اقتدار کی اخلاقیات


روسی کا ایک محاورہ ہے ”پیسے سے بو نہیں آتی“ مطلب یہ کہ پیسہ جس طور بھی کمایا جائے، اس میں سے بو نہیں آتی جس سے معلوم ہو پائے کہ مناسب ذرائع سے کمایا گیا ہے یا نامناسب ذرائع سے۔ جائز طور پر کمایا گیا یا ناجائز طور پر۔ محنت مزدوری سے حاصل کیا گیا یا اجرت کا قاتل بن کر مگر متمدن دنیا نے ایسے قوانین مدون کر لیے ہیں اور احتساب و توازن کا ایسا نظام قائم کر دیا ہے کہ بہت زیادہ دولت کے ذرائع سے متعلق کم از کم سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر قوانین مناسب، مضبوط اور بلا سقم ہوں تو تعزیر بھی عائد کی جا سکتی ہے۔ پھر بھی بہت سے معاملات پر سے پردہ اٹھایا جانا ممکن نہیں ہوتا اسی لیے دولت کی ہوس رکھنے اور روسی زبان کے محاورے پر یقین رکھنے والے دولت کمانے کے لیے ہر وہ کام کرتے ہیں جو نامناسب، ناجائز یا غیر قانونی ہوتے ہیں۔

یہی معاملہ اقتدار کے حصول اور اقتدارکو برقرار رکھنے کی کاوشوں اور تگ و دو کا ہے۔ اگر سیاسی نظام اور سیاسی عمل ایک خاص سطح پر پہنچ چکا ہو اور سیاست دانوں کو اقتدار میں لانے والے، خاص ادارے یا قوتیں نہیں، بلکہ عوام خاصے باشعور ہو چکے ہوں اور اقتدار کے ایوانوں میں احتساب و توازن کا معاملہ طے پا چکا ہو تو کشاکش اور مقابلے بھی صحت مند اور غیر اخلاقی سرگرمیوں سے پاک ہوتے ہیں۔ چونکہ انتخاب و عدم انتخاب میں غیر اخلاقی اعمال مفقود ہوتے ہیں اس لیے کسی بھی فریق کے حامیوں کو کسی کا بے جا دفاع نہیں کرنا پڑتا اور کسی دوسرے فریق کے حامیوں کو کسی کو مطعون نہیں ٹھہرانا پڑتا۔

البتہ اگر سیاسی نظام ڈھلمل ہو، کچھ اداروں اور اور کچھ قوتوں کا سیاست میں عمل دخل ہو، انتخابات کی بنیاد کمزور اور ناپائیدار ہو تو بلا ضرورت اور بلا وجہ کھینچ تان بھی ہوتی ہے۔ اس کھینچ تان میں زور زیادہ کرنے یا زور کم کرنے کی خاطر کھلاڑیوں کو توڑا بھی جاتا ہے۔ توڑنے کی خاطر بہکایا بھی جاتا ہے دھمکایا بھی جاتا ہے، خریدا بھی جاتا ہے اور ہٹایا بھی جاتا ہے۔ جو فریق اپنی ایسی کارکردگیوں کی بنیاد پر کامیاب ہو جائے اس کے حامی جمہوری عمل کا راگ الاپتے نہیں تھکتے اور انہیں میں سے کچھ بڑبولے کھل کر کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اتنے نہیں بلکہ اس سے دوچار زیادہ خریدے ہیں۔ اس کے برعکس جو فریق ایسی ہی سرگرمیاں زیادہ زور شور سے کرنے میں ناکام ہوتا ہے، اس کے حامی جمہوریت کی پامالی اور مناسب افعال سے گریز کرنے کا الزام لگا کے دوسرے کی بھد اڑاتے ہیں۔

کچھ ملکوں میں عشرے بیت جاتے ہیں مگر جمہوریت کی کل درست نہیں ہونے دی جاتی مگر ایسا کبھی شاید ہی ہوا ہو کہ صدی بیت جائے اور معاملات اور طرح کے نہ ہوں۔ پاکستان کو بنے بہتر برس ہو چکے ہیں اگر ٹوٹتی پھوٹتی، آزاد اور اغوا کی جاتی جمہوریت کی عمر توڑ توڑ کے مجموعی طور پر آدھی لگا لی جائے تو بھی اب تک جو کچھ ہو رہا ہے اس پر پشیمان ہونے کی بجائے پریشان ہونے کا عہد جاری ہے۔ اس لیے کسی بھی ایسے عمل پر جو پہلے کیے جانے والے اعمال سے ملتا جلتا ہو، اگر اعتراض کیا جائے تو وہ بیکار ہوگا۔

روس کے ایک لیجنڈ صحافی ہیں ولادیمیر پوزنر جو ٹی وی ٹاک شوز کے اکیڈیمیشن ہیں، ان سے جب سوال کیا گیا کہ روس میں حقیقی تبدیلی آنا کب ممکن ہو سکے گا تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ جب تک وہ نسل تمام نہیں ہو جاتی جو سوویت یونین کے زمانے کی سوچ کی باقیات لیے ہوئے ہے اور وہ نسل برسراقتدار نہیں آ جاتی جسے سوویت یونین کے بارے میں یکسر علم نہ ہو تب تک کوئی انتہائی اہم اور حقیقی تبدیلی نہیں آ سکتی۔

پاکستان میں جب تک سرکاری مطالعہ پاکستان پر یقین کرنے والے، یسیم حجازی کے ناول پڑھ کے دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھنے والے، امت اور تکبیر جیسے اخبارات کی صحافت کو ہی صحافت سمجھنے والے، بلوچستان، فاٹا، کراچی کے مسلمانوں سے زیادہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے مسلمانوں پر رحم کھانے والے، مشرف، ضیاء، حمید گل، شجاع پاشا ”حکیم اللہ محسود، سراج الحق، اسامہ بن لادن، حافظ سعید، ممتاز قادری وغیرہ میں دلچسپی رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور اپنے ہی جیسوں کو اقتدار میں لا کے ان کے تمام اعمال کے جواز ڈھونڈتے ہیں تب تک پاکستان میں جمہوری عمل میں ثبات کی خواہش رکھنا عبث ہے۔ اگر وہ لوگ جو بیان کردہ لوگوں سے یکسر مختلف ہوں، کبھی اقتدار میں آنا شروع بھی ہو جائیں اس کے بعد بھی کم سے کم پون صدی درکار ہوگی کہ سیاست کے درست خطوط مدون ہوں اور ان خطوط پہ چلنا تو تب ممکن ہو سکے گا جب معاشرہ مکمل طور پر صنعتی، متمدن اور خوشحال معاشرہ بن جائے گا تو بھیا“ ہنوز دلی خیلی دور است ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).