بوٹی کے بغیر بریانی کی پلیٹ


چند برس پہلے شعیب بن عزیز نے کہا تھا۔

 عشاق خالی ہاتھ ہی لندن سے لوٹ آئے  

زار ا پہ سیل تھی نہ سپنسر پہ سیل تھی

پچھلے دنوں شعیب سنگا پور اپنی بیٹی کے ہاں پہنچے۔ وہاں سے یہ کشادہ دست خالی ہاتھ نہ لوٹے۔ ہاں خالی جیب ضرور لوٹے ہونگے کہ وہ صرف کالم نگار کے بیٹے بیرسٹر وقاص فاروق کے لئے ہی زارا کی ایک بڑھیا جیکٹ لے آئے۔ پھر لاہور اس شاعر کے دوستوں سے بھرا پڑا ہے۔ کالم نگار ہارون الرشید انہیں شاعر لاہور لکھتے ہیں تو لاہور اور شعیب دونوں سے انصاف برتتے ہیں۔ لاہور سے انہیں کتنی محبت ہے، اس کا اندازہ لگائیں کہ وہ اللہ کے گھر بھی صرف لاہور کیلئے دعا گو رہے۔

 میرے لاہور پر بھی اک نظر کر  

تیرا مکہ رہے آباد مولا

 کالم نگار 70ء کے شروع میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے لاہور پہنچا۔ اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ لیکن کالم نگار کو سبق بھی یاد نہ ہوا اور جلد چھٹی بھی نہ مل سکی۔ اس زمانہ میں قانون کے طالب علموں کی تین کی بجائے دو برسوں میں کالج سے جان چھوٹ جایا کرتی تھی۔ لیکن کالم نگار سے ایل ایل بی دو برسوں میں مکمل نہ ہوا۔ وہ علامہ اقبالؒ کی شاعری سے یہی کچھ سیکھ سکا۔

 نالہ ہے بلبل شوریدہ تیرا خام ابھی  

اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

 یہ انسانی زندگی کے وہ سہانے دن تھے جب انسان ابھی چائے میں السر اور سگریٹ میں کینسر دریافت نہ کر پایا تھا۔ لاہور میں چائے خانے بہت تھے اور ہر دم آباد رہتے۔ وہ زمانہ کچھ اور طرح کا تھا۔ اس زمانہ کے لوگ اس زمانہ کے ساتھ ہی رخصت ہو گئے

 تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غم سے فرصت تھی

سب پوچھیں تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا

جب لاہور کا مال روڈ ان قہوہ خانوں اور چھتنار درختوں سے خالی ہوا تو پھر یہ لاہور، لاہور نہ رہا۔ بہت عجیب اور کوفے سے قریب ہو گیا۔ جس روز مال روڈ کا شیزان ریستوران جلایا گیا، اس روز لاہور بیچارہ خود بھی رو پڑا۔ کالم نگار کی شعیب بن عزیز سے پہلی ملاقات اسی شیزان میں ہوئی تھی۔ یہ 1990ء کے ابتدائی مہینوں کی بات ہے جب شیزان کی بالائی منزل میں والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور نے کالم نگار کا تعارف ان گھنی مونچھوں اور تیز شریر آنکھوں والے شعیب بن عزیز سے کروایا۔ اب وہ کون ہے جس نے

اب اداس پھرتے ہو گرمیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

والا شعر پڑھا یا سنا نہیں؟ ان کے اس شعر کی اتنی دھوم تھی کہ کبھی کبھی تو ایسا بھی گمان گزرتا کہ جیسے انہوں نے صرف یہی ایک اکیلا شعر کہا ہو۔ کالم نگار نے چھوٹتے ہی پوچھا :”آپ اپنا دوسرا شعر کب کہہ رہے ہیں ؟“ شعیب نے اپنے اس شعر سے اردو زبان کو اک نیا محاورہ بخشا ہے۔ اب ہمارے سیاستدان بھی اپنی بے ڈھنگی سیاست کے جواز میں کہتے نہیں تھکتے کہ ’ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ‘۔ 1970ء میں پاکستان کے عوام نے بھٹو کی زبان میں وطن کی زمین میں سے اپنا حصہ مانگا تھا۔ روٹی، کپڑا، مکان کے مطالبے پر انہیں بتایا گیا کہ یہ بھٹو نہیں، تمہیں اللہ دے گا۔ ریاست درمیان سے غائب ہو گئی۔ برسوں بعد اک سر پھرے نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

 رزق پتھر میں بھیجنے والے  

میرے بچوں کی فیس رہتی ہے

 وہ تو اچھا ہوا کہ بات کسی ملا مولوی تک نہیں پہنچی، ورنہ وہ جواب بھجواتا۔ اول اسکول فیس رزق میں شمار نہیں ہوتی۔ دوم، دینی مدارس کے دروازے کھلے ہیں۔ یہاں فیس بھی نہیں اور دین و دنیا دونوں سنور جاتے ہیں۔ پھر 1985ء کے غیر جماعتی انتخاب میں وہ لوگ بھی امیدوار بن بیٹھے، جن سے شرفاء دن کی روشنی میں ملنے جلنے سے گریز کیا کرتے تھے۔ پھر اسی سے نئی طرز کی سیاست ایجاد کی گئی۔ ”یہ کھاتا بھی ہے۔ لگاتا بھی ہے۔ کھلاتا بھی ہے۔

اس دسترخوان کے خوشہ چیں اب تک لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ ”نااہلیت۔ نا اہلیت۔ نا اہلیت“۔ اب تو وہ بڑے دھڑلے سے یوں بھی لکھ رہے ہیں۔ ”سیاسی کرپشن ایک مسئلہ تو ہے لیکن یہ ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں کرپشن برابر ہے۔ لیکن یہ دونوں ملک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں “۔ کالم نگار سوچ رہا ہے، بے شک شاطر وکیل کسی کمزور مقدمہ میں جان ڈال سکتے ہیں۔ اب کراچی سے سیاسی کرپشن کا ایک واقعہ اس سوال کے ساتھ، کیا یہ بھی کرپشن ہے؟

کراچی کی بلدیہ ٹاﺅن فیکٹری کو بھتہ نہ دینے پر 260زندہ مزدوروں سمیت جلا دیا گیا۔ اس فیکٹری کے مال کی خریدار، جرمن کی کمپنیKIK  تھی۔ مہذب ملکوں کا یہ دستور ہے کہ کسی فیکٹری کے مال کی خریدار کمپنی اس فیکٹری کے مزدوروں کی جان کے تحفظ کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے۔ KIK نے اس حادثہ کے نتیجہ میں نقصان کے ازالہ کیلئے 66 کروڑ روپے حکومت کو ادا کئے۔ اس طرح ہر متاثرہ خاندان کے حصے میں اکیس لاکھ روپے آتے ہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدان ”یورپی خیرات“ بھی کھانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یہ جالب کی شاعری کے ساتھ بہت مزہ دیتی ہے۔ حکومت سندھ KIK سے 66 کروڑ روپے وصول کر کے متاثرہ خاندانوں کو صرف 6 ہزار روپیہ مہینہ فی خاندان ادا کر رہی ہے۔ جنرل ایوب خاں نے قوم کو بتایا تھا کہ جمہوریت صرف ٹھنڈے موسم والے ملکوں کیلئے مفید ہے۔ اپنے اس فرمان میں وہ بھرا پیٹ بھی شامل کر لیتے تو اچھا تھا۔ بھوکے پیٹ تو بریانی کی پلیٹ کے عوض اپنا ووٹ بیچنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی بوٹی نہیں ہوتی۔ ہم نے ساری بوٹیاں سیاستدانوں اور مقتدر قوتوں کیلئے بچا رکھی ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).