آؤ کہ مشت زنی پر اتفاق کر لیں


سیکس ایک فطری طلب ہے، ہر انسان کا پیدائشی حق اور اک بھوک ہے، بالکل ویسی ہی بھوک جیسے کہ ہم روٹی کھاتے ہیں، ہر صحت مند انسان کو سیکس درکار ہے اور یہ صحت مند رہنے کا فارمولا بھی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں جہیز، امیر لڑکے اور خوبصورتی کے چکر میں لڑکیاں چالیس سال تک گھر میں بیٹھی رہتی ہیں، لڑکے مشت زنی، لونڈے بازی، جانور بازی اور جسمانی خرید و فروخت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں جبکہ لڑکیاں انگلیوں اور سبزیوں پر لگی پڑی ہیں۔ لڑکے تو پھر بھی قدرے آزاد ہیں مگر لڑکیوں کا تو شادی کی رات باقاعدہ میٹر چیک کیا جاتا ہے کہ کتنا چلی ہے۔ اب ایسے میں معاشرے کے نوجوان مشت زنی اور انگلی بازی نہ کریں تو نفل پڑھیں؟

لڑکی کی شادی کی بات ہو تو اسے اس کی پسند کی شادی نہیں کرنے دی جاتی، گھر کا مالک باپ یا بھائی ہوتا ہے اور وہ اپنی پسند کا لڑکا ہی منتخب کرتا ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اس بندے نے زندگی تو ان کی بیٹی یا بہن کے ساتھ گزارنی ہے لیکن اس کی پرفارمنس گھر کے مرد چیک کریں گے، وہ مرد ہے بھی یا نہیں، جیسا ہم چاہتے ہیں ویسے پرفارم کر سکتا ہے یا نہیں یہ سب بھی لڑکی کے بجائے گھر کے مالک مرد طے کرتے ہیں۔

بھائی اگر اتنی ہی ملکیت پسندی ہے تو آپ خود آپریشن کروا کر اس لڑکے کے ساتھ سیٹ کیوں نہیں ہو جاتے؟ یا ایسی حرکتیں بچپن میں ہوئی زیادتی کی وجہ سے ہیں؟ ، یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے مرد اپنے اندر موجود عورتانہ تاروں کی وجہ سے بہترین مرد ڈھونڈنے پر مجبور ہوں مگر اس سے استفادہ حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے بہن یا بیٹی کو اس کے کھاتے میں ڈال دیتے ہوں، شادی لڑکی کی، رہنا اس نے ہے، تمام معاملات، اچھائی اور برائی اس کے ساتھ ہونی ہے، سیکس اس نے کرنا ہے، بچے اس نے پیدا کرنے ہیں تسیں مامے لگدے او؟

انڈیا ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا، وہاں آج کپلز لوونگ میں رہ رہے ہیں، غیر شادی شدہ جوڑے کچھ عرصہ ساتھ رہ کر اک دوسرے کی عادات دیکھتے ہیں، اک دوسرے کا صبر دیکھتے ہیں، شادی کے بارے میں ثابت قدمی دیکھتے ہیں اور اگر کوئی پارٹنر یہ سمجھتا ہے کہ آگے چل کر ہم اک مثالی جوڑا نہیں بن سکتے تو وہ ہنسی خوشی الگ ہو جاتے ہیں۔ وہاں ہر موضوع پر کھل کر لکھا جاتا ہے، شارٹ فلمیں بنتی ہیں، ایسے موضوعات کو بھی زیر قلم اور فلم کی ریل پر لایا جاتا ہے جو ہمارے ہاں کفر اور شدید غداری کا باعث کہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کم رفتار میں ہی سہی انڈیا ہم سے بہت آگے جا چکا ہے۔

مشت زنی بھی اب کہاں محفوظ رہی ہے، لڑکی ہو یا پھر لڑکا، دس منٹ سے زیادہ باتھ روم میں لگا ڈالے تو ماں یا باپ پوچھ لیتے ہیں کہ۔ ”اتنی دیر کیوں لگی“؟ اپنے ہی کمرے میں کنڈی لگا کر سونے کی کوشش کی جائے تو پوچھ لیا جاتا ہے کہ۔ ”ایسا کر کیا رہے ہو جو کنڈی لگانے کی ضرورت پیش آئی“؟ دوسری طرف ہمارے معاشرے کی دیواریں مردانہ کمزوری اور بانجھ پن کی آماجگاہ ہیں، بچپن سے جوانی تک میں کی گئی مشت زنی سے کچھ تو جوان پہلے ہی خوفزدہ ہوتے ہیں اور باقی کسر یہ دیواریں اور حکیم پوری کر دیتے ہیں کہ۔ ”اب تو میاں آپ نامرد ہو چکے ہو، یہ کشتہ نہیں کھاؤ گے تو شادی کو بھول جاو، یوں سمجھو کہ شادی تو آپ کرو گے لیکن انجوائے پورا محلہ کرے گا“۔

براہ کرم معاشرے پر تھوڑے رحم کی کوشش کی جانی چاہے۔ اگر کوئی رومانوی کپل کسی پارک یا تفریحی مقام پر جاتا ہے تو پولیس والے ان کا نکاح نامہ طلب کرتے ہیں جبکہ یہی پولیس والے کپل کو پکڑنے پر سب سے پہلے خود لڑکی پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اگر کوئی تنگ آیا جوڑا کسی ہوٹل میں پناہ لیتا ہے تو وہاں چھاپے پڑنے لگتے ہیں، لڑکی کا استحصال کیا جاتا ہے، ان کی ویڈیوز بنا کر ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے، ذاتی پسند، نا پسند، کھانا پینا، سونا، مذہب اور سیکس انسان کے انتہائی ذاتی معاملات ہیں جن کو ٹچ کرنا، اور اس مد میں ہراس کرنا جرم ہونا چاہیے۔

بھائی اور باپ نے بھلے محلے کی کوئی آنٹی اور علاقے کی کوئی گدھی نہ چھوڑی ہو لیکن ان کو اپنے گھر کی خواتین پر مکمل کنٹرول درکار ہے جبکہ حقیقت میں بالکل اس کے الٹ ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کے ساتھ اگر کسی کی بہن بیٹی سیٹ ہے تو بھائی آپ کی بھی کسی کے ساتھ سیٹ ہی ہے، یہ ساری لڑکیاں جو آپ معشوقہ بنائے گھومتے ہو یہ مریخ سے نہیں آتیں، بس آپ ساتھ والے محلے جاتے ہو تو تب ہی ساتھ کے محلے والے آپ کے محلے آئے ہوتے ہیں۔ اتنی پابندیاں، جبر، گھٹن، خوف اور شدت طلب کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں نفسیاتی مریض بنتے ہوئے اگر سڑکوں پر نہ نکلیں تو کیا کسی باغ میں برقع اوڑھ کر اکیلے بیٹھے امب چوپیں؟ کسی چوک میں یوں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر یہ حرکت کرنا بالکل غلط اور گھٹیا حرکت ہے لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ان وجوہات کو بھی زیر بحث لانا اور ان پر سوچنا ہوگا۔ کچھ اور نہیں تو میاں کم سے کم مشت زنی کے آداب ہی پر اتفاق کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2