فردوس جمال کی یہ ہمت!


فردوس جمال نے ایک مارننگ شو میں مائرہ خان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا جس سے بہت سے لوگ غیر متفق نظر آئے۔ خاص طور پر پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے لوگ کھل کر مائرہ کی حمایت میں بولے اور فردوس صاحب کو خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ فردوس صاحب پر کی گئی تنقید کا شور سینٹ الیکشن اور پیٹرول بم میں کہیں کھو ہی رہا تھا کہ مومنہ درید کے ایک اعلان نے اس مسئلے کو پھر سے ابھار دیا۔ مومنہ نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ شرمندہ ہیں کہ فردوس جمال جیسے لوگ اس انڈسٹری کا حصہ ہیں اور ان کے مائرہ پر دیے گئے کمنٹ غیر مناسب ہیں اور وہ مخصوص مردانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔

ویسے تو میں شاید اس موضوع پر نہ لکھتی مگر مومنہ کا بیان پڑھتے ہی ان ڈراموں کی ایک فہرست میرے سامنے آگئی جو ان کے چینل پر چلائے گئے ہیں اور جو دراصل مسئلے کا حصہ یا ”part of the problem“ ہیں۔ چونکہ بات مائرہ خان کی ہو رہی ہے تو ہمسفر کو کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ ہمسفر کی خرد اس معاشرے کا وہ سچ ہے جسے ہم فردوس جمال کے بیان کے سر منڈھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خرد ایک ایسا کردار ہے جسے ایک مثالی عورت بنا کر پیش کیا گیا۔

اس نے مار کھائی، اس کے کردار پر شک کیا گیا، شوہر نے مڑ کر نہیں پوچھا کہ زندہ ہے یا مر گئی، مگر آفرین نے اس پاک عورت پر جس نے چوں تک نہیں کی۔ بلکہ اس نے خود شوہر کو یقین دلوایا کہ وہ ایک پاک دامن عورت ہے، کیونکہ ظاہر ی بات ہے کہ شوہر کا حق ہے کہ وہ آپ کے کردار کو لمحوں میں داغدار کر دے، اور ایک اچھی عورت کی حیثیت سے آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ طوطے کی طرح یہی بات رٹتی رہیں کہ اشعر یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اشعر آپ میرا یقین کریں میں بے قصور ہوں۔ اور پھر کل وہی اشعر ہے وہی آپ۔

مومنہ درید کے ٹی چینل پرچلنے والے زیادہ تر ڈرامے اسی نو عیت کے ہیں جس میں اچھی عورت نہایت مظلوم اور معصوم ہے۔ وہ اپنے لیے لڑنے کی بجائے ایک مرد کا سہارا تلاش کرتی ہے اور بری عورت اسی مرد کو اس سے چھیننے میں لگی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کرداروں کے کپڑے بھی ایسے ہوتے ہین جو اس معاشرتی سوچ کے غماز ہوتے ہیں جس کو آج آپ برا بھلا کہہ رہی ہیں۔

ہمسفر کی خرد چونکہ ایک پاکبازلڑکی ہے اس لیے وہ ہر وقت دوپٹہ اوڑھے رکھتی ہے اور اگر دوپٹہ اترا بھی تو شوہر کی مرضی سے۔ اسی ڈرامے کا ایک کردار سارہ ہے جو کہ بری لڑکی ہے اوراشعر کو خرد سے چھیننے کی کوشش کرتی ہے اوراسی وجہ سے وہ زیادہ تر جینز شرٹ میں ملبوس نظر آتی ہے۔ اگر غلطی سے محترمہ مومنہ کے پروڈیوس کیے ہوئے ڈرامے میں کوئی مضبوط خاتون نظر آتی ہیں تو وہ بھی زیادہ تر ”social conformist“ ”stereotypical“ حلیوں میں نظر آئے گی۔ جیسا کہ ”زندگی گلزار ہے“ کی ہیروئن کشف۔ بظاہر تو اس کو ایک ”protagonist“ کے طور پر دکھایا جاتا ہے مگر پھر بھی وہ ہیرو زارون کو صرف اس لیے اچھی لگتی ہے کیونکہ وہ اس کی کلاس کی لڑکیوں سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ اور یہاں مختلف سے مراد وہ لڑکی ہے جو جینز شرٹ نہیں پہنتی، دوپٹہ اوڑھے رکھتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح محترمہ مومنہ درید کا پروڈیوس کیا ہوا ڈرامہ ”دل مضطر“ ہے جوکہ خاصا مقبول ہوا۔ اور مقبول کیوں نہ ہوتا، اس میں ہماری پیاری اور معصوم ہیروئن صلہ شوہر کی بے وفائی، مار دھاڑ اور کردار کشی کے باوجود انہیں معاف فرما کر نہ صرف اپنے آپ کو ایک ہیروئن ثابت کرتی ہیں بلکہ عوام کے دلوں میں بھی گھر کر جاتی ہیں۔ اور دیکھیں حامد ہیروئن اور عام لڑکی میں فرق بھی یہی ہوتا ہے ؛ عام لڑکی کو آج دو تھپڑ لگائیں کل وہ آپ کی شکل نہیں دیکھے گی، ہیروئن کو آپ بار بار تھپڑ لگائیں، برا بھلا کہیں پر نہ تو وہ چوں کرے گی اور نہ ہی آپ کو چھوڑے گی۔

جیسے اندھے کو دو آنکھیں چاہیے ایسے ہی ہمارے فرسودہ معاشرتی نظام کو ایسے ڈراموں کی ضرورت جو اس کے بھیانک چہرے پر میک اپ کی لیپا پوتی کرکے اسے خوبصورت دکھانے کی کوشش کر تے ہیں۔ لہذا جب ایسے معاشرے میں محسن عباس حیدر جیسے شخص کی بیوی جب اپنی تکلیف کا اظہار کرتی ہے تو ایسے ہی نہیں لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے۔ اس کے پیچھے ایسے معاشرتی رویے اورسوچ کارفرما ہوتی ہے جس کے پنپنے میں ہمارے ڈرامے کلیدی کردارادا کرتے ہیں۔

رہی بات فردوس جمال کے بیان کی تو انڈسٹری کے ایک سینئر آرٹسٹ کی حیثیت سے ان کی اپنی ایک رائے ہے جس کا انہوں نے اظہار کیا۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو مائرہ خان کی ایکٹنگ پسند ہے اور بہت سوں کو نہیں ہو گی۔ ذاتی طور پر میں بھی یہ سمجھتی ہوں کہ مائرہ بہت اوور ریٹڈ اداکارہ ہیں۔ ان کی صلاحیتوں میں مزید نکھار کی بہت گنجائش ہے۔ ویسے اگر ہم پڑوس ملک جا کر فلم کرنے والے کو سپر سٹار مانتے ہیں تو وہاں تو کترینہ کیف بھی اداکارہ کہلائی جاتی ہیں، اب کترینہ کا اداکاری سے کتنا تعلق ہے اس سے ہم بخوبی واقف ہیں۔

البتہ فردوس صاحب کو عمر والی بات میں محتاط انداز اختیار کرنا چاہیے تھا۔ بات ان کی بالکل ٹھیک ہے، یہی اس ظالم انڈسٹری کا اصول ہے کہ کچھ مخصوص کرداروں کے لیے آپ پر ایک ایکسپائری ڈیٹ لگی ہوتی ہے، اور ایسا مرد وخواتین دونوں کے لیے ہے۔ مومنہ درید کے ہی چینل پر چلنے والے ڈرامے کے ہیرو سمی خان پر حال ہی میں بہت تنقید ہوئی کہ وہ اپنے سے نہایت کم عمر ہیروئن یمنہ زیدی کے ہیرو کے طور پر جلوہ پذیر ہو رہے ہیں۔

اسی طرح ہمایوں سعید پر ہر ایوارڈ شو پر یہی طنز کیا جاتا ہے کہ اس عمر میں بھی ہیرو آ رہے ہو، جان کب چھوڑو گے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے موقع پر مومنہ صاحبہ سمیت سب ہنس رہے ہوتے ہیں۔ آج یہ بات سب کو بری لگ رہی ہے کہ ہیروئن کی عمر پر بات کیوں کر رہے ہو۔ ان کو بری وہ سوچ نہیں لگی جو کسی مرد یا خاتون ایکٹر پر ایکسپائری ڈیٹ لگا دے بلکہ برا شاید یہ لگا ہے کہ کسی پرانے زمانے کے ایکٹر کی ہمت کیسے ہوئی ان کی آج کی سوپر سٹار پر بات کرنے کی۔ ورنہ اس سے کئی زیادہ تلخ اور گھٹیا باتیں ”میرا“ اور ان جیسی بی ریٹڈ اداکاراؤں کے لیے کی گئی ہیں لیکن تب نہ کوئی بائیکاٹ ہوا نہ بین۔

بات صرف اتنی ہے کہ ”political correctness“ کا فیشن ہے۔ ہر چیز پر لیبل لگانا ہمارا مشغلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہاں سب کو سوچ اور اظہار رائے کی آزادی ہے اور بلا تحقیق ایک سینئر آرٹسٹ کو ”misogynist، sexist، patriarchal“ کہنا معیوب ہے اور قابل مذمت بھی خاص طور پر تب جب مومنہ درید جیسی خواتین یہ بات کر رہی ہوں جنہوں سے سب سے زیادہ اس کلچر کو پاکستان میں پروان چڑھایا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).