عورت کی تذلیل کب تک؟


کوئی مانے یا نا مانے تاریخ گواہ ہے کہ عورت پر ظلم ہوتے رہے ہیں۔ کہیں پیدا ہوتے ہی گور کے حوالے کردیا کہیں شوہر کے مرنے پر زندہ جلا دیا۔ آپ کہیں گے کہ ایسا تو قبل از اسلام ہوتا تھا اور ستی کرنے کی رسم بھی ہندوانہ ہے۔ تو پھر قران سے شادی کی رسم کو آپ کیا کہیں گے؟ ونی کرنے کا جواز کیا بیان کریں گے؟ یعنی جرم باپ یا بھائی کا اور سزا اس کی کم سن بیٹی یا بہن کو۔ ایسے فیصلے کرنے والے خوانین، سردار، وڈیرے اور زمین دار اسی اسلامی ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کسی مذہبی عالم نے اس کی مخالفت میں آواز نہیں اٹھائی۔ عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا رہا۔ نہ اس کے حقوق ہیں اور نہ اس کی آواز۔ اس کی زندگی نکاح کے دو بولوں کی امید اور طلاق کے تین لفظوں کے خوف میں گزرتی رہی۔ زبانی کلامی کہتے اور سنتے آئے ہیں کہ اسلام نے عورت کو بہت حقوق دیے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ عورت بے بسی کی تصویر بنی آج بھی اپنا حق مانگتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دین حق عورت کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔ بس اسے نافذ کرنا ہے۔

ملک میں عورتوں کی فلاح اور ان کے تحفظ کا کوئی قانون ملاؤں نے بننے نہیں دیا۔ اس میں کم سنی کی شادی بھی ہے۔ کم عمری میں لڑکیوں کی شادی اس لئے بھی کر دی جاتی ہے کہ ان کی تعلیم پر خرچہ نہ کرنا پڑے اور یوں لڑکی اپنے ایک بنیادی حق تعلیم سے محروم ہو جاتی ہے۔ کم عمری کی شادی پر پابندی پر سینیٹ میں جب یہ بل پیش کیا گیا تو جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس بل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا۔ کم سنی کی شادی کسی بھی طرح معاشرے کے لئے فائدہ مند نہیں۔ لڑکی اگر نو دس سال کی عمر میں جسمانی طور پر بالغ ہو جائے تو کیا وہ ذہنی اور جذباتی طور پر بھی بلوغت میں آ جاتی ہے؟ سوچنے کی بات ہے کہ مولوی حضرات اس بل کی مخالفت کیوں کرتے رہے؟ کیا یہ حضرات اپنی بیٹیوں کو کم سنی میں بیاہ دیتے ہیں؟

زنا بلجبر میں بھی عورت ہی ہے جو ناکردہ گناہ کی سزا بھگتی ہے۔ دنیا ترقی کر گئی۔ جرائم ثابت کرنے کے ٹھوس طریقے ڈھونڈ لئے گئے۔ ڈی این اے بھی ایک نا قابل تردید ثبوت ہے۔ لیکن اس کی بھی مخالفت کی گئی اور یہ مخالفت بھی مذہبی حلقے کی جانب سے آئی۔ وہ چار گواہ مانگتے ہیں۔ اب زنا کرنے والے چار لوگوں کی موجودگی میں تو یہ کام نہیں کریں گے۔ سو نہ گواہ ہوں گے نہ جرم ثابت ہو گا اور نہ سزا ہو گی۔ گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری بھی عورت پر ہے کیونکہ وہ مدعی ہے۔ مغربی ملکوں میں پولیس ڈی این اے کی مدد سے بچوں کی ولدیت بتاسکتی ہے، چوروں کے خلاف شواہد اکٹھے کرسکتی ہے اور ڈی این اے ٹیسٹ کو عدالت میں حتمی ثبوت مانا جاتا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے زنا کے واقعات بھی ثابت کیے جاسکتے ہیں اور مجرموں کو پکڑا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے یہ حضرات چشم دید گواہی کو ہی صحیح مانتے ہیں۔ ننھی زینب کے قاتل کو اگر ڈی این اے کی مدد سے پکڑا جا سکتا ہے تو عورت کے ریپ کے مجرمان کو کیوں نہیں؟

ایک سے زائد شادی کا حق مرد بڑے رعب اور دبدبے سے استعمال کرتا ہے۔ ”چار جائز ہیں جی۔“ اس سے وہ بیوی کو ڈرا کر رکھتا ہے۔ اگر معاشی حالات موافق ہوں تو دوسری، تیسری بلکہ چوتھی بھی آ سکتی ہے۔ اس میں بھی علما حضرات مرد کے اس حق کی پرزور حمایت کرتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اس حق کا خوب استعمال کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو اپنے دوسرے تیسرے نکاح کوخفیہ رکھتے ہیں۔ نکاح ایک معاہدہ ہے جو دو فریقوں کے درمیان کچھ شرائط پر ہوتا ہے۔ اس کے گواہ بھی ہوتے ہیں اور یہ ایک مذہبی اور قانونی دستاویز ہے۔ اسے خفیہ رکھنا ہر گز جائز نہیں۔ یہ عورت کی حق تلفی ہے۔ دوسری شادی کا عذر اکثر یہ دیا جاتا ہے کہ پہلی بیوی سے ذہنی انڈراسٹینڈینگ نہیں ہے۔ کچھ اولاد کی خاطر کرتے ہیں اور کچھ اولاد نرینہ کے لئے۔ یا اللہ یہ والے مرد کون سی دنیا میں رہتے ہیں؟ انہیں اب تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ بچے کی جنس کا انحصار مرد کے سپرم پر ہوتاہے، عورت کے بیضے پر نہیں۔ ہمارے ٹی وی ڈارمے لکھنے والے یا والیاں بھی اس علم سے بے خبر ہیں اور کتنے ہی ڈرامے اس پر لکھ ڈالے۔ عورت یہ ظلم بھی سہے جارہی ہے۔ صدر ایوب خان نے عائلی قوانین بنائے، پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر مرد دوسری شادی نہیں کر سکتا۔ اس کی سب سے زیادہ مخالفت مذہبی لیڈروں نے کی کیونکہ وہ اسے اپنا مذہبی حق جانتے ہیں۔ اگر بیوی یہ کہے کہ اس کی شوہر کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہیں تو کیا اسے اس کی اجازت ہے کہ وہ اس بنا پر شوہر کو طلاق دے کر کسی اور سے شادی کر لے؟ طلاق دینے کا حق عورت کے پاس بھی تو ہوتا ہے۔ یہ اور بات کہ نکاح نامے میں یہ شق اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے۔

ایک اور ظلم جو عورت پر تواتر سے روا رکھ جاتا ہے وہ ہے ایک وقت میں تین طلاق کا۔ کہنے کو تو یہ غیر قانونی کام ہے لیکن یہ ہو رہا ہے۔ یہ ڈراؤنا بھوت عورت کے سر پر منڈلاتا ہی رہتا ہے۔ ذرا کچھ اونچ نیچ ہوئی اور شوہر نے تین الفاظ کہہ ڈالے۔ ہمارے ٹی وی ڈراموں نے اس بھوت کو اور بھی خوفناک بنا دیا۔ کتنے ہی ڈراموں میں یہ سین دکھایا گیا۔ غصے میں بپھرے ہوئے مرد نے کھڑے کھڑے تین لفظ کہے اور عورت کو نکال باہر کردیا۔ عورت روتی بلکتی گھر سے نکلتی ہے۔ عورت کی اتنی بے وقعتی ٹی وی ڈراموں کی خواتین مصنفاؤں نے کی ہے۔ کبھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی کہ ایک وقت میں تین طلاقوں کا کوئی جواز نہیں۔ تین بار کہنے کے باوجود یہ ایک ہی طلاق شمار ہو گی۔ رجوع کی گنجائش ہے۔ دنیا کے بیس سے زیادہ اسلامی ممالک میں تین طلاق بیک وقت دینا جرم ہے۔ مصر، شام، ایران، ترکی، بنگلا دیش، سعودی عرب، قطر اور سنا ہے پاکستان بھی شامل ہیں۔ اوراب انڈیا نے بھی یہ تاریخ ساز بل پاس کردیا۔ توقع کے مطابق اس بل پر اعتراضات آنے شروع ہو گئے۔

مظالم یہیں تمام نہیں ہوتے۔ اس طلاق پر پچھتاوے اور اسے ”ان ڈو“ کرنے کے لئے عورت کو حلالہ کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ یعنی غلطی کرے مرد اور سزا ملے عورت کو۔ برطانیہ میں تو ایسے سینٹر بھی کھل گئے ہیں جہاں حلالہ کی سہولت دستیاب ہے۔ سنا ہے اب پاکستان میں بھی اس قسم کے سینٹر وجود میں آ گئے ہیں۔ عورت کی اس سے بڑھ کر تذلیل اور کیا ہوگی۔

یہ تمام مظالم عورت اس لئے سہنے کو مجبور ہے کہ اسے کہیں سے کوئی تحفظ نہیں ملتا۔ نہ ریاست سے نہ معاشرے سے اور نہ ہی اپنوں سے۔ معاشی طور پر کمزور اور بے بس یہ مخلوق بس سہتی ہی چلی جاتی ہے۔

کیا کبھی کوئی قانون ایسا بھی بنے گا جس میں عورت کے تحفظ، اس کی معاشی ضروریات اور احترام کو سامنے رکھ کر بنایا جائے گا؟ عورت کو کہیں تو کوئی ریلیف ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).