریت بھی نہیں آئی۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ 1973 ء کے آئین نے سِول دور میں بھی عوام کو مایوس کیا؟

کیا یہ آئین اتنا بانجھ تھا کہ اپنی کوکھ سے حقیقی جمہوریت اور اچھے سیاست دان پیدا نہ کرسکا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اُس وقت پاکستان کی سیاست میں سازشیں ہی سازشیں تھیں۔ تو کیا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ 1973 ء کا آئین اُن سازشوں کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوا؟ اس ناکامی کی سزا ایک مرتبہ پھر پاکستانی عوام نے 1999 ء کے مارشل لاء کی صورت میں بھگتی۔ جنرل پرویز مشرف نے آئین کے ساتھ وہی کیا جو غریب کی جورو کے ساتھ کیا جاتا تھا۔

یہاں بھی آئین اپنا دفاع کرنے میں مات کھا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کی بے ہنگم مزاجی شخصیت اور کچھ غلط فیصلوں کی بدقسمتی نے اُن سے پاکستانی عوام کی جان چھڑائی۔ 1973 ء کے آئین کو ایک مرتبہ پھر نہلایا دھلایا گیا اور سولہ سنگھار کیے گئے۔ 2008 ء میں اسی آئین کے تحت انتخابات ہوئے۔ اس آئین کے تحت بننے والی جمہوری حکومت نے پانچ برس پورے کیے اور نئے انتخابات ہوئے۔ ہرطرف ڈھول بجائے گئے کہ 1973 ء کے آئین کے تحت پہلی مرتبہ سِول حکومت نے اپنا جمہوری عرصہ مکمل کیا اور جمہوری طریقے سے جمہوری انتخابات کے ذریعے 2013 ء میں اقتدار نئی منتخب سِول حکومت کو دیا۔

اِس حکومت نے بھی آئین کے تحت پانچ برس پورے کیے اور مسلسل تیسری مرتبہ آئین 1973 ء کے تحت 2018 ء میں جمہوری انتخابات کے بعد اقتدار سِول حکومت کو منتقل ہوا۔ گزشتہ گیارہ برس سے وہی 1973 ء کا آئین چمک دمک رہا ہے لیکن کوئی ہے یہ پوچھنے والا کہ آئین کی اس چمک دمک سے پاکستانی عوام کس حد تک مطمئن ہیں؟ دور کی بات چھوڑیں صرف چند برس پہلے آئین میں کی جانے والی 18 ویں ترمیم سے عام لوگوں کو کیا فائدہ ملا؟ اور تو اور اسی ترمیم کے تحت ہمارا وفاقی تعلیمی نظام بھی دربدر ہوگیا۔

1973 ء کا آئین پیپلزپارٹی کا فخر ہے کیونکہ اس آئین کی ایجاد کا پھول پیپلز پارٹی کے کالر پر سجا ہے۔ اگر اس پھول کی جگہ کوئی تازہ پھول آگیا تو پیپلزپارٹی کے پاس کیا بچے گا؟ 1973 ء کا آئین ن لیگ کے لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اسی کے تحت وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے اور خاندانی سیاست کے باعث آئندہ بھی باربار اقتدار میں رہنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ آئین کو مقدس کہنے والے دراصل عوام کو غیرمقدس بناگئے ہیں۔ عوام کو طاقت کا سرچشمہ کہنے والے بتاسکتے ہیں کہ گزشتہ 46 برسوں میں اس آئین کے تحت عوام کتنے طاقتور ہوئے۔

آئین کو ملک کی سلامتی کی ضمانت کہنے والے تفصیل سے بتائیں کہ اس آئین کی موجودگی کے باوجود بلوچستان کے لوگ ناراض کیوں ہوئے؟ کراچی اور سندھ میں لسانی تعصب کیوں پھیلا؟ آئین کی موجودگی کے باوجود ملک میں نوگو ایریئے کیوں قائم ہوئے؟ آئین کے باوجود ملک کی سلامتی کے لیے ضربِ عضب اور ردالفساد کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ یہاں تک کہ یہ آئین چھوٹو گینگ کو بھی کنٹرول نہ کرسکا۔ اگر مذہب میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے تو 1973 ء کے آئین کو اجتہادی عمل سے کیوں نہیں گزارا جاسکتا؟

یہ آئین مخصوص ٹولے کو باربار اقتدار پر قبضہ کرنے سے نہیں روک سکا۔ یہ آئین سیاست میں عام لوگوں کی بجائے خاندانی قبضے کو نہیں روک سکا۔ یہ آئین امیر کو امیرتر اور غریب کو غریب تر ہونے سے نہیں روک سکا۔ بکریوں کا ریوڑ جب اپنے راستے سے ہٹنے لگے یا اِدھر اُدھر منہ مارنے لگے تو چرواہا ایک گرجدار آواز لگاتا ہے تو سب بکریاں پھر سے صحیح چلنے لگتی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ کا فیصلہ ہو، گڈگورننس کی نشاندہی ہو یا کرپشن سے پاک معاشرے کی بات ہو، اِن سب کے لیے ایک گرجدار آواز کا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ عوام کو آئین کے خلاف سازشوں سے نہیں بلکہ مفادی آئین کا دفاع کرنے والوں کی نیتوں سے خطرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).