ابھی تک خزانہ خالی ہے؟


ہمارے چاک و چوبند وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی لوٹ مار کی وجہ سے قومی خزانہ خالی ہے۔ ایک برس ہونے کو آگیا مگر یہ گردان کہ ’خزانہ خالی ہے‘ کی جا رہی ہے جبکہ کچھ ممالک سے رقوم آ چکی ہیں اس کے پیش نظر کہا گیا کہ ہمیں اب کسی عالمی مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مگر یہ سب کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے بھی پیسے مل گئے ہیں دائیں بائیں سے بھی مددو تعاون کی خبریں ہیں پھر ٹیکسیشن بھی پوری طاقت کے ساتھ کی جا رہی ہے اور اس کے ثمرات کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ ہر ماہ وصولیوں سے گویا بہار آ گئی ہے مگر ابھی تک صورت حال دگر گوں بتائی جاتی ہے۔ شاید اس لیے کہ عوام پر مزید ٹیکس لگنے والے ہیں انہیں مہنگائی کے اژدھا سے ایک بار پھر ڈسوایا جانے والا ہے لہٰذا آنے والے دنوں میں زندگی سسک رہی ہو گی اور ممکن ہے کچھ لوگ تنگ آ کر سڑک کا رخ کر لیں کیونکہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہو گا سوائے احتجاج کے۔ حکومت کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ بعض مسائل کے پیدا ہونے کا اندیشہ بھی ہے۔

حکومت کو اس وقت معتدبہ عوامی حمایت حاصل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اس آس میں ہیں کہ اگلے سات آٹھ ماہ میں ملک کی معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے، لہٰذا ان پر سے مہنگائی کا دباؤ بھی کم ہو جائے گا یوں وہ عمران خان کی حکومت سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس غریب لوگ موجودہ حکومت کو بددعائیں دے رہے ہیں کہ اس نے ان کے ساتھ معاشی نا انصافی کی حد کر دی ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ وہ اتنی مہنگائی کرتی کہ وہ برداشت کر لیتے مگر یہ تو ان کی ”سانسیں روک“ مہنگائی ہے جو انہیں ایک روز خود کشیوں کی راہ دکھائے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے قابل و ذہین لوگ جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر اس طرح ہو جائے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں آگے کیوں نہیں آتے۔ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر انہیں کوئی پذیرائی دینے کو تیارہی نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو حکومت کی نا اہلی نہیں، اس کی ہٹ دھرمی نہیں اور اس کی انا نہیں، اس روش کو ختم ہونا چاہیے۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے اعلانات کیا عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ہیں؟ لگتا تو یہی ہے کہ ان کو ووٹ کے حصول کی خاطر سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔

بہرحال صاف نظر آرہا ہے کہ اب بھی حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں یرغمال ہے وہ جو جو کچھ اسے کہتے ہیں ان پر وہ من و عن عمل درآمد کر رہی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ جب عوام کی بات ہی نہیں ماننی ان کی ترجیحات کو ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھنا اور ان کے احساسات کو اہمیت نہیں دینا تو پھر حکومت عوامی تو نہ ہوئی۔ اب تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہان کچھ بھی عوام کے لیے نہیں سب خواص کے لیے ہے جس سے وہ بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود عوام کے کیا کہنے کہ وہ نعرے لگانے چوک چوراہوں میں آجاتے ہیں۔ پچھلے ادوار میں ان سے کیا برتاؤ ہوتا رہا اسے وہ یکسر بھلا دیتے ہیں۔

اب جب پی ٹی آئی کا اقتدار ہے اور اس میں انہیں بچے کھچے روپوں پیسوں سے محروم کیا جا رہا ہے اور وہ دہائی دے رہے ہیں حکمرانوں کا نام لینا بھی نہیں چاہتے ان کے جانے کے بعد ان کی تمام ”مہربانیوں“ کو فراموش کر دیں گے بس یہی وہ ان کی سادگی ہے جو انہیں پریشان کر رہی ہے، انہیں غربت کی لکیر کے نیچے لے جا رہی ہے مگر وہ اب بھی نہیں سمجھ پا رہے اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ ایک روز اٹھ بھی کھڑے ہوں کہ جب انہیں ہر طرف سے مایوسی کے نخلستان دیکھنے کو ملیں مگر تب بھی وہ کسی سیاستدان کو تلاش کریں گے جو انہیں غیر محسوس انداز سے پیچھے کی طرف دھکیل دے گا۔ جب تک وہ خود فیصلہ کرنے کی قوت حاصل نہیں کرتے انہیں اسی طرح رسوا ہونا ہے کہ انہیں جو ان کا ہمدرد ظاہر کرتا ہے وہ اسے سچ مان لیتے ہیں۔ کیا عمران خان کی تقریروں سے لگ رہا تھا کہ وہ عوامی خواہشات کو پس پشت ڈال دیں گے۔ نہیں تو پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ ان کو نظر انداز کر کے روایتی ڈگر پر چل پڑے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ بھی لے لیا جبکہ اسد عمر کہہ رہے تھے کہ ہمارا کام اس کے بغیر چل جائے گا اگرچہ چند تکالیف کا سامنا ہو گا مگر یہ طے ہے کہ ہم واقعتا اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے مگر وہ اپنے قلمدان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اسی طرح وزیراعظم نے امریکہ سے یاری نہ کرنے کا ببانگ دہل کہا مگر وہاں خوشی خوشی چلے گئے اور سرمایہ داری دنیا میں اس کا خوب چرچا ہوا۔ چلئے اگر وہ اپنی کچھ باتیں منوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ترقی کر لے گا اور اس کی معاشی حالت بھی ٹھیک ہو جائے گی مگر اگر فوٹو سیشن ہوا ہے تو پھر ہمارے ہاں وہی پٹ سیاپا ہو گا جو پچھلے ادوار میں ہوتا رہا ہے کہ ہمارا ہلنا جلنا بھی مغرب کا مرہون ہوتا۔ خیر آنے والے دنوں میں اس سے متعلق معلوم ہو جائے گا۔ فی الحال تو دھڑا دھڑ خارجہ شرائط کا احترام کیا جا رہا ہے۔ ذرا سی بھی اپنی مرضی نظر نہیں آ رہی مگر حیرت ہے حزب اختلاف اس حوالے سے مؤثر آواز بلند نہیں کر رہی۔ اب تو اس نے واضح طور سے کہہ دیا ہے کہ وہ حکومت کو گرائے گی کیوں گرائے گی اس سے متعلق کھل کر نہیں بتا رہی مگر کبھی کبھی مہنگائی وغیرہ کا کہہ دیتی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسے دکھ صرف اس بات کا ہے کہ عمران خان نے جو احتساب کی چابک لہرائی ہے اس سے محفوظ رہنے کے لئے اسے (عمران خان) گھر بھجوانا ضروری ہے۔ عوامی مسائل سے حزاب اختلاف کو کوئی سروکار نہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ یہ نہ کہتی کہ حکومت کو رخصت کرنا ہے۔

بہرکیف عوام موجودہ حکومت سے سخت نالاں ہیں انہیں اب اس سے کسی بہتری کی کوئی توقع نہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ عمران خان نمک کی کان میں نمک ہو گئے ہیں۔ امریکہ کے چرنوں میں بیٹھ جانے کا مطلب اس کی آشیر باد حاصل کرنا ہے جو جس حکمران کو ملی وہ اسی کا ہو گیا۔

ان کی اس رائے سے مکمل اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حالات ہر دور میں مختلف رہے ہیں اب شاید وہ نہیں کیونکہ مسائل اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ عوام کے اندر غم وغصہ انتہاؤں کو چھو رہا ہے لہٰذا انہیں چھوڑ کر طاقتور ممالک کے پہلو میں بیٹھنا ممکن نہیں اس لیے کچھ نہ کچھ بہتری کے آثار نظر آتے ہیں مگر نیا سویرا کب طلوع ہوتا ہے اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت تو پٹرول مہنگا کیا گیا ہے۔ دو تین ماہ بعد بجلی بھی مہنگی کر دی جائے گی۔ گیس کی قیمت بھی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ ایل پی جی کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ باقی چیزیں بھی پہنچ سے دور کی جا رہی ہیں جس سے ہاہا کار مچ گئی ہے مگر افسوس عوام کی کوئی نہیں سن رہا اور یہ بھی نہیں بتایا جا رہا کہ کب ان کے دن پھریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).