الیکشن2018ء بارے چند حقائق


جولائی 2018 ء کے انتخابات کو گزرے ایک سال ہو گیا ہے اور ایسے میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں روایتی حربے کے طور پر دھاندلی کا شور مچارہی ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں الیکشن کے عمل کو دیکھنے والی ایک نجی این جی او ”فافن“ کے اس وقت کے سربراہ اور آج ممبر سرور باری نے ایک آرٹیکل لکھا ہے اس سارے الیکشن کے بارے میں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے 2018 ء کے الیکشن میں پاکستان کی تمام 272 قومی اسمبلی کی سیٹوں پر اپنے 20,000 ہزار نمائندے بھیجے، جنہوں نے 70,000 سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کے عمل اور گنتی کو براہ راست دیکھا اور اپنی رپورٹ فافن کو جمع کروائی۔ جس میں کسی بھی قسم کی دھاندلی کا ذکر نہیں تھا۔

مزید لکھتے ہیں کہ اپوزیشن ایک سال سے سلیکٹڈ سلیکٹڈ کا شور مچارہی ہے لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود دھاندلی کا ایک بھی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ دھاندلی کے ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے ایک سال کا عرصہ کافی ہوتا ہے لیکن تمام اپوزیشن مل کر بھی ایک ثبوت نہیں ڈھونڈ سکی، حالانکہ 2013 ء کے الیکشن کی کئی ویڈیو میڈیا کی زینت بنی تھیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ 2013 ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا جس پر ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا بھی دیا۔

جب ان تمام حلقوں کو کھولا گیاتو ان میں سے تین حلقوں پر انتخابات کالعدم قرار دیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے اس بار ملک بھرکے تقریبا ہر پولنگ اسٹیشن پر کلوزسرکٹ کیمرے نصب کیے تھے جن کی ریکارڈنگ آج بھی موجود ہے لیکن کسی بھی جگہ فوج یا انتظامیہ کو دھاندلی کرتے نہیں دیکھا گیا۔ 2013 ء کے الیکشن کے بعد 300 سے زائد انتخابی عذرداریاں دائر ہوئیں لیکن اس بار ان کی تعداد کم ہو کر صرف 160 رہ گئی یہی نہیں وہ مزید کہتے ہیں کہ پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالنے کے الزام میں بھی وزن نہیں ہے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی اپوزیشن جماعتیں شور مچاتی ہیں کہ ان کو دھاندلی کے اور پولنگ ایجنٹ باہر نکال کر ہروایا گیا حالانکہ خیبرپختونخواہ کی 18 اور بلوچستان کی 4 قومی اسمبلی اور 18 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اپوزیشن پارٹیوں نے ایک دوسرے کو ہرایا۔

اس کے بعد مسترد شدہ ووٹوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں کو مسترد شدہ ووٹوں کے ذریعے ہرایا گیا۔ یعنی کئی حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں کا تناسب جیت کے مارجن سے کم تھا لیکن جب اس کیس کو بھی اسٹڈی کیا گیا تو علم ہوا کہ ایسی نشستیں جن پر جیت کامارجن مسترد ووٹوں سے کم تھا پر ن لیگ اور پی پی نے 38 نشستیں جیتیں جبکہ حکمران جماعت تحریک انصاف 23 سیٹیں جیت سکی۔ سندھ میں پی پی نے ایسی 9 سیٹیں جیتی جبکہ حکمران جماعت 4 نشستیں جیت سکی۔

خیبرپختونخواہ میں ایم ایم اے، پی پی، ن لیگ اور اے این پی نے ایسی 12 نشستیں جیتی جبکہ تحریک انصاف نے 11۔ بلوچستان میں ایم ایم اے اور تحریک انصاف نے 3,3 ایسی نشستیں جیتی۔ سرورباری مزید کہتے ہیں کہ 2013 ء کے الیکشن میں ایسے نتائج 170 حلقوں سے موصول ہوئے جبکہ اس بار صرف 35 حلقوں سے۔ 2018 ء کے الیکشن میں مسترد شدہ ووٹوں کا تناسب بڑھنے کا تاثر دیا جاتا ہے جبکہ اس میں بھی حقیقت نہیں۔ 2002 ء کے انتخابات میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 775,720 تھی جو 2013 ء میں 100 فیصد بڑھ کر 1502,717 ہو گئی اور اس سب کا فائدہ پی پی اور ن لیگ کو ہوا۔

یہ تو تھے فافن کے سابق سربراہ سرور باری کے تاثرات اور حقائق کی تفصیل۔ میں زمینی حقائق کی بات بھی کرنا چاہوں گا اور اس سلسلے میں اپنے ضلع گجرات کی بات کروں گا۔ ضلع گجرات میں قومی اسمبلی کے چار جبکہ صوبائی اسمبلی کے سات حلقے تھے۔ قومی اسمبلی کی چار میں سے دو سیٹیں ق لیگ جبکہ تحریک انصاف اور ن لیگ نے ایک ایک نشست جیتی۔ سب سے پہلے حلقہ این سے 68 کی بات کرتے ہیں جہاں ق لیگ کی جیت کا مارجن 35 ہزار کے قریب تھا۔

یہ وہ حلقہ ہے جہاں ق لیگ کے وجاہت حسین 2008 اور اس سے پہلے دھاندلی کر کے بھی جیتتے رہے ہیں لیکن 2018 ء کے الیکشن میں ایک بھی پولنگ اسٹیشن کے اندر دھاندلی کا کوئی ثبوت یا شکایت نہیں آئی۔ تقریبا تمام پولنگ اسٹیشن پر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے تھے۔ ویسے بھی جہاں جیت کا مارجن 35 ہزار ہو وہاں دھاندلی کی شکایت کیسے ہو سکتی ہے۔ دوسرا حلقہ این اے 69 تھا جہاں سے ق لیگ کے پرویز الہی کے مقابلے میں انہی کے چچا زاد بھائی مبشر حسین ن لیگ کی طرف سے تھے۔ یہاں جیت کا مارجن تقریبا 70 ہزار تھا۔ اس حلقے میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ جو لوگ اس حلقے کو جانتے ہیں وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ گجرات شہر سے ملحقہ دیہات جو اس حلقہ میں آتے ہیں جاٹ برادری کا ووٹ بینک زیادہ ہے اور وہ بھی ق لیگ کی طرف ہی جاتا رہا ہے۔

تیسرا اور سب سے دلچسپ حلقہ تھا این اے 70۔ یہاں پر پیپلزپارٹی کے قمرزمان کائرہ، ن لیگ کے سابق وفاقی وزیر جعفر اقبال اور تحریک انصاف کے سید فیض الحسن کے درمیان مقابلہ تھا۔ یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار نے 95 ہزار کے قریب ووٹ لیے جبکہ ن لیگی امیدوار نے 69 ہزاراور کائرہ صاحب جو دھاندلی دھاندلی کرتے نہیں تھکتے، صرف 42 ہزار ووٹ لے سکے۔ پنجاب خصوصا گجرات کی سیاست جاننے والوں کو علم ہے کہ یہاں دیہات میں دھڑے بندی ہوتی ہے۔

پولنگ اسٹیشن پر دھاندلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر بندہ اپنی مرضی سے اپنے دھڑے، برادری کوووٹ دیتا ہے۔ شہروں میں پولنگ کے وقت کے بعد خطرہ ہوتا ہے لیکن حیران کن طور پر اس حلقے کے بڑے شہر یعنی لالہ موسی کے زیادہ تر پولنگ اسٹیشن سے ن لیگ ہی جیتی جو اس بات کی بھی نفی کر رہی ہے کہ دھاندلی ہوتی تو شہروں میں ہوتی اور تحریک انصاف لالہ موسی جیت جاتی۔ اس بار لیکن فوج کی وجہ سے یہ ضرور ہوا کہ غریب لوگوں نے بھی اپنی مرضی سے ووٹ دیا ورنہ پہلے تو پولنگ اسٹیشن پہنچنے پر گاؤں کا وڈیرہ کندھے پر ہاتھ رکھ کر حال احوال پوچھ لیا کرتا تھا اور بیچارے مسکین کو علم ہوجاتا تھا کہ ووٹ دینا پڑے گا۔

اس بار پولنگ ایجنٹ کو ایک طرف بٹھایا گیا تھا جو کہ صرف سارے عمل کی نگرانی کرسکتا تھا لیکن دخل اندازی ہرگز نہیں۔ گجرات میں صرف ایک حلقے این اے 71 میں مارجن کم تھا اور انتظامیہ کی مداخلت کے بھی چانس تھے۔ یہاں جیت کا مارجن 8 ہزار کے قریب ہے لیکن یہاں سے جیتنے والا امیدوار ق لیگ یا تحریک انصاف کا نہیں بلکہ دھاندلی کا رونا رونے والی ن لیگ کا تھا۔ سرور باری کی بات کی یہاں بھی تصدیق ہوتی ہے کہ جن حلقوں میں جیت کا مارجن کم تھا ان میں سے زیادہ تر ن لیگ نے ہی جیتے تھے۔

آخر میں میں نے پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی دینے والے اساتذہ و دیگر لوگوں سے انتخابی عمل کی شفافیت بارے پوچھا جنہوں نے کہا کہ تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے جس میں کسی بھی جماعت کو دھاندلی کرنے کا موقع نہیں ملا اور یقین کریں ان میں سے اکثریت تحریک انصاف کے ناقد تھے۔ سوشل میڈیا پر دھاندلی دھاندلی کا رونا رونے والوں سے میری صرف اتنی گزارش ہے کہ آپ ایک پولنگ اسٹیشن بتا دیں جہاں پولنگ ایجنٹ کو ایک رزلٹ بنا کردیا گیاہو اور بعد میں اس میں تبدیلی کی گئی ہو کیونکہ اس بار الیکشن کمیشن نے پورے پاکستان کے تمام حلقوں کے تمام پولنگ اسٹیشنز کر ریکارڈ اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیا ہے جس سے کسی بھی ایسی بات کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ میں خصوصا گجرات کے لوگوں سے گزارش کروں گا کہ ایک پولنگ اسٹیشن بتا دیں جہاں سے آپ کے پولنگ ایجنٹ کو باہر نکالا گیا ہو اور ووٹوں کی گنتی اس کو پاس بٹھائے بغیر کی گئی ہو۔ کیونکہ گجرات میں ایسے پولنگ اسٹیشن کے بارے جاننا میرے لیے قدرے آسان ہو گا اور حق اور سچ بھی واضح ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).