ٹموتھی ڈیکسٹر نے کیسے دولت کمائی؟



اگر ابراھام لنکن سے بل گیٹس اور لیڈی ڈیانا سے کرنل سنیڈرز (کے ایف سی کا مالک ) تک عالمی شہرت حاصل کرنے والے اپنے چمکتے ہوئے تارے اور دمکتی ہوئی قسمت لے کر نہ آتے تو آج وہ بھی کسی مائیکل اور کسی میری کی طرح گمنام زندگی گزارتے اور گمنام موت مرتے۔ یہ قسمت ہی ہے جوبعض اوقات لغزش پا کو بھی منزلوں پر پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس میں نہ عقل کا عمل دخل ہوتا ہے نہ محنت کا۔ آپ ٹیموتھی ڈکسٹر کی مثال لے لیں۔ وہ امریکی ریاست میسا چوسٹس میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ نوجوانی تک آتے آتے اس نے غربت کا ہر تلخ ذائقہ چکھ لیا تھا اس کا ذہنی میلان لکھنے کی طرف تھا لیکن پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر چھوٹا موٹا بزنس کرنے لگا۔ ایک دن ایک بہت ہی امیر اور خوش شکل بیوہ سے ملاقات ہو گئی اور وہ خاتون اسے دل دے بیٹھی۔ چند دنوں بعد دونوں نے شادی کر لی تو اس کے دن پھرگئے۔ کچھ عرصے بعد اس نے اپنے بزنس کو پھیلایا اور انگلینڈ آ گیا۔ ٹیموتھی ڈکسٹر حددرجہ سادہ آدمی تھا اسے جو بھی شخص کوئی بھی مشورہ دیتا وہ فورًا مان لیتا یہ تکلف کیے بغیر کہ یہ مشورہ اس کی بھلائی کے لئے ہے یا بربادی کے لئے۔

انگلینڈ کے لوگوں کو نپولین نے دکانداروں کی قوم کہا تھا اس لئے ان ”دکانداروں“ نے جب اسے ایک کامیاب بزنس مین کے روپ میں دیکھا تو ان کے اندر کا دکاندار جاگ اٹھا اور اس کے خلاف خاموشی کے ساتھ منصوبہ بندی شروع کردی اور پھر ایک دن ٹیموتھی ڈکسٹر کے بظاہر دوست لیکن چھپے دشمن نے اسے کھانے پر بلایا۔ دوست نے بزنس کے بارے میں گفتگو شروع کردی اور مختلف طریقوں سے اس سادہ لوح آدمی کو تباہی کے دہانے پر لاتا رہا جس میں بظاہر دوست لیکن اصل میں ایک سازشی دشمن کامیاب ہوا۔

نیو کاسل انگلینڈ کا ایک علاقہ ہے یہاں بہت بھاری مقدار میں کوئلہ نکلتا تھا اور نہ صرف انگلینڈ کے تمام شہروں بلکہ پورے یورپ کو کوئلے کی سپلائی یہاں سے ہوتی تھی۔ کوئلے کے بڑے بڑے تاجر نیو کاسل آکر منڈی سے کوئلہ خریدتے اور اپنے ملکوں اور شہروں کو بھیج کر بھاری منافع کماتے۔ اس لئے منصوبے کے تحت دوست نے تیموتھی ڈکسٹر سے پوچھا کہ ”آپ کبھی نیو کاسل گئے ہیں؟“ تو ٹیموتھی نے نفی میں جواب دیا۔

دوست نے مشورہ دیا کہ وہاں کوئلے کی مانگ بہت ہے اگر آپ دوسری جگہوں سے کوئلہ خرید کر نیو کاسل شفٹ کر دیں تو بہت بھاری منافع کما سکتے ہیں۔ اب اس سادہ آدمی نے کوئی معلومات اور سروے کرنے کی بجائے فورًا دوست کے مشورے پر عمل کرنا شروع کردیا اور اپنی قسمت اور سادگی سمیت مختلف جگہوں پر جاکر کوئلے کے بھاری لاٹ خریدنے لگا۔ سب لوگ اس پر ہنستے اور مذاق اڑاتے رہے کہ نیو کاسل سے کوئلہ لانے کی بجائے یہ احمق آدمی ادھر سے کوئلہ خرید رہا ہے لیکن وہ تمام منصوبے سے بے خبر اپنے کام میں لگا رہا اور ”دوست“ کے مشورے پر عمل کرتا رہا۔

انگریز بزنس مین اپنی چال کو کامیاب ہوتا دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے تھے لیکن دوسری طرف قسمت اپنا کھیل شروع کر چکی تھی۔ جس دن ٹیموتھی ڈکسٹر کا کوئلہ مال گاڑیوں پر لدنا شروع ہوا عین اسی دن نیو کاسل کے کوئلے کے کانوں میں کام کرنیوالے مزدوروں نے اُجرت کی وجہ سے ہڑتال کردی اور کانوں سے کوئلہ نکلنا بند ہوگیا۔

اس دوران انگلینڈ کے مختلف شہروں سمیت دوسرے یورپی ملکوں سے کوئلے کے خریدار نیو کاسل پہنچ گئے تو منڈی خالی پڑی تھی وہ حیران وپریشان کھڑے تھے کہ ٹیموتھی ڈکسٹر کا مال شہر میں پہنچنے لگا۔ کوئلے کے تمام تاجر منہ مانگے دام دے کر خریداری کے لئے اس پر ٹوٹ پڑے۔ حالت یہ ہو گئی کہ مال پہنچنے سے پہلے ہی تاجر بڑی بڑی بولیاں دینے لگے اب ادھر کوئلہ پہنچتا ادھر ٹیموتھی ڈکسٹر لاکھوں پاؤنڈ کماتا اس ایک سودے میں اس نے اتنا کما لیا کہ اتنا وہ زندگی بھر نہیں کما سکتا تھا۔

ٹیموتھی ڈکسٹر کے خلاف سازش کے تانے بانے بننے اور اس کی تباہی کے منصوبے بنانے والوں کا تو پتہ نہیں کیا بنا لیکن ٹیموتھی ڈکسٹر ہمیشہ ایک آسودہ اور معزز شخص کے روپ میں موجود رہا اسے دیکھ کر انگریز اپنا ہیٹ سر سے اتارتے اور احترامًا اس کے سامنے جھک جاتے کیونکہ ٹیموتھی ڈکسٹر کی قسمت اور کامیابی کا راستہ بنانے والا تمام منصوبہ سازوں اور منصوبوں پر حاوی ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).