ڈاکٹر، بدلتے ہوئے قوانین اور اخلاقیات


اس طرح‌ ایک نظام کے تحت نسل پرستی کے ساتھ ان اقلیتوں ‌ کے خلاف نفرت پیدا کی گئی۔ حالانکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نشہ کرنے کا تناسب تمام نسلوں ‌ میں ‌ برابر ہے لیکن اس کے جرم میں ‌ جیلوں میں بھرتی ہوئے افراد زیادہ تر کالے یا ہسپانوی ہیں اور ان کو سزا بھی زیادہ ملتی ہے۔ یعنی ایک بے گھر کالا پانچ ڈالر کے لیے ماروانا بیچنے کے کیس میں ‌ 20 سال کے لیے اندر ہے۔ یہ نا انصافی ہے۔ اور فیڈرل حکومت کے پاس کیا شہادت ہے کہ ماروانا سے کسی کا نقصان ہوتا ہے۔ شراب پینے سے 10 فیصد لوگ اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ ماروانا کے کتنے لوگ عادی ہوتے ہیں؟ صفر فیصد!

اس کے علاوہ فارما انڈسٹری کو دیکھیں۔ درد کے علاج کی نشے کی دوائیں اتنی مہنگی بیچ بیچ کر انہوں نے بلین ڈالر کمائے۔ ان دواؤں سے کتنے لوگ مرچکے ہیں۔ یہاں اوکلاہوما میں ‌ بھی جانسن اینڈ جانسن پر کیس چل رہا ہے۔ ایک فٹ بال پلئر چوٹ لگنے کے بعد ڈاکٹر کو دکھانے گیا تو انہوں ‌ نے لورٹیب لکھ دی جس کے بعد اس کو نشے کی عادت ہوگئی اور ایک دن اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا۔ اس کے ماں باپ نے یہ کیس دائر کیا۔ اسی سال اوکلاہوما میں نئے قوانین بنے ہیں جن کی وجہ سے ان دواؤں کے استعمال پر مزید کنٹرول کیا جارہا ہے۔ آخر لوگ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ہم نے کیوں یہ غلط باتیں ‌ اپنے دماغ میں ‌ بٹھائی ہوئی ہیں۔ الی نوئے کی ریاست نے حال ہی میں ‌ ماروانا کو قانونی کردیا اور ان سب افراد کو جیل سے نکالنے پر کام شروع کیا جن کو اس جرم میں ‌ پکڑا گیا تھا۔

آپ کے سوال کا دوسرا حصہ دلچسپ ہے۔ اس کے بارے میں ‌ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ ایک بے انصاف قانون قانون ہوتا ہی نہیں ہے۔ بالکل تھامس اکویناس کی طرح۔

Lex iniusta non est lex
An unjust law is no law at all

ماروانا تو اب لیگل ہوا ہے لیکن میرے خیالات آہستہ آہستہ سالوں ‌ سے بدل رہے تھے۔ جب میں ‌ نے ڈاکٹر سنجے گپتا کی سی این این پر ڈاکیومینٹری دیکھی اور اس کے بعد کئی مریضوں ‌ نے مجھے بتایا کہ کس طرح‌ ماروانا سے ان کے درد، متلی، بے چینی اور نیند نہ آنے کی بیماریوں ‌ میں ‌ فائدہ ہوتا ہے۔ اب تو کافی تحقیق بھی سامنے آچکی ہے۔ نہ ماروانا زیادہ کھاکر کوئی مرتا ہے اور نہ ہی ان کو اس کی لت لگتی ہے۔

چوتھا سوال: تھیراپسٹ کے لیے اسے قبول کرنا کتنا آسان اور کتنا مشکل ہے؟ کیا اب اگر لوگ اس مسئلے پر تھیراپسٹ کے پاس آئیں گے تو کیا وہ اس کا علاج کرنے سے انکار کر دے گا کہ اس میں تو کوئی برائی نہیں ہے؟ مثلا آج ہائی وے پر حد رفتار سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ ایک شخص آپ کے پاس آتا ہے کہ اسے بار بار تیز رفتاری پر چالان ہوتا ہے۔ آپ اس کا علاج کرتے ہیں۔ کل حد رفتار ایک سو پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جاتی ہے۔ کوئی چالان نہیں ہو رہا مگر والدین اپنے نوجوان بچے کے ساتھ آتے ہیں کہ یہ ایک سو پینتالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے گاڑی چلاتا ہے اور ہمیں اس کے ساتھ ڈر لگتا ہے تو آپ بچے کے بجائے اب والدین کا علاج کریں گے کیونکہ پچھلے ہفتے حکومت نے قانون بدل دیا؟

جواب: میں ان بچوں ‌ کو یہی کہہ سکتی ہوں ‌ کہ قانون کے دائرے میں ‌ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے والدین کو خوفزدہ کریں۔ یہ والدین بھی اس بچے کے ساتھ سفر کرنے سے انکار کرسکتے ہیں۔

سوال: کیا قانونی تبدیلیوں سے نفسیاتی بیماریوں کی تعریف میں فرق پڑتا ہے؟
جواب: نہیں۔ قانون ہمیشہ معلومات کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔

سوال: اگر ہاں تو نفسیات دان کے لیے اس تبدیلی کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا کس قدر مشکل یا آسان ہے؟
جواب: جو پڑھتے رہتے ہیں اور وقت کے ساتھ چلتے ہیں وہ تبدیلی کو زیادہ آسانی سے قبول کرتے ہیں۔

سوال: کیا نفسیات دان کسی مسئلے کے علاج سے انکار کر سکتا ہے؟
جواب: کوئی بھی ڈاکٹر یا نفسیات دان کسی بھی مریض کو کسی بھی وجہ سے قبول کرنے سے یا ان کا علاج کرنے سے انکار کرسکتا ہے۔ جو مریض‌ تین مرتبہ اپوائنٹمنٹ بنا کر نہ آئیں تو ان کو تیس دن کا نیا ڈاکٹر تلاش کرنے کا نوٹس دے کر کلینک سے فائر کر دیا جاتا ہے۔

سوال: کیا علم نفسیات میں ایسے علاج ہیں جو کسی ایک جگہ تو تجویز کیے جاتے ہیں مگر دوسری جگہ نہیں؟

جواب: ہر بیماری کا علاج اس بات پر منحصر ہے کہ ہمارے سامنے کون سے راستے موجود ہیں۔ جب میں ‌ لاڑکانہ میں ‌ میڈیکل اسٹوڈنٹ تھی تو ایک نوجوان مریض‌ میڈیکل وارڈ میں ‌ داخل ہوا تھا جس کو ایپلاسٹک انیمیا تھا۔ اس کا علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ تھا جو ظاہر ہے کہ وہ نہیں کرواسکتے تھے۔ یہ مریض گھر واپس جاکر مر جاتے تھے۔ اگر یہی مریض فرض کریں ‌ جاپان میں ‌ ہوتا تو وہاں اس کا علاج کرسکتے تھے۔

امید ہے کہ یہ جواب آپ کی مدد کریں ‌ گے۔ مزید سوالات کا انتظار رہے گا۔
شکریہ

اسی بارے میں: ڈاکٹر خالد سہیل کے نام محبت بھرا سوالنامہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3