بلوچستان کے بھائیو اور بہنو! آپ اردو سمجھتے ہو نا؟ مریم نواز کا سوال


میرے بلوچستان کے بھائیو اور بہنو! آپ اردو سمجھتے ہو نا؟

کتنے لوگ اردو سمجھتے ہو؟

اچھے سے سمجھتے ہو؟

جو نہیں سمجھتے یا کم سمجھتے ہیں، ان کو وہ بھائی سمجھائیں جو زیادہ سمجھتے ہیں۔

یہ وہ سوال تھے جو پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے کوئٹہ میں متحدہ اپوزیشن کے جلسے میں شرکاءسے پوچھے۔

اس سے قبل ملک میں جب ن لیگ کی حکومت تھی تو سابق صدر مملکت ممنون حسین نے کوئٹہ میں ایک تقریب کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کسی نے بتایا کہ بلوچستان کی خواتین بھی باصلاحیت ہیں۔

یہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اور تین بار ملک پر اقتدار کرنے والی سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے بلوچستان کے عوام کے بارے میں خیالات ہیں۔ ان کی نظر میں بلوچستان کے عوام پاکستان کے نالائق ترین لوگ ہیں جن کو قومی زبان اردو تک نہیں آتی۔

ٹی وی پر ڈرامے ہوں، فلمیں ہوں یا پھر مزاحیہ ٹاک شوز، یہاں بھی پشتون اور بلوچ اقوام کا مذاق اڑا یا جاتا ہے، پروگراموں میں پیروڈی کرنے والے ایسی جگتیں مارتے ہیں جیسے ان دو اقوام کو کچھ پتا نہیں ہوتا۔ قومی چینل پی ٹی وی کے مشاعرے میں پشتونوں کا مذاق اڑایا گیا، کسی نے نوٹس نہیں لیا، نجی چینل اے آر وائی میں بلوچ قوم کو تضحیک کانشانہ بنایا گیا کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کسی نے نوٹس نہیں لیا اور لینا بھی کیوں چاہیے آزادی اظہار رائے کے نام پر ان دو اقوام کی تضحیک کرنا تو جائز ہے۔

کئی فلمیں بنیں جس میں پشتونوں کے کلچر کا مذاق اڑایا گیا، فلموں اور دوسرے شوز میں پشتون ثقافتی لباس، ٹوپی اور چادر پہنے لوگوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ دو سال قبل اخبار میں چھپنے والے دہشتگردوں کی پہچان کے حوالے سے اشتہارشائع ہوا تو اس میں بھی غدار شخص نے پشتون ثقافتی لباس پہنا تھا۔ ملتان ریلوے اسٹیشن پر مشقیں ہوئیں تو وہاں بھی دکھائے گئے دہشت گرد پشتون لباس میں ملبوس تھے۔ پنجاب پولیس نے پمفلٹ شائع کیا جس میں عوام کو پشتونوں سے دور رہنے کی تلقین کی گئی تھی۔ ملک کے بڑے صوبے میں تو پشتونوں اور بلوچوں کو مکمل طور پر غدار بولا جاتا ہے۔ اس کا شکار میں رقم التحریر خود بھی ہوا ہے۔ لاہور کے مضافات میں دوران تبلیغ جب ہم گشت کرتے تھے تو ہم سے ڈائریکٹ سوال پوچھا جاتا تھا کہ آپ پنجابیوں کو کیوں مارتے ہوں؟

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے چند سال قبل ایک رپورٹ بنائی جس میں لاہوریوں سے بلوچستان کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ آپ بلوچستا ن کے بارے میں کیا جانتے ہو۔ جواب دینے والوں کی اکثریت نے کہا کہ ہم بلوچستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ بعض لوگوں کو بلوچستان کے شہروں کے بارے میں بھی نہیں پتا تھا۔ بعض لوگوں نے تو کہا کہ وہاں پشتون رہتے ہیں اور پشتونوں کے ساتھ پختون بھی رہتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر لڑتے رہتے ہیں، وہاں جانے سے ہم ڈرتے ہیں۔

بعض لوگوں نے ان تمام صورت حال کا ذمہ دار میڈیا کو ٹھہرایا کہ بلوچستان کے بارے میں ملک کے دیگرحصوں کے عوام میں شعوراجاگر میڈیا کا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ لیکن میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان جب خود بلوچستان اور پشتون خوا کے عوام کے بارے میں ایسے توہین آمیز ریمارکس دیں تو عوام سے کیا گلہ ہو گا۔

اب مریم بی بی کے سوال کا جواب ڈاکٹرمجیب احمد کے تجزیاتی مطالعہ کے اس حصے سے دیتے ہیں جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ کہ 1968 سے 1977 کے دوران اردو کو قومی زبان کا درجہ ملا مگر ساتھ ہی دیگر علاقائی زبانوں کی بھی اس طرح سرپرستی کی گئی کہ وہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں مقامی سطح تک ذریعہ تعلیم بن سکیں۔ تاہم صوبہ پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں میں یہ یونیورسٹی کی سطح تک بھی ذریعہ تعلیم بنی رہیں

1977 کے بعد اردو کی بطور قومی زبان تمام صوبوں میں تعلیم و تدریس ہوتی رہی، تاہم دیگر علاقائی زبانیں بھی پرائمری کی سطح تک پڑھائی جاتی رہیں۔ بلوچستان واحد صوبہ تھا جہاں اردو کو پہلی جماعت ہی سے لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانے لگا۔ دوسری جانب بلوچستان ہی پہلا صوبہ تھا جس نے اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا ہے۔

اس سے آگے ہم مریم بی بی کو کیسے سمجھائیں کہ جی ہاں ہم بھی اردو سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).