طلاق ثلاثہ بل: بھارتی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا بہانہ ہے


گزشتہ دنوں لوک سبھا میں طویل بحث اور اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود طلاق ثلاثہ کا بل منظور کر لیا گیا۔ اِس موقع پر کئی اپوزیشن پارٹیوں نے احتجاجاً واک آوٹ کیا۔ بل کی حمایت میں 303/اور مخالفت میں 82/ووٹ پڑے۔ بل کو قانون بنانے کیلئے اب حکومت کو اِسے راجیہ سبھا سے بھی منظور کرانا ہوگا۔ واضح رہے کہ حکومت اِس بل کو پہلے بھی لوک سبھا سے منظور کرا چکی ہے لیکن راجیہ سبھا میں یہ بل نا منظور ہو گیا تھا۔

ایوان میں بل پر تبادلہ خیال کے دوران کانگریس لیڈر ششی تھرور نے کہا کہ کانگریس کی جانب سے مَیں تین طلاق بل کی حمایت نہیں کرتا کیونکہ یہ بل مسلم خاندانوں کے خلاف ہے اور صرف ایک طبقہ کو دھیان میں رکھ کر لایا جا رہا ہے۔ اُن کے بقول، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں مگر اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ حکومت کو طلاق ثلاثہ قانون کی بجائے یکساں قانون لانا چاہئے جس میں صرف مسلم مردوں کو ہی ہدف نہ بنایا گیا ہو۔

بہت ضروری ہے کہ اِس شریعت مخالف بل کے تعلق سے ہم بھی اِسی طرح کا رویہ اختیار کریں۔ مطلب یہ کہ دانشوروں اور سماجی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر مذہبی لحاظ سے بحث کو روکنے کے بجائے اِس کو صنفی انصاف کے اِرد گِرد لا کر سخت مخالفت کرنا چاہئے۔ کیونکہ اِس بل سے مسلم خواتین کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ بات ہم بھی جانتے ہیں اور حکومت بھی۔ حکومت کو مسلم عورتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ہر بار حقائق کی روشنی میں پوری مضبوطی سے اِس بل کی شدید مخالفت کی ہے اور اِسے امتیازی قرار دیا ہے۔ اویسی کے مطابق جب عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے، یعنی تین بار طلاق دینے سے شادی ختم نہیں ہوتی تو پھر یہ قانون کیوں بنایا جا رہا ہے؟ یہ قانون دستور کی دفعات 14/اور 15/کی خلاف ورزی کرتا ہے اور دیگر ضابطے بھی پامال ہوتے ہیں۔

بلاشبہ یہ بل مسلم معاشرہ کیلئے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔ وقت رہتے اِس بل کی شدید مخالفت ہونی چاہئے۔ شروعات سب سے پہلے مسجدوں کے ممبروں و محراب سے ہو۔ جہاں امت مسلمہ کو یہ پیغام دیا جاۓ کہ مسلمان تین طلاق ایک مجلس میں نہ دیں۔ حالانکہ اگر یہی کام بہت پہلے ہو جاتا تو آج یہ نوبت ہی نہیں آتی۔ آج جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے کیا اُس میں خود مسلمان قصوروار نہیں ہے؟ دوسروں کو شریعت سے کھیلنے کا موقع ہم نے خود دیا ہے۔

اِس خطرناک بل کے مطابق تین طلاق دینے والے مرد کو مجرمانہ سزا دی جاۓ گی جس کی مدت کار تین سال کی جیل ہوگی۔ اتنا ہی نہیں یہ جرم ناقابلِ سماعت اور غیر ضمانتی بھی ہے۔ ضمانت کیلئے شرائط میں جو تبدیلی کی گئی ہے وہ عام آدمی کی وسعت سے باہر ہے۔ سوچنے والی بات ہے اگر کوئی ہندو اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور مقدمہ چلے تو اُس کو ایک سال کی جیل اور مسلمان کو تین سال کی جیل؟ حکومت کسی بھی صورت میں مسلم خواتین کی ہمدرد نہیں ہے۔

جب شوہر جیل چلا جائے گا تو اُس کا نان نفقہ کون برداشت کرے گا؟ کتنی عجیب بات ہے کہ شوہر کے جیل کاٹنے کے بعد کیا وہ اُس عورت کے ساتھ رہنا پسند کرے گا جس کی وجہ سے وہ تین سال جیل میں رہ کر آیا ہے؟ کیا وہ تین سال بعد جیل سے باہر آنے پر اپنی اہلیہ سے محبت کا اظہار کرے گا؟ ہرگز نہیں۔ کیا ایسے میں یہ بل مسلم خاندانوں کے بکھراؤ کا سبب نہیں بنے گا؟ اِن ساری باتوں کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ طلاق ثلاثہ بل، اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا بہانہ ہے۔

حکومت کو مسلم عورتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، سیاسی فائدہ کیلئے اِس بل کو منظور کیا گیا ہے۔ دیکھا جاۓ تو 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی طلاق ثلاثہ بل کا سیاسی فائدہ اُٹھا چکی ہے۔ اب ایک بار پھر اِس کا سیاسی استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اِسی لئے کئی ریاستوں میں عنقریب ہونے والے اسمبلی انتخابات کے مدِ نظر اِس بل کو جلدبازی میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بل مسلم خواتین کے مفادات کو فروغ دینے کیلئے کچھ نہیں کرے گا بلکہ مسلم مردوں کو سزا دینے کیلئے ہی بنایا گیا ہے۔

فیصل فاروق، ممبئی، انڈیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فیصل فاروق، ممبئی، انڈیا

فیصل فاروق ممبئی، اِنڈیا میں رہائش پذیر کالم نِگار اور صَحافی ہیں۔

faisal-farooq has 32 posts and counting.See all posts by faisal-farooq