”ہارس ٹریڈنگ“ سے پاک سینیٹ انتخاب کیسے؟


سینیٹ کے انتخاب میں صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ارکان کی ”ہارس ٹریڈنگ“ کا مسئلہ کافی سنگین صورت اختیار کرچکا اور جمہوریت کی نیک نامی، مضبوطی اور بقا کے لیے اس کا روکنا اور شفاف انتخاب کا اہتمام لازمی ہو گیا ہے۔

مگر آئیے ارکانِ سینیٹ اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں دھن و دھاندلی کے سدِباب پر بات کرنے سے پہلے سینیٹرز کے موجودہ نظامِ انتخاب پر نظر ڈالیں۔

سینیٹ کا موجودہ نظامِ انتخاب

1973 کے پاکستانی آئین کی دفعات 59، 218 اور 226 میں سینیٹ کی بناوٹ، اس کے ارکان کے میعادِ عہدہ اور انتخاب کے طریقۂ کار پر بحث کی گئی ہے۔

سینیٹ پارلیمان کا ایوان بالا ہے جس میں وفاقی اکائیوں کو برابر نمائندگی دی گئی ہے تاکہ قومی اسمبلی، جس میں آبادی کے حساب سے صوبوں کو نشستیں دی گئی ہیں، میں کوئی بڑا صوبہ اپنی زیادہ نشستوں کی بنیاد پر چھوٹے صوبوں سے کوئی زیادتی نہ کر سکے۔ یہ ایک مستقل قانون ساز ادارہ ہے جس کے آدھے ارکان کا ہر تین سال بعد انتخاب ہوتا ہے۔

فی الحال سینیٹ کے کُل 104 ارکان ہیں جن میں ہر صوبے سے کُل 23، قبائلی علاقوں سے 8 اور اسلام آباد سے 4 ارکان چھ سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ جبکہ قبائلی علاقوں کے منتخب ارکانِ قومی اسمبلی اس خطے کے ارکان اور قومی اسمبلی کے تمام ارکان اسلام آباد کے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں۔

آئین کی دفعہ 59 کے مطابق ہر صوبے کی مختص نشستوں کو پُر کرنے کے لیے انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام
(Proportional Representation System)
کے تحت واحد قابلِ انتقال ووٹ
(Single Transferable vote)
کے ذریعے ہوتا ہے۔

آرٹیکل 226 کہتا ہے آئین کے تحت ہونے والے انتخابات وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے انتخاب کے سوا سب خفیہ رائے دہی سے ہوں گے۔ چنانچہ سینیٹرز اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمینِ سینیٹ کا انتخاب بھی خفیہ رائے دہی سے ہوتا ہے۔

خفیہ رائے دہی، فوائد و نقصانات

خفیہ رائے دہی کا نظام دو بنیادی توقعات پر قائم ہے۔ ایک کہ رائے دہندہ باشعور اور ایمان دار ہے موقع ملے تو وہ صحیح امیدوار کو منتخب کرے گا اور دوسرا یہ کہ اسے آزادی سے یہ فیصلہ کرنے اور کسی بھی انتقامی ردعمل سے بچانے کے لیے اُسے تنہائی میں یہ فیصلہ کرنے کا موقع دینا ضروری ہے۔

اگر اِس نظام پر صحیح عمل ہو تو نہ صرف ہر پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں اپنی نشستوں کے تناسب سے سینیٹ میں نمائندگی ملے گی بلکہ اچھے لوگ بھی منتخب ہو سکیں گے لیکن بوجوہ ایسا اکثر ہو نہیں پاتا۔

یہ نظام بدعنوانی کا ذریعہ/مظہر بن گیا ہے۔ اس میں رائے دینے والے کی شناخت چھپی رہتی ہے۔ وہ ارکان یا چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے پہلے سب کے سامنے اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے مگر اندر جاکر مخالف امیدوار کو ووٹ دے جاتا ہے اوراِس خفیہ فلور کراسنگ کے بدلے کروڑوں روپے وصول کر لیے جاتے ہیں۔

دولت یا عہدوں کے لالچ میں چوری چھپے کی جانے والی یہ بے ایمانی نہ صرف اپنی پارٹی کے نقصان بلکہ جمہوریت اور سیاستدانوں کی بدنامی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

”ہارس ٹریڈنگ“ سے پاک سینیٹ انتخاب کیسے؟

موجودہ نظام دھن اور دھاندلی روکنے میں ناکام ہو چکا۔ آئیے اس کے متبادل نظام اور اس میں درکار اصلاحات زیربحث لاتے ہیں۔

(Open Ballot system) کھلی رائے دہی

خفیہ رائے دہی کے ذریعے سینیٹرز کے انتخاب میں ”ہارس ٹریڈنگ“ کو دیکھتے ہوئے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ یہ انتخاب کھلی رائے دہی سے کیا جائے۔ اس کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔

مثلاً ارکان انتخاب کے وقت ہاتھ اٹھاکر، پارٹی یا اتحاد کی بنیاد پر ایک طرف کھڑے ہوکر، اپنے پسندیدہ امیدوار کا نام لے کر یا زیادہ نشستوں کی صورت میں پسندیدہ امیدواروں کی با الترتیب آپشنز کی فہرست سب کے سامنے دے کر اپنی رائے دے سکتے ہیں جبکہ پارٹیاں بھی متناسب نمائندگی کے مطابق فہرست دے دیں۔ مگر اس سے جڑا خدشہ یہ ہے کہ انتخاب کرنے والے اپنی آزاد مرضی سے رائے نہیں دے سکیں گے یا پھر کسی طاقت ور امیدوار کی مخالفت کرکے نقصان و انتقام کا سامنا کرسکتے ہیں۔

سینیٹرز کا براہ راست انتخاب

صوبائی اسمبلیوں یا قومی اسمبلی کے ذریعے ارکانِ سینیٹ کے انتخاب میں بڑھتی ہوئی خرید و فروخت کے پیشِ نظر کچھ عرصے سے ارکانِ سینیٹ کے براہ راست انتخاب کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔

اس کے لیے یا تو پورا صوبہ ایک حلقہ ہو اور عوام ہر تین سال بعد پارٹیوں کو ووٹ دیں جن سے پہلے سے ان کے نامزد کردہ سینیٹروں کی لسٹ لی جاچکی ہوگی۔ یا صوبائی اسمبلی کے چار پانچ حلقوں کو ملا کر ایک سینیٹ حلقہ قائم کیا جائے جس میں عوام امیدواروں کو براہِ راست ووٹ دیں۔ دونوں طریقوں میں ایک تہائی یا آدھی نشستیں ماہرین، اقلیتوں اور خواتین کے لیے مختص ہوں گی جن کا انتخاب براہ راست نہیں بلکہ براہ راست ووٹنگ میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر نامزدگی کے ذریعے ہوگا۔

لیکن ان دونوں طریقوں کے لیے ہر تین سال بعد انتخاب درکار ہوگا جو ظاہر ہے مشکل اور مہنگا کام ہے۔ پھر اس طرح سینیٹ صرف مالداروں کا کلب اور قومی اسمبلی کی نقل بن جائے گا۔
یہی وجہ ہے پورے سینیٹ کی کمیٹی نے بھی 2015 میں ایک رپورٹ میں سینیٹرز کے براہ راست انتخاب کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیا تھا۔

صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر نامزدگی

آئین کی دفعہ 59 شق 2 کے تحت کسی صوبے کے سینیٹ میں نشستوں کو پُر کرنے کے لیے انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت اور واحد قابل انتقال ووٹ کے ذریعے ہونا ہے۔ اس دفعہ میں تناقص ہے۔

ایک طرف کہا گیا ہے سینیٹ کی نشستیں لازمی صوبائی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے تناسب سے ہوں جب کہ دوسری طرف اُن نشستوں پر خفیہ رائے دہی سے انتخاب کی بات کرکے یہ نشستیں دوسروں کے لیے بھی جیتنے کا امکان پیدا کیاگیا ہے جیسا کہ ڈیڑھ سال پہلے خیبر پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کی نشستیں اوروں نے ہتھیالی تھیں۔ ظاہر ہے یہ آئین کی منشاء کے خلاف ہے۔ اگر ووٹ کسی کو بھی دیا جا سکتا ہو تو پھر متناسب نمائندگی کی بات کیوں کی گئی اور اگر پارٹی پوزیشن اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پہ ہی ارکانِ سینیٹ منتخب کرنے ہیں تو پھر نامزدگی کے بجائے انتخاب کی بات کیوں کی گئ؟ یہ تناقص دور کرنے کی ضرورت ہے۔

صحیح راستہ یہ ہے کہ اُس صوبائی اسمبلی میں عام انتخابات میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پہ ہی وہاں کی نشستیں نامزدگی سے پُر کی جائیں اور واحد قابلِ انتقال ووٹ اور خفیہ رائے دہی کے ذریعے دوبارہ انتخاب سے متناسب نمائندگی کے امکان کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔ یعنی پارٹیوں سے اُن کے حصے کی نشستوں کے لیے نامزد ارکان کی فہرستیں طلب کی جائیں گی اور ان کا بطورّ سینیٹ ارکان حکم نامہ جاری کردیا جائے گا۔ اس طرح خرچہ بھی نہیں ہوگا اور ہارس ٹریڈنگ کا موقع بھی جاتا رہے گا۔ بس اس کے لیے اس دفعہ کی شق 2 میں ترمیم کرکے ”واحد قابلِ انتقال ووٹ“ کی جگہ ”پارٹی سربراہ کی جانب سے نامزدگی“ کے الفاظ شامل کردینے ہوں گے۔

موجودہ نظام میں اصلاحات

اگر ارکانِ سینیٹ کا انتخاب براہ راست عوام یا کھلی رائے دہی یا پھر کسی صوبائی اسمبلی میں موجود پارٹی پوزیشن/متناسب نمائندگی کے مطابق نامزدگی سے نہیں کروانا ہے اور موجودہ خفیہ رائے دہی کا نظام ہی برقرار رکھا جانا ہے تو پھر شفاف انتخاب کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ نظام میں چند اصلاحات درکار ہیں۔

1۔ آزاد امیدواروں پہ پابندی لگائی جائے کیوں کہ جس کا صوبائی اسمبلی یا سینیٹ میں کوئی رکن نہ ہو وہ ظاہر ہے ارکان خرید کر ہی پاس ہو سکتا ہے۔

2۔ ہر ووٹ پر صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے متعلقہ رکن کا نام لکھا ہو۔ آئین کی دفعہ 226 کے مطابق سینیٹ میں خفیہ رائے دہی ہوگی اس لیے اس میں ترمیم کرنا ہوگی تاکہ پارٹی سربراہ یا پارلیمانی قائد چاہے تو درخواست دینے پر کسی رکن کے ووٹ اسے دکھائے جاسکیں۔ اس طرح ہارس ٹریڈنگ کم/ختم ہو جائے گی۔

3۔ جو ووٹ خراب ہو اور مسترد ہونے والا ہو اس رکن سے پریزائیڈنگ افسر پوچھ کر اس کی رائے دوبارہ معلوم کرلے اس طرح ووٹ خراب کرکے نتیجہ کسی اور کے حق میں کرنا ناممکن ہو جائے گا جیسا پچھلے دنوں چیئرمینِ سینیٹ کے انتخاب میں پانچ مسترد ووٹوں سے ہو چکا۔

4۔ امیدواروں کی نامزدگی اور انتخاب میں پیسوں کا کردار ختم کرنے کے لیے پارٹیاں اُن اصلی کارکنوں کو ٹکٹ دیں جنہوں نے کم ازکم دس سال پارٹی میں گزارے ہوں۔ یوں پیسے والا ایک پارٹی کی سینیٹ نشست سے استعفیٰ دے کر دوسری پارٹی میں شامل ہوگا تو چند روز بعد ہی وہاں سینیٹر نہیں بن سکے گا۔

5۔ دفعہ 63 الف میں ترمیم کرکے سینیٹ انتخاب میں اپنی پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے یا نہ دینے یا بغیر اجازت غیرحاضر ہونے کو بھی کسی رکن کی نا اہلی کے اسباب میں شامل کیا جائے۔
6۔ جو بھی کسی صوبے یا قبائلی علاقے یا دارالخلافے سے انتخاب لڑنا چاہے اس کے لیے لازم ہو کہ وہ وہاں کم ازکم پانچ سال سے مستقل رہائش رکھتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).