ذمہ دار کون


اگر بچہ بگڑ جائے، تعلیم سے بھاگ جائے یا چوری چکاری میں مبتلا ہو جائے تو کتنے سمجھدار انسان ایسے ہیں جو ماں باپ میں سے کسی ایک کو بگاڑ یا خرابی کا ذمہ دار قرار دے کر دوسرے کو بری الذمہ ٹھہرائیں گے؟ ہر ذی شعور یہی کہے گا کہ دونوں اس بگاڑ میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اچھی پرورش کی ذمہ داری دونوں کی تھی کسی ایک کی نہیں۔

لیکن ہمارے ملک میں آپ کو ایسے ہزاروں سمجھدار اورعقلمند ملیں گے جو ملک میں موجودہ بگاڑ کا ذمہ دار صرف اور صرف سیاستدانوں کو قرار دے کر 30 سال تک براہ راست حکمرانی کرنے والوں کا نام تک زبان پر لانا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ سیاستدان اس بگاڑ اور خرابی کے یقیناً مطلق ذمہ دار ہوتے اگر 73 سالوں میں ملک کی حکمرانی صرف اور صرف سیاستدانوں کے پاس رہی ہوتی اور ایک جمہوری تسلسل کے باوجود ملک معاشی اور انتظامی انتشار کا شکار رہتا۔ لیکن اگر سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ فوجی آمر بھی حکمرانی میں شراکت دار رہے ہوں تو کسی ایک کو ذمہ دار ٹھہرانا کوتاہ نظری کے علاوہ کچھ نہی۔

یہ حقیقت سے فرار ہے یا دانستہ چشم پوشی کہ ایسے دانا خواتین و حضرات لیاقت علی خان سے لے کر نواز شریف تک ہر سیاستدان کو کرپٹ، نا اہل اور مفاد پرست کہیں گے لیکن مجال ہے کہ ان کی زبان سے نکلے کہ ملک کی بربادی کا سنگ بنیاد پہلے مارشل لاء سے رکھا گیا۔ اس پر پختہ عمارت کی تعمیر ضیاء الحق نے شروع کی جس نے افغان جہاد میں کود کر ملک کو اسلحہ اور منشیات میں خود کفیل کیا۔ اسی عمارت کی تزئین و آرائش پرویز مشرف نے کی جس نے ایک بار پھر افغان وار میں حصہ لے کر ملک کو خود کش دھماکوں اور دہشت گردی جیسی لعنت سے نوازا۔

ضیاء الحق کے تاریک ترین دور میں عدلیہ کے ذریعے جہاں ملک کو ذوالفقار علی بھٹو جیسی عظیم عوامی قیادت سے محروم کیا گیا وہاں مشرف کے دور میں اسی ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم مشرف دور میں پروان یافتہ اسی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھی۔

مانا کہ سیاستدان کرپٹ رہے، نا اہل رہے، مفاد پرست رہے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا فوجی آمر ان برائیوں سے مبرا رہے؟ کیا 90 ہزار فوج کا سرینڈر نا اہلی کے زمرے میں نہی آییگا؟ کیا پرویز مشرف اور پرویز کیانی کی بیرون ملک جائیدادیں کرپشن کے بغیر بنی؟ وہ کون سا قانون تھا جس نے آئین شکنی پر آمروں کو تو معاف کیا لیکن جھوٹے مقدمات میں سیاستدان نہ صرف پابند سلاسل ٹھہرے؟

سیاستدانوں پر ملک دشمنی کے اور غداری کے الزامات لگتے رہے اور اگر مذاق نہ سمجھیں تو محترمہ فاطمہ جناح پر بھی غداری، ملک دشمنی اور انڈین ایجنٹ ہونے کے الزام لگے اور الزام لگانے والے کون تھے ذرا وقت ملے تو تاریخ پڑھ لیں۔ یہی الزام بینظیر بھٹو اور نواز شریف پر بھی لگے اور ان دونوں حضرات کو بھی انڈین ایجنٹ اور سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔

مرض کے مکمل علاج کے لئے مرض کی درست تشخیص ضروری ہے۔ صرف سیاستدانوں پر ملک کی بربادی کی مکمل ذمہ داری ڈال دینا درست تشخیص نہیں ہے اور اسی پر مصر رہنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم درست تشخیص کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔ درست تشخیص کے بغیر علاج کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ اگر آج ملکی حالات دگرگوں ہیں تو ذمہ دار سیاستدان اور فوجی حکمرانوں دونوں ہیں۔ کسی ایک کو بری الذمہ قرار دینا حقیقت سے نظریں چرانا ہے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو ملکی بربادی میں برابر کا شریک ایک تیسرا فریق بھی ہے جس نے نظریہ ضرورت کے کاندھے پر بندوق رکھ کر کبھی آئین کی پامالی پر دم سادھے رکھا اور کبھی قانون کو موم کی ناک بنا کر منتخب نمائندوں کو دار پر چڑھایا یا پابند سلاسل کیا۔

جو ہونا تھا ہوچکا اور اب لکیر پیٹنے سے کچھ بدلنے والا نہیں۔ لیکن آگے بڑھنے کے لئے غلطیوں کے ادراک کے بعد ان کا تدارک ضروری ہے۔ تاریخ سبق سیکھنے کے لئے ہوتی ہے دہرائے جانے کے لئے نہیں۔ لیکن موجودہ صورت حال دیکھ کر لگتا ہے کہ نہ تو ہمیں غلطیوں کا درست ادراک ہے اور نہ ہی ہم ان کے تدارک میں سنجیدہ۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تاریخ ہمارے لئے سیکھنے کا ذریعہ نہیں بلکہ بار بار دہرائے جانے والا کھیل ہے جو ہم کھیلتے رہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں ترقی سے کیا غرض۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).