بجلی‘ گیس کے نرخوں میں کمی کی امید نہ باندھیں


امریکی حکومت کامل یکسوئی سے ان دنوں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ اس کا عزم ہے کہ اسے کسی صورت بڑھنے نہ دیا جائے۔ بنیادی طور پر اس کا عزم اقتصادی نہیں سیاسی ترجیحات کے تابع ہے۔ دُنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اسے ایران سے تیل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں۔ دُنیا کے ہر ملک کو اس کی ضرورت کا تیل خلیجی ممالک کے علاوہ دیگر ذرائع سے مناسب بلکہ سستے نرخوں پر مل سکتا ہے۔

امریکی ترجیحات کے علاوہ حقیقت یہ بھی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کے اہم ترین خریدار چین کی معیشت ان دنوں سست روی کا شکار ہے۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے ملک میں درآمدہوئی چینی مصنوعات پر ڈیوٹی میں اضافہ کرتے ہوئے اس سست روی کا ’’بندوبست‘‘ کیا۔

میں اقتصادی حقائق کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوں۔ چین کے بارے اس کے سوا اور کچھ نہیں جانتا کہ وہ ’’اپنا یار ہے اور اس پر جان بھی نثار ہے‘‘۔ ٹرمپ کے دعویٰ کی تصدیق یا تردید کے لئے دلائل تراش نہیں سکتا۔ اگرچہ عالمی اخبارات کو ذرا غور سے دیکھتے ہوئے انداز ہو رہا ہے کہ فقط چین ہی نہیں بلکہ تمام یورپی ممالک حتیٰ کہ ہمارے ہمسائے بھارت میں بھی اقتصادی عمل سست روی کا شکار ہے۔ کئی ماہرین اس خدشے کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ آئندہ برس سے ایسی سست روی ہمیں امریکی معیشت میں بھی دیکھنے کو ملے گی۔ اس کے نتیجے میں شاید دُنیا بھر کو ویسے ہی معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑے جو 2008 میں نازل ہوا تھا۔

مذکورہ بالا تمہید کا مقصد خود کو عالمی منظر پر نگاہ رکھنے والا ’’دانشور‘‘ ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے۔ گلی کی زبان میں ’’چین جاپان‘‘ کا تذکرہ بھلاتے ہوئے اعتراف فقط یہ کرنا ہے کہ بدھ کی صبح اخبارات دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ صفحہ اوّل پر خبر تھی کہ اوگرا نے حکومت کو سفارش کی ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں کم از کم پانچ روپے اضافہ کیا جائے۔

عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں کی قیمت کے ذکر سے آغازاس لئے کرنا پڑا کہ ’’میرٹ‘‘ پر اقتصادی امور طے کرنے کو عمران حکومت کی جانب سے مامور ہوئے ’’ٹیکنوکریٹس‘‘ ہم سے وعدہ کرتے رہے ہیں کہ وطن عزیز میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں عالمی منڈی میں موجودحقائق کو ایماندارانہ انداز میں Reflect کریں گی۔ مہنگا تیل درآمد کرنے کے بعداسے پاکستانی صارفین کو Subsidy کے ذریعے نسبتاََ سستے داموں فراہم نہیں کیا جاسکتا۔

قومی خزانہ گزشتہ دس برسوں میں اس ملک پر مسلط ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ نے خالی کردیا ہے۔ ریاستِ پاکستان کے پاس اب مہنگائی کو Subsidiesکے ذریعے قابو میں رکھنے کی سکت ہی باقی نہیں رہی۔ بجلی اور گیس کے صارفین کو ہر صورت وہ قیمت ادا کرنا ہوگی جو حکومت ان کے فی یونٹ خریداری پر صرف کرتی ہے۔ ماہرین اس عمل کو Cost Recoveryکہتے ہیں۔ IMFسے ہوئے حالیہ معاہدے کے ذریعے ہم اس عمل پر سختی سے کابند رہنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کی لہٰذا کوئی امید نہ باندھی جائے۔

تیل کی قیمت کے ضمن میں اگرچہ سینہ پھلا کر وعدہ ہوا کہ اگر عالمی منڈی میں اس کے نرخ کم ہوئے تو پاکستانی صارفین اسے شیئر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اوگرا نے تیل اور ڈیزل کی قیمت بڑھانے کے لئے جو سمری تیار کی ہے اس کا جو حصہ اخباروں میں چھپا ہے اس میں ان وجوہات کا ذکر نہیں ہوا جن کی بنا پر نرخ بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔

وجوہات سے لاعلم ہوتے ہوئے مجھ جیسا عام آدمی فقط عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے رحجان کو نگاہ میں رکھنے کو مجبور ہوا۔وہاں سے غیرمعمولی اضافے کی خبر نہیں آئی۔ کئی مہینوں سے بلکہ یہ نرخ ایک مناسب سطح پر جامد ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ سوال اٹھانا لہذا واجب تھا کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں اضافہ نہیں ہوا تو اوگرانے پٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت کم از کم پانچ روپے بڑھانے کی تجویز کیوں دی ہے۔

یہ سوال اٹھانے کے بعد مجھے سو فی صد یقین ہے کہ اقتصادی معاملات طے کرنے پر عمران حکومت کی جانب سے مامور ہوئے ٹیکنوکریٹس اس کا مؤثر ومدلل جواب دینے کی زحمت گوارہ نہیں کریں گے۔ دو ٹکے کے رپورٹر کی جانب سے اٹھائے سوالات کا جواب ہماری اشرافیہ کی جانب سے فراہم کرنا ضروری نہیں۔ ایک عام شہری ہوتے ہوئے مگر یہ خیال بھی ذہن میں اُمڈ آتا ہے کہ پاکستان ایک ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ ہے۔ موجودہ حکومت اسے ’’مدینہ کی ریاست‘‘ بنانے کی دعوے دار بھی ہے۔ ’’مدینے کی ریاست‘‘ میں حضرت عمرؓ سے کُرتے کی طوالت کی بابت کا سوال اٹھائے جاتے تھے۔ ان کے جواب فراہم ہوتے۔

’’جمہوری نظام‘‘ میں سنا ہے ’’عوام کے نمائندوں‘‘ پر مشتمل ایک پارلیمان ہوتی ہے۔ اس کا بنیادی فریضہ ہی حکومت کی آمدنی اور خرچ پر کڑی نگاہ رکھنا ہوتا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ ہماری ’’سب پہ بالادست‘‘ پارلیمان میں بھی یہ سوال اٹھایا جائے گا یا نہیں۔ مجھے ہرگز امید نہیں۔ جمعرات کی سہ پہر قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا ہے۔ میں بہت اعتماد سے یہ پیش گوئی کر سکتا ہوں کہ اس کے آغاز ہی میں اپوزیشن کی جانب سے نیب کی حراست یاجیلوں میں بند ہوئے اراکین اسمبلی کی ایوان میں موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے کے بارے میں ماتم کنائی ہوگی۔

یہ ماتم کنائی مراد سعید جیسے بلند آہنگ وزراء کو مجبور کردے گی کہ وہ مائیک سنبھالیں اور اپوزیشن کو یاد دلائیں کہ نیب کی حراست یا جیلوں میں بند ہوئے اراکین قومی اسمبلی ’’خدائی مخلوق‘‘ نہیں۔ ’’چور اور لٹیرے‘‘ ہیں۔ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا۔ ان کی کرپشن کے ثبوت دریافت ہوچکے ہیں۔ ان کی روشنی میں نیب کی حراست میں موجود اراکین اسمبلی کے لئے چند سوالات تیار ہوئے ہیں۔ ان کا جواب فراہم کریں۔ پروڈکشن آرڈر کی آڑ میں ان سوالات سے فرار کی راہ نہ ڈھونڈیں۔

جہاں تک جیل میں بند افراد کا سوال ہے تو ان میں سے نواز شریف جیسے لوگوں کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا۔ احتساب عدالت نے سزا سنائی۔ قانون سب کے لئے یکساں ہے۔جیلوں میں ان کے ساتھ خصوصی برتائو نہیں ہوسکتا۔ انہیں وہ تمام مشکلات بھگتنا ہوں گی جو عام مجرموں کا مقدرہوتی ہیں۔

وزارتی بنچوں کی جانب سے ہوئی تقریر کے جواب میں اپوزیشن کی صفوں سے کوئی رکن تقریر کرنے کی خاطر اٹھا تو تحریک انصاف کے کراچی سے منتخب ہوئے فہیم خان،عطاء اللہ اور عالمگیر مسحودجیسے اراکین اپنے شہر میں بارشوں کی بدولت آئی آفت کی دہائی کے لئے مائیک کے طلب گار ہوں گے۔ انہیں اجازت نہ ملی تو اپوزیشن کو للکارتے ہوئے ان کے بنچوں کی جانب جارحانہ انداز میں بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ سپیکر یا ڈپٹی سپیکر ہنگامہ آرائی کے تدارک کے لئے اجلاس کو دوسرے روز تک ملتوی کردیں گے۔

ہم بدنصیبوں کو ’’اپنے نمائندوں‘‘ کے توسط سے ہرگز اس سوال کا جواب نہیں ملے گا کہ اگر عالمی منڈی میں تیل کے نرخ نہیں بڑھے تو اوگرا نے کیوں پٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں کم از کم پانچ روپے کا اضافہ کرنے کی سمری حکومت کو بھجوا دی ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).