ڈاکٹر خالد سہیل کے نام محبت بھرا سوالنامہ


محترم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب

آداب

زندگی کی لگ بھگ چار دہائیاں گزر گئی ہیں۔ اس طویل سفر میں بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ چند ایک ایسے ملے جن سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا مگر مل کے صدمہ ہوا اور دوبارہ ملنے سے توبہ کر لی۔ دوبارہ مل بھی گئے تو بھی اتنا ہی صدمہ ہوا۔ کچھ ایسے تھے جن سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ بہت اچھا وقت ساتھ گزارا مگر پھر کبھی ان کا اور کبھی میرا موڑ آ گیا اور ہم بچھڑ گئے۔ مگر یادوں میں ہمیشہ موجود رہے۔ دل ہمیشہ دوبارہ ملنے کو تڑپتا رہا۔

اور جب ملاقات ہوئی تو طبعیت ہشاش بشاش ہو گئی۔ مختصر ملاقات میں بھی یوں لگا جیسے ایک دہائی کی تھکان اتر گئی۔ کچھ ہستیاں ایسی بھی ملیں جو اپنی زندگی میں ایسے عظیم کام کر گئے کہ ان سے دوبارہ ملنے کی چاہ تو بہت ہے لیکن ان کے کام، ان کی لگن، اور جدوجہد کو دیکھ کے اپنا آپ اس قابل ہی نہیں لگتا کہ ان کے روبرو ہو سکوں۔ بہت دل کرتا ہے ملنے کو۔ لیکن یہی سوچتا رہ جاتا ہوں کہ کہاں وہ کہاں میں نکما۔

جو لوگ ہم سے دور ہوں ان سے ملنے کا اشتیاق تو قابل فہم ہے۔ کچھ ایسے بھی ملے جو دل کے بھی قریب تھے اور گھر کے بھی۔ دولت کدہ کہہ لیں یا درویش کا ڈیرہ کہہ لیں مگر ان کا در ہمیشہ کھلا ملتا ہے جہاں دستک دینے سے پہلے ہی اندر سے آواز آتی ہے ”قبلہ! محترم! چلے آئیے۔ “ ان سے جتنی بار ملا کچھ نیا ہی سیکھا۔ ہر دفعہ ملاقات پر ان کی شخصیت کی ایک نئی جہت سامنے آئی۔ کبھی ایک شاعر سے ملاقات ہو گئی۔ آپ واہ واہ کرتے گئے اور مزید کلام سننے کے اشتیاق میں دوبارہ اس در گئے تو سامنے ایک افسانہ نگار کو پایا۔

اگلی دفعہ ایک فلسفی سے ملاقات ہو گئی۔ پھر جانا ہوا تو طبیب کو سامنے پایا۔ اس کے بعد کالم نگار مل گیا۔ پھر ایک تاریخ دان سے ملاقات ہو گئی۔ ایک ہی کرسی پر کبھی سارتر ہوتا ہے تو کبھی آئن سٹائن۔ ایک ہی ملاقات میں آپ رومی اور ابن رشد دونوں سے مل لیتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں ایک نقطے سے شروع ہوتی ہیں۔ اگلی دفعہ وہ نقطہ ایک لکیر بن جاتا ہے۔ اس سے اگلی نشست میں ایک زاویہ، پھر اس کے بعد ایک مثلث، اور پھر ایک پیرامڈ۔

آپ سوچتے ہی ہیں کہ اب شکل واضح ہو گئی ہے کہ پیرامڈ ایک مکعب بن جاتی ہے۔ ہر دفعہ ایک نئی جہت کا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اتنی زیادہ جہتوں کے سبب، کچھ لوگ بینائی کی کمزوری یا دور سے مشاہدہ کرنے پر اس شکل کو ایک گیند سمجھ بیٹھتے ہیں، ایک کھلونا تصور کرتے ہیں اور سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مگر ان کی ایک جہت درویش کی بھی ہے اپنی دھن میں مگن۔ ان سے ملنے کی پیاس بجھ کے ہی نہیں دیتی۔

ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کئی موضوعات پر آپ سے فیض حاصل کیا مگر کچھ سوال کئی دفعہ پوچھنے کا سوچا لیکن گفتگو کس اور موضوع پر ہو رہی ہوتی تھی اور مجھے مناسب نہیں لگا کہ موضوع سے ہٹا جائے۔ اس لیے سوچا کہ کیوں نہ خط میں یہ سوال پوچھ لوں۔ امید ہے آپ اپنی مصروفیات میں سے چند گھڑیاں نا چیز کے لیے نکال پائیں گے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ فرض کریں کسی صاحب کو ہائی بلڈ پریشر ہے۔ وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ لگ بھگ تمام ہی ڈاکٹر اسے کسرت کرنے کا مشورہ دیں گے، ملتا جلتا پرہیز بتائیں گے، ٹیسٹ بھی تقریبا ایک سے ہوں گے، اور دوائیں بھی ملتی جلتی ہوں گی۔ ڈاکٹر کے اپنے مذہبی اور سیاسی عقائد اس علاج پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ نفسیات بھی طب ہی کہ ایک شاخ ہے۔ آپ نے دونوں پڑھ پڑھ رکھی ہیں دونوں ہی کی پریکٹس کی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک دیکھے ہیں۔

کیا نفسیات میں تھیراپسٹ کے اپنے عقائد علاج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مجھے تجربہ تو نہیں ہوا مگر کیا ایسا ہوتا ہو گا کہ کسی شخص کو اینگزائیٹی ہو، اسے غصہ آتا ہو، مزاج میں اکھڑ پن ہو، یا کوئی اور مسئلہ فرض کر لیں۔ اسے ایک ماہر نفسیات مشورہ دے کہ نماز پڑھا کرو۔ دوسرا مشورہ دے کہ یوگا کیا کرو۔ جبکہ تیسرا مشورہ دے کہ ورزش کرو تا کہ جسم اینڈورفن، سیراٹونن اور ڈوپامین بنائے؟ یا یہ کہ کوئی والدین اپنی اولاد کے ساتھ آئیں کہ یہ ہم جنس پرست ہو گیا ہے۔

اب اگر تھیراپسٹ خود ایک پروگریسو سوچ رکھتا ہے تو وہ شاید والدین کو سمجھائے کہ یہ نفسیاتی بیماری نہیں ہے۔ مگر اگر تھیراپسٹ خود کنزرویٹو ہے تو کیا وہ اسے ایک بیماری سمجھے گا۔ دنیا میں اب بھی بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں ہم جنس پرستی غیر قانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ غالبا امریکہ کی اب بھی بہت سی ریاستوں میں ہم جنس پرست جوڑوں پر بہت سی پابندیاں ہیں۔ اسی طرح marijuana کو حال ہی میں کینیڈا میں قانونی تحفظ ملا ہے۔ یہاں کا ایک نوجوان اگر اسے روزانہ ایک بار استعمال کرتا ہے تو شاید اسے منشیات کے طور پر نہ دیکھا جائے۔ مگر بارڈر کے اس پار اگر ایک نوجوان روزانہ اس کا استعمال کرتا ہے تو کیا وہاں کا تھیراپسٹ اسے منشیات کے عادی فرد کی طرح سمجھے گا؟ اور اس کا علاج بھی منشیات کے عادی فرد کی طرح کرے گا؟

اسی سے ایک اور سوال جڑ جاتا ہے کہ ماہرین نفسیات اور قانون کا کیا تعلق ہے؟ آج قانون کہتا ہے کہ فلاں چیز منع ہے۔ اور اس کے استعمال پر سزا ہو گی۔ اور ان کے استعمال کرنے والوں کا علاج کیا جاتا ہو گا۔ ایوان میں اقلیتی حکومت ہے۔ یعنی چاہے ان کی نشستیں باقی پارٹیوں سے زیادہ ہیں لیکن پچاس فیصد سے زائد نہیں ہیں۔ وہ کسی غیر قانونی چیز کو قانونی تحفظ دے دیتے ہیں۔ یہ تبدیلی عوام کو قبول کرنے میں شاید برسوں لگ جائیں۔

مگر تھیراپسٹ کے لیے اسے قبول کرنا کتنا آسان اور کتنا مشکل ہے؟ کیا اب اگر لوگ اس مسئلے پر تھیراپسٹ کے پاس آئیں گے تو کیا وہ اس کا علاج کرنے سے انکار کر دے گا کہ اس میں تو کوئی برائی نہیں ہے؟ مثلا آج ہائی وے پر حد رفتار سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ ایک شخص آپ کے پاس آتا ہے کہ اسے بار بار تیز رفتاری پر چالان ہوتا ہے۔ آپ اس کا علاج کرتے ہیں۔ کل حد رفتار ایک سو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جاتی ہے۔ کوئی چالان نہیں ہو رہا مگر والدین اپنے نوجوان بچے کے ساتھ آتے ہیں کہ یہ ایک سو پینتالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے گاڑی چلاتا ہے اور ہمیں اس کے ساتھ ڈر لگتا ہے تو آپ بچے کے بجائے اب والدین کا علاج کریں گے کیونکہ پچھلے ہفتے حکومت نے قانون بدل دیا؟

امید ہے میں اپنے سوالات سمجھا پایا ہوں گا لیکن بعض دفعہ میں بات گڈ مڈ کر جاتا ہوں زلف یار کی طرح گرہ گیر۔ اس لیے کوشش کر کے اس سوالات کا خلاصہ بیان کرتا ہوں۔

نفسیات دان کے ذاتی عقائد سے کیا علاج پر فرق پڑتا ہے؟

جب نفسیات دان کے ذاتی عقائد، قانون یا عمومی سماجی عقائد سے متصادم ہوں تو اس صورت میں کیا علاج میں کوئی فرق پڑے گا؟

نفسیات دان کے علاج اور ریاستی قوانین کا کیا تعلق ہے؟

کیا قانونی تبدیلیوں سے نفسیاتی بیماریوں کی تعریف میں فرق پڑتا ہے؟

اگر ہاں تو نفسیات دان کے لیے اس تبدیلی کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا کس قدر مشکل یا آسان ہے؟

کیا نفسیات دان کسی مسئلے کے علاج سے انکار کر سکتا ہے؟

کیا علم نفسیات میں ایسے علاج ہیں جو کسی ایک جگہ تو تجویز کیے جاتے ہیں مگر دوسری جگہ نہیں؟

امید ہے دیگر موضوعات کی طرح ان سوالات پر بھی آپ راہ نمائی فرمائیں گے۔

خیر اندیش

خواجہ زبیر

29 جولائی 2019

**************************************

ڈاکٹر خالد سہیل کا خواجہ زبیر کو جواب

خواجہ زبیر صاحب!

اگر پہلے مجھے کچھ شک تھا تو آج آپ کا خط پڑھنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ ایک ادیب بھی ہیں ایک فلسفی بھی۔ ایک انشا پرداز بھی ہیں ایک دانشور بھی۔ آپ سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر بھی ہیں اسی لیے آپ سے تبادلہِ خیال سے میں بھی بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ آپ کا ذہن بہت زرخیز ہے جو نئے نئے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اس خط سے پہلے بھی آپ نے میرے کالموں کے جواب میں کئی کالم لکھے اور ’ہم سب‘ میگزین میں چھپوائے۔ آپ کی وہ تخلیاقات دلچسپ بھی تھیں اور فکرانگیز بھی۔ آپ کی تحریروں نے ہماری دوستی میں ادبی اور فلسفیانہ رنگ بھر دیے ہیں۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ مجھے آپ جیسا قاری اور دوست ملا ہے۔

خواجہ زبیر صاحب!

آپ کے سوالات بظاہر کسی گاؤں کی الہڑ حسینہ کی طرح بہت سادہ و معصوم دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ گاؤں کی حسینہ اب کسی بڑے شہر کی کسی معتبر دانشگاہ سے ڈگری لے کر لوٹی ہے اس لیے اس کی سادگی میں گہرائی اور معصومیت میں دانشوری کے رنگ نمایاں ہو گئے ہیں۔ اسی طرح آپ کے سوالوں کا جواب لکھنے کے لیے ؎ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔ آپ کے ایک خط کے چند سوالات کا تسلی بخش جواب دینے کے لیے بہت سے خطوط لکھے جا سکتے ہیں۔ میں اس پہلے خط میں صرف چند بنیادی باتوں کا ذکر کروں گا۔

جب ہم طب اور نفسیات کی تین ہزار سال کی تاریخ کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ علم و اگہی کا سفر کئی ادوار سے گزرا ہے

پہلا دور وہ تھا جب انسان سمجھتے تھے کہ وہ اس لیے بیمار ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے گناہ کیے ہیں اور خدا ان سے ناراض ہو کر انہیں سزا دے رہا ہے۔ وہ انسان خدا سے دعائیں کرتے تھے اپنے گناہوں کی معافیاں مانگتے تھے اور طرح طرح کی قربانیاں دے کر روٹھے اور ناراض خدا کو منانے کی کوشش کرتے تھے۔

دوسرا دور وہ تھا جب بقراط نے یونان میں پہلی دفعہ انسانوں کو بتایا کہ انسان کی بیماری کا تعلق صحت کے سائنسی اصولوں سے ہے گناہوں ’خداؤں‘ دعاؤں اور سزاؤں سے نہیں۔ انہوں نے کہا جو لوگ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کریں گے صحتمند رہیں گے جو عمل نہیں کریں گے بیمار ہوجائیں گے۔ انہوں نے فرمایا تھا

۔ روزانہ ورزش کرو

۔ متوازن غذا کھاؤ

۔ ہر روز بہت سا پانی پیو

۔ گہری نیند سوؤ

۔ بقراط نے صحتمند زندگی گزارنے کے جو مشورے 500 قبل مسیح میں دیے تھے وہ سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی اہم ہیں۔

تیسرا دور۔ اس دور میں طیببوں کا خیال تھا کہ انسانی جسم میں چار رطوبتیں HUMORS ہیں (BLOOD۔ PHLEM۔ YELLOW BILE۔ BLACK BILE) اور انسانی بیماریاں ان رطوبتوں کا توازن خراب ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یہ نظریہ طب کی تاریخ میں HUMORAL THEORY کہلاتا ہے۔ اس نظریے کی ایک مثال مالیخولیا ہے۔ اس دور کے ماہرین کا خیال تھا کہ اگر انسان کے جسم میں BLACK BILE بڑھ جائے تو اس انسان کا ذہن متاثر ہوتا ہے اور وہ مالیخولیا MELANCHOLE کا شکار ہو جاتا ہے۔

چوتھا دور۔ بیسویں صدی کی تحقیق نے انسان کے نفسیاتی مسائل کی تفہیم اور تفسیر کے لیے ایک موڈل بنایا جو اب BIO۔ PSYCHO۔ SOCIALMODEL کہلاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق انسانوں کی ذہنی بیماریاں اور نفسیاتی مسائل میں

حیاتیاتی عواملBIOLOGICAL FACTORS

نفسیاتی عواملPSYCHOLOGICAL FACTORS

سماجی عواملSOCIAL FACTORS

سبھی شامل ہیں۔

اگر کوئی انسان ڈیپریشن کا شکار ہے تو اس کی بیماری میں

موروثی اور کیمیائی ’نفسیاتی اور سماجی سبھی عوامل شامل ہو سکتے ہیں۔

سٹیون ہاکنگ نے حقیقت کو سمجھنے کے بارے میں MODEL DEPENDENT REALITY کا نظریہ پیش کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم زندگی کو جس نظریے کی عینک سے دیکھتے ہیں ہمیں زندگی ویسی ہی نظر آتی ہے۔

اس کی مثال ایک ڈیپریشن کی مریضہ جنت بی بی ہے

جنت بی بی ایک سائیکاٹرسٹ کے پاس جاتی ہے۔ سائیکاٹرسٹ ایک میڈیکل ڈاکٹر ہے اس کا نظریہ ہے کہ ڈیپریشن انسانی دماغ میں کیمیائی مادوں کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اسے ایسی ادویہ ایسی ANTI۔ DEPRESSENTS کا نسخہ دیتا ہے جو اس کے دماغ کے کیمیائی مادوں کو نارمل سطح پر لے آئے۔

جنت بی بی ایک سائیکولوجسٹ کے پاس جاتی ہے۔ سائیکولوجسٹ ڈاکٹر نہیں ہے وہ ادویہ تجویز نہیں کر سکتا۔ اس کا نظریہ ہے ڈیرپیشن شخصیت کی کجی یا خود اعتمادی کی کمی سے ہوتی ہے۔ اس لیے وہ جنت بی بی کو انفرادی سائیکوتھیریپی تجویز کرتی ہے۔

جنت بی بی ایک سوشل ورکر کے پاس جاتی ہے۔ سوشل ورکر کا نظریہ ہے کہ ڈیپریشن ازدواجی مسائل اور خاندانی تضادات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لیے وہ جنت بھی کو فیملی تھیریپی تجویز کرتی ہے۔

میری نگاہ میں سائیکاٹرسٹ۔ سائیکولوجسٹ۔ سوشل ورکر۔ سب تھوڑا تھوڑا سچ جانتے ہیں۔

اسی لیے ہم نے اپنے کلینک میں ایک HOLISTIC APPROACH اپنائی ہے اور میں اور میری رفیقِ کار بے ٹی ڈیوس اپنے مریضوں کو

COMBINATION THERAPY

۔ INDIVIDUAL۔ MARITAL۔ FAMILY۔ GROUP THERAPY

پیش کرتے ہیں۔ ہم مریض کو اپنے طریقہِ علاج میں فٹ کرنے کی بجائے اپنے علاج کو مریض کی ضرورت کے مطابق بدلتے ہیں۔ اگر مریض کو ادویہ کی ضرورت ہو تو اسے ادویہ بھی تجویز کرتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتیہے کہ ادویہ کی کم از کم ضرورت پیش آئے۔

مغربی دنیا میں پچھلی صدی میں ایک درجن نفسیاتی مکاتبِ فکر نے جنم لیا اور مختلف طرح کے طریقہِ علاج وجود میں آئے ہیں۔ وہ سب اپنے اپنے طریقے سے کامیاب ہیں۔

ایک ماہرِ نفسیات کارل روجرز کا موقف ہے کہ کسی مریضہ کے کسی بھی تھیریپسٹ سے علاج میں اگر

۔ تھیریپسٹ ہمدرد ہے

۔ مریض کا تھیریپسٹ پر اعتماد ہے

۔ تھیریپسٹ کسی خاص سائنسی روایت کا تجربہ کار ہے

تو مریض کے بہتر ہونے کے امکانات درخشاں ہیں۔

سائنسی سوچ نے جسمانی بیماریوں میں ذہنی بیماریوں کی نسبت زیادہ ترقی کی ہے۔

میں اس کی ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سینکڑوں سال سے مختلف ممالک کی FOLK TRADITION یہ تھی کہ اگر کسی انسان کو ہر 48 گھنٹے کے بعد کپکپی سے بخار آتا ہے تو اگر اسے ایک خاص جڑی بوٹی دو ہفتے کھلائی جائے تو بخار ٹھیک ہو جاتا ہے۔

پھر سائنسدانوں نے اس بخار کی تشخیص کی اور اس کا نام ملیریا رکھا۔ پھر اس بیماری کی وجوہات کا پتہ کیا۔ تحقیق نے بتایا کہا ایک خاص طرح کے مچھر کی مادہ FEMALEANOPHELESE MOSQUITO جب ایک ملیریا کے مریض کو کاٹتی ہے تو ایک خون کا قطرہ اپنے ساتھ لے جاتی ہے اور جب وہ ایک صحتمند انسان کو کاٹتی ہے تو ملیریا کا جرسومہ صحتمند انسان کے خون میں داخل کر دیتی ہے اور وہ انسان ملیریا کا مریض بن جاتا ہے اور اسے 48 گھنٹے کے بعد کپکپی سے بخار ہونے لگتا ہے۔

جب میں ایران میں رہتا تھا تو ملیریا کا مریض ہو گیا تھا۔ سائنسدانوں نے اس خاص جڑی بوٹی کے تجزیے سے پتہ کیا کہ اس جڑی بوٹی میں کونیین تھی جو اس ملیریے کے جرسومے کو مار دیتی ہے۔ اب اس کونین کی گولیاں بن گئی ہیں جو کلوروکوئن کہلاتی ہیں۔ اب جڑی بوٹی کھانے کی بجائے ہم مریض کو وہ گولیاں دیتے ہیں۔ میں نے بھی وہی گولیاں کھائیں اور صحتیاب ہو گیا۔

جسمانی بیماریوں کی تحقیق اور علاج قدرے آسان ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کی تفہیم میں ابھی وقت درکار ہے کیونکہ وہ بیماریاں جسمانی بیماریوں کی نسبت قدرے پیچیدہ ہیں۔

کسی بھی مریض کے علاج کا تعلق

ڈاکٹر کی تعلیم

ڈاکٹر کے تجربے

طبیب کی شخصیت اور فلسفہِ حیات

طب کے نظامِ صحت

اس معاشرے کے ارتقا

پر مبنی ہے۔

دنیا میں جہاں ایسے ممالک اور معاشرے ہیں جہاں سائنس نے ترقی کی ہے اور مریض جدید طریقہِ علاج سے استفادہ کرتے ہیں وہیں ایسے ممالک اور معاشرے بھی ہیں جو ابھی بھی ڈاکٹر اور ماہرِ نفسیات کے پاس جانے کی بجائے کسی مولوی یا کسی روحانی پیشوا کے پاس جا کر دعائیں کرواتے ہیں ’دو کالے بکروں کی قربانی دیتے ہیں اور گنڈا تعویز سے علاج کرواتے ہیں۔

خواجہ زبیر صاحب! میں نے آپ کے سارے سوالات کا جواب تو نہیں دیا لیکن کچھ اشارے کر دیے ہیں اور

؎ عاقل را اشارہ کافی است

آپ کے اگلے خط کا انتظار رہے گا۔

آپ کا ادبی دوست

خالد سہیل

29 جولائی 2019


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).