امریکہ بہادر کا آسرا۔۔۔


جس قدر بد دعائیں، طعنے اور مغلظات مجھے آتی تھیں میں نے بک دیں۔۔۔

کمرے میں گھوم گھوم کر ہلکان ہو گئی، جس قدر غم اور غصے کا اظہار کر سکتی تھی کیا۔۔۔

مٹھیاں بھینچیں، ہاتھوں سے بالوں کو کھینچا، دانت پیسے اور پھر ہاتھ مل لیے۔۔۔

صرف ایک ہی غصہ تھا کہ ٹرمپ صاحب نے آخر یہ کیا کیا؟

مسئلہ کشمیر سے متعلق سوال کے جواب میں خود ہی ہونٹوں کو گولائی میں لا کر مودی کو ’موڈی‘ بنا کر بتا ڈالا کہ موڈی نے مجھ سے خود ’ثالثی‘ کے لئے کہا ہے۔

معصومانہ سے انداز میں بقول ان کے سوال بھی پوچھا گیا کہ کہاں کی۔۔۔ جواب آیا ’کشمیر۔‘

ہائے رے معصومیت! یقین بھی کیا تو ٹرمپ صاحب پر، ہم کس قدر خوش تھے، وزیراعظم کے کامیاب امریکی دورے کی خوشیاں مناتے۔ کیوں نہ مناتے؟ آخر دنیا کے طاقتور ترین ملک کی طاقتور ترین شخصیت نے یقین دلایا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کی ثالثی کے لئے تیار ہیں۔

یہ دھوکا پہلی بار نہیں ہوا۔ حال ہی میں امریکہ کے دورے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں یہ بات کہی کہ اسامہ بن لادن کی اطلاع بھی ہمارے حساس ادارے نے امریکہ کو دی تھی اور امریکہ بہادر نے اچک لی۔

اس سے پہلے 1971 کی جنگ کے دوران بھی امریکی بحری بیڑہ وعدے کے باوجود بحیرہ عرب میں آ کے ہی نہیں دیا۔

اب کرنا کیا ہے؟ انڈیا نے جارحانہ قدم اُٹھا لیا، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے ریاست ہندوستان کی یونین ٹیریٹری بنا ڈالا۔

ہم جوابی کارروائی کے طور پر اسی او آئی سی سے رابطے میں ہیں جنھوں نے ماضی قریب میں پاکستان کی ’مبینہ‘ مخالفت کے باوجود انڈیا کی وزیر خارجہ کو خصوصی دعوت پر دبئی میں منعقدہ اسلامی ممالک کے اجلاس میں بلایا تھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ترکی ہماری محبت میں انڈیا کے ساتھ اربوں ڈالرز کی تجارت ختم کر دے گا یا ملائشیا انڈیا سے کُٹی کر لے گا؟

سعودی عرب ہماری ’محبتوں‘ کا جواب انڈیا سے سفارتی تعلقات ’خلاص‘ کر کے کرے گا یا متحدہ عرب امارات اور ایران ہمارے لیے نئی دہلی سے دشمنی مول لیں گے؟

اور تو اور، ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری دوستی والا چین سلامتی کونسل میں ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا یا نہیں؟

آرٹیکل 370

یہ بات تو طے ہے کہ انڈیا جتنی مرضی کاغذ کی کشتیاں دریا میں ڈال دے، کشمیر میں تحریک آزادی کی ناؤ تیرتی رہے گی۔ یہ جنگ اب شروع ہوئی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کے دعویدار انڈیا کے سب نظریاتی بُت اب ایک ایک کرکے دھڑام سے گر سکتے ہیں۔

مگر وقت آ گیا ہے کہ اپنی سفارتکاری کی خامیوں اور ریاستی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے۔ پاکستان کی پارلیمان ہی وہ جگہ ہے جہاں مشترکہ دانش کے ذریعے سے اپنی خارجہ اور معاشی پالیسیوں کو ترتیب دینا مناسب ہو گا۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس نتیجہ خیز بنانا ہو گا، صرف یہی نہیں حزب اختلاف کی جماعتوں کو بھی ریاستی پالیسیوں سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اور کیا ہی مناسب ہو کہ ایک اجلاس بلا ہی لیا جائے جس میں تمام قومی قیادت مل بیٹھے، ایک ساتھ فیصلے کرے تا کہ اتحاد کا ایک صفحہ تیار ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).