آؤ کہ مشت زنی پر اتفاق کر لیں


قریب دو ماہ قبل اک نوجوان کی ویڈیو انٹر نیٹ کے توسط سے دیکھی جس میں وہ جوان کا بچہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر مشت زنی میں مصروف ہے۔ ویڈیو تھوڑی مزاحیہ بھی لگی اور معاشرے میں موجود گھٹن کے اس حد تک بڑھ جانے کا افسوس بھی ہوا۔ اگر اک طرف دیکھا جائے تو یہ انسان کو انسان نہ رہنے دینے کا وہ جبر ہے جو ٹوٹنا چاہتا ہے اور شلوار اتارے چوک میں آن کھڑا ہوا ہے لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ صریح فحاشی بھی ہے کیونکہ وہ نوجوان صرف چوک میں مشت زنی کرنے کے لئے ہی موجود نہ ہوتا تھا بلکہ جس راستے پر کھڑا ہوکر وہ یہ کار لذت انجام دیتا تھا وہ اک گرلز کالج کا راستہ ہے اور نوجوان چھٹی کے وقت باقاعدہ لڑکیوں کو دیکھ کر اور ان کو باور کروا کر یہ عمل کرتا تھا۔ اب ایسے میں ظاہر ہے کئی خواتین جانے انجانے میں یہ معاملہ دیکھتی ہوں گی، کچھ لڑکیاں بالیاں دل ہی دل میں محظوظ بھی ہوتی ہوں گی لیکن فطری شرم کی وجہ سے صرف سہیلی کے کان میں کہہ کر کہ۔ وہ دیکھو کنجر کیا کر رہا ہے۔ شرماتی ہوئی نکل جاتی ہوں گی۔

وہاں سے فیملیز کا بھی گزر ہوتا ہوگا، کبھی کوئی ماں بیٹی گزر رہی ہے، کبھی کوئی باپ بیٹی گزر رہے ہیں، کبھی بہن بھائی گزر رہے ہیں تو کبھی دو بہنوں کا گزر ہو رہا ہے، ایسی صورت میں ظاہر ہے ان فیملیوں کی نظر اس عمل پر پڑتی ہوگی تو وہ شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہوں گی۔ اگلے دن باپ اپنی بیٹی کو کالج چھوڑنے سے کتراتا ہوگا، ماں کہتی ہو گی بیٹی یہ راستہ بدل لیتے ہیں، بہن اپنی بہن سے شرمندہ ہوتی ہوگی تو بھائی سوچتا ہوگا کہ اس شخص کا منہ نوچ لیا جائے۔ لیکن ایسا کرنے پر ٹھیک ٹھاک تماشہ لگنے کے بھرپور چانسز دیکھ کر خاموش رہتا ہوا انجان بننے کی اداکاری میں نکل جاتا ہوگا۔

اسی موضوع پر اک مزاحیہ پوسٹ فیس بک پر چھاپی تو اک خدائی فوجدار بھائی نے اعتراض اٹھایا۔ ۔ ”میں پوری پوسٹ میں نکاح آسان کرنے کی تلقین ڈھونڈ رہا تھا مگر آپ نے صرف بے غیرتی ہی پھیلانی ہوتی ہے“۔ اک بار تو جسم اور جاں سلگ اٹھے۔ یہ بات اک ایسے طبقے کا انسان کر رہا تھا جن کے ہاں اکثریت دن میں سارا دن استغفار کرتی ہے جبکہ رات کو پورن دیکھ کر سوتی ہے، ایسے افراد کی اکثریت جب مجھ سے انباکس میں سوالات کرتی ہے تو مشت زنی کے فائدے اور نقصان پوچھتی ہے، اپنی کزن کو پھنسانے کے طریقے پوچھے جاتے ہیں، کسی ایسے ہوٹل کا پتہ پوچھا جاتا ہے کہ جس میں چھاپہ نہ پڑتا ہو۔

معاملہ اگر صرف یہیں تک محدود رہتا تو کوئی بات بھی تھی، مجھ سے سگی بہن کے ساتھ جسمانی تعلقات استوار کرنے کی تدابیر مانگی جاتی ہیں، بھانجا اپنی خالہ کو پیلنے کے مشورے لیتا پایا جاتا ہے تو پھوپھیاں اپنے بھتیجوں کو پھنسا کر پہلے خود بعد میں اپنی چار سہیلوں کے ساتھ مستی کرنے کے پلان ڈسکس کر رہی ہوتی ہیں۔ جہاں لڑکی اپنی پسند کی شادی کی بات کر لے تو اس کا باپ اسے طوائف مانتے ہوئے اپنا حصہ طلب کرنے لگتا ہے، جہاں بھائی کسی لڑکی کا ریپ کرے تو بدلے میں پورا خاندان اپنے گھر کی لڑکی اور اسی بھائی کی بہن کو خاندان کے سو افراد کی موجودگی میں متاثرہ لڑکی کے بھائی کے ساتھ ایک کمرے میں بھیجتے ہیں کہ آپ اپنا بدلے لے لیں اور پرچہ درج مت کروائیں۔ وہاں میں کیسے اور کس منہ سے نکاح آسان کرنے کی تدابیر لکھوں؟

میں اس معاشرے کا باسی ہوں کہ جہاں مذہبیت کوٹ کوٹ کر بھری تو ہے مگر۔ ! مذہب کی انتخابی نشان عمارتوں میں آئے روز کم سن بچوں کا ریپ ہونے کی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں، جہاں مذہبی ٹھیکیدار بچیوں کا ریپ کر کے ان کو بلیک میل کرتے پائے جاتے ہیں، جہاں نعتیں پڑھنے والے کم سن بچیوں کا ریپ کر کے ان کو قتل کرنے کے بعد کوڑے کے ڈھیر میں پھینکتے نظر آتے ہیں، جہاں گھٹن اس قدر زیادہ ہے کہ انسان تو انسان جانور بھی اس جنسی گھٹن کا شکار ہونے پر مجبور ہیں۔ گاؤں دیہات میں یہ تو محاورہ مشہور ہے۔ گدھی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ یہ وہ غیرت مند لوگ ہیں جن کے لئے عزت جان سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے لیکن ان کی پہلی معشوقہ اور اس معاملے میں استاد گدھی کہلاتی ہے اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ گدھی پورے گاؤں کی مشترکہ معشوقہ ہوتی ہے، بس ایک وقت میں ایک ہی شاگرد یا عاشق مستفید ہو تاکہ عزت بنی رہے۔

میں اس معاشرے میں پیدا ہوا ہوں جہاں اپنے گھر کی قبول صورت اور ان پڑھ لڑکی کے لئے ڈاکٹر، انجینیئر، پائلٹ یا کاروباری شخص درکار ہوتا ہے۔ لڑکے کا اپنا ذاتی گھر ہو، گاڑی ہو، اچھا خاصا کماتا ہو اور خوبصورت بھی ہو تب کہیں جاکر ہم اپنے گھر کی بہن بیٹی کا رشتہ کرنے کا سوچتے ہیں۔ مرد ہونے کی صورت میں ہمیں بہت ہی حسین، کم عمر اور ڈاکٹر لڑکی کا رشتہ درکار ہوتا ہے جو گھر میں بیٹھ کر گول روٹی بنا سکے، جسے دس پندرہ بچوں کے پیمپر باندھنے، ان کو پال پوس کر بڑا کرنے، گھر کے دس افراد کے کپڑے دھونے اور صفائی کرنے پر مکمل عبور حاصل ہو۔ کنگلے اور مڈل پاس شخص کو دولت مند، پڑھی لکھی اور گونگی لڑکی درکار ہے تو قبول صورت میٹرک پاس لڑکی کو ویل سیٹلڈ لڑکا۔

ہم جہیز کے نام پر لاکھوں روپے طلب کر لیتے ہیں، لاکھوں روپے شادی کے کھانے اور دیگر اخراجات میں چاہیے ہوتے ہیں لیکن ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ شادی کو آسان کیا جائے۔ دوسری طرف انتہائی وجیہہ لڑکا درکار ہے، پڑھا لکھا ہو، اپنے باقی سات بہن بھائیوں کو مار کر اکلوتا ہونے کا ہنر جانتا ہو، نندیں اگر ہوں بھی تو مار دی جائیں کیونکہ ہمیں بہت مختصر فیملی ہی درکار ہے۔ حق مہر اتنا زیادہ لکھوایا جاتا ہے کہ اگر زوجین کی آپس میں نہیں بن پا رہی تو جان چھوٹنے کا کوئی راستہ نہ رہ پائے۔ اب ایسی صورت میں بد مزگی، پھڈے اور معاملات قتل تک چلے جاتے ہیں لیکن کیا کریں ہم بہت مذہبی اور غیرت مند ہیں، معاشرے میں ہو رہے کسی انوکھے واقعہ پر کوئی گستاخ لکھے بھی تو کیوں؟ کیا لکھاریوں کو شادی آسان کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے موت پڑتی ہے؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2