جہالت کسی کی میراث نہیں


\"husnainچودھویں صدی کے اوائل میں پرنٹنگ پریس اس دنیا میں آ چکا تھا۔ اسی پریس پر 1455 میں بائبل چھاپی گئی جس کی قیمت اس وقت کے حساب سے کافی زیادہ تھی لیکن اسے قبول عام حاصل ہوا۔ ہاتھ سے لکھے نسخوں کی نسبت اس کی قیمت پھر بھی بہت کم تھی۔ پندرھویں صدی کے وسط میں انگریز اسی پرنٹنگ پریس کو ہندوستان لے کر آئے تو باقاعدہ فتوے لگے کہ کافروں کی ان مشینوں پر ہم اپنی مقدس کتابیں نہیں چھاپیں گے بلکہ کچھ بھی نہیں چھاپیں گے، کسی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑا، سوائے ہمارے، ہم دو ڈھائی سو برس اسی بحث میں اڑے رہے اور اس چکر میں باقی دنیا ہم سے اتنی ہی آگے نکل گئی جتنی آج بھی ہے۔ ہماری زبان میں جدید علوم صحیح طریقے سے ترجمہ نہ ہو سکے، آج تک ہم آلہ مکبر الصوت اور آلہ مقیاس الحرارت کو بالترتیب لاؤڈ سپیکر اور تھرمامیٹر کا ترجمہ قرار دیتے ہیں اور بغلیں بجاتے ہیں۔ معاشیات کو کبھی اردو میں پڑھیں تو ٹھنڈے پسینے آنے شروع ہو جائیں گے، لا آف ڈائمینشنگ مارجینل یوٹیلیٹی ہمارے یہاں آ کر قانون تقلیل افادہ مختتم بن جاتا ہے اور پڑھنے والے کا دماغ وہیں بھک کر کے اڑ جاتا ہے۔

ہندوستان کے ایک بہت ہی مشہور اور سریلے گلوکار پورن چند وڈالی ہیں۔ انہیں پدما شری کا سرکاری اعزاز بھی مل چکا ہے۔ کیا ہی باغ و بہار طبیعت کے انسان ہیں۔ سر سنگیت کی تعریف فقیر سا انسان کیا کرے گا جس کو کسی قسم کا درک ہی نہیں، ایک بار سنیے تو جان جائیے گا۔ بات کرتے ہیں ان کے ایک انٹرویو کی جو انہوں نے کپل شرما صاحب کے پروگرام میں دیا۔ کہتے تھے کہ ان کے والد ان دونوں بھائیوں کو بچپن سے ہی سکھاتے آئے تھے کہ مائیک کے سامنے بیٹھ کر نہیں گانا، جب بھی گانا گاؤ، مائیک ہٹا کر اپنے گلے کے زور پر گانا۔ سادے لوگ تھے، محبتی تھے، ادب احترام والے تھے، کبھی سوال نہیں کیا کہ ابا جی مسئلہ کیا ہے، کیوں نہ گائیں مائیک کے آگے۔ ایک دن ابا جی نے انہیں خود ہی بتا دیا کہ مائیکرو فون جو ہے وہ دراصل شیطانی آلہ ہے اور وہ ایجاد ہی اس لیے ہوا ہے کہ ہر اچھے گائیک کی آواز کھا جائے۔ جو بھی اس کے آگے گائے گا آہستہ آہستہ اپنی آواز سے محروم ہو جائے گا اور سر بھی چھن جائیں گے۔ تو وڈالی جی نے مزے لے لے کر اس دن پروگرام میں یہ واقعہ سنایا اور یاد کرنے والوں نے اپنے یہاں کے حالات یاد کیے جب لاؤڈ سپیکر کی اذان پر نماز پڑھنا تک مکروہ ٹھہرایا جاتا تھا اور کہتے تھے کہ لاؤڈ سپیکر پر جب کوئی انسان بات کرتا ہے تو ساتھ شیطان کی آواز بھی شامل ہو جاتی ہے اس لیے اس پر اذان دینا حرام ہے۔ اب ماشاللہ اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کے ہر فیصلے میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے، کاش مولانا حضرات اس بات پر قائم رہ جاتے۔

امریکا اور روس چاند پر گئے تو دنیا بھر میں ایک گرم جوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کہا جانے لگا کہ چاند پر انسان کا یہ پہلا قدم ہے لیکن انسانیت کے لیے یہ ایک بہت بڑا قدم ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ اسی سب شور ہنگامے میں یورپ اور امریکہ کے اندر ایسے لوگ بھی موجود تھے جو کہتے تھے کہ بھئی یہ سب ڈرامے بازی ہے، کوئی چاند واند پر نہیں گیا، ایویں کسی بنجر جگہ پر جا کر ویڈیو شوٹ کر لی ہے اور ساتھ میں ایفیکٹس وغیرہ ڈال کر دونوں ملکوں نے پوری دنیا کو پیچھے لگایا ہوا ہے۔ آج بھی ایسے صاحبان بصیرت کافی تعداد میں موجود ہیں۔

ایک ہندوستانی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس میں قومی اسمبلی کا ایک سین کچھ ایسے دکھایا گیا کہ لوگ کسی علاقے میں ایک ڈیم اور بجلی کا پلانٹ بنانے پر بحث کر رہے ہیں۔ کافی غوروغوض کے بعد سب اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ ٹھیک ہے بھئی، فلاں علاقے میں ڈیم بنانے کے لیے اتنے دن کے اندر پیسے مختص کر دئیے جائیں گے تاکہ کام شروع کیا جا سکے۔ اتنی دیر میں ولن اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہیں اور پوری آواز سے گرج کر کہتے ہیں۔ \”ہمیں یہ ڈیم منظور نہیں، ہمیں خالص پانی چاہئیے، اس ڈیم کی وجہ سے ہمارے پانی میں سے تم لوگ بجلی نکال لو گے اور ہمیں خالی پیلی پانی دے دو گے، ہمیں خالص پانی چاہئیے، طاقتور پانی، بجلی والا، ایک دم خالص\”

تیرہ کے ہندسے کو یورپ میں اس قدر منحوس سمجھا جاتا ہے کہ آج بھی بعض ہوٹلوں میں بارہویں کے بعد کمرے کا نمبر سیدھا سیدھا چودھواں لکھا جاتا ہے۔ کالی بلی ادھر بھی برابر نحوست کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اگر پیر فقیر ادھر موج میں ہیں تو ادھر بھی پادریوں اور ربیوں کی موج ہے۔ ہر قسم کے توہمات اور ہر قسم کے عقائد اس دنیا کی رنگا رنگی میں اضافہ کرتے ہیں اور سوچنے والوں کو ایک جہان حیرت میں مبتلا کیے رکھتے ہیں کہ اچھا، وہاں تو اتنی ترقی ہو گئی، پھر بھی ایسا ہوتا ہے، وہاں بھی لوگ نو گیارہ کے واقعے کو ماننے سے انکاری ہیں، وہاں بھی خواتین کو ظلم وستم کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ بھئی سب کچھ ہوتا ہے، سب جگہ ہوتا ہے، کہیں کم ہوتا ہے کہیں زیادہ ہوتا ہے، جہاں زیادہ ہوتا ہے وہ لائم لائیٹ میں آتا ہے اور جہالت بہرحال کسی کی جدی پشتی میراث نہیں ہوتی، بلکہ یہ چار واقعات لکھنے کا مقصد ہی یہ مفروضہ قائم کرنا تھا کہ جہالت کسی کی آبائی میراث نہیں ہوتی۔

برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ میں آج ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ یہودیوں کے ایک فرقے نے خواتین کا گاڑی چلانا مذہبی نقطہ نظر سے حرام قرار دیا ہے نیز یہ کہ فلاں ماہ کے بعد جو بچے اور بچیاں فلاں تعلیمی ادارے میں اپنی والدہ کی ڈرائیوری میں تشریف لائیں گے انہیں سکول سے نکالنے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔ اس بیان پر وہاں سنجیدگی سے بحث کا آغاز ہو چکا ہے اور دل کھول کر اس کی مذمت کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہا گیا ہے کہ ہمیں اس بیان میں اور سعودی مفتیوں کی خواتین پر عائد کردہ ڈرائیونگ کی پابندی میں کوئی فرق نہیں لگتا، اصل میں دونوں ایک ہیں۔

اہل یورپ کے نزدیک مذہب اگر ہے تو مرد و خواتین کے لیے یکساں ہے۔ ایسی کوئی پابندی جو عورتوں کو ان کے جائز حقوق سے دور لے جانے کی بات کرے گی اس پر پورے شد و مد سے بحث کی جائے گی اور جلد یا بدیر مذہبی راہنماؤں کو قائل کر لیا جائے گا کہ میاں کوئی راستہ نکالیے ورنہ دکان بڑھانی پڑے گی۔ صحت مند معاشروں میں تنقید دشمنی نہیں سمجھی جاتی اور نہ ہی اس سے کسی فلسفے کا وجود خطرے میں پڑتا ہے، اور یہی بہاؤ زندگی کے تسلسل کی نشانی ہے۔ اس خبر میں ساتھ ساتھ مختلف سماجی شخصیات کے خیالات دئیے گئے ہیں جو مجموعی طور پر یہ تاثر دیتے ہیں کہ یہ ہفوات کسی وقتی لہر کا نتیجہ ہے اور جلد اس سے رجوع کر لیا جائے گا۔

خواتین کو یہ کہنا کہ بھئی آپ گھر سے باہر نہ نکلیں، گاڑی مت چلائیں، ساتھ میں کسی محرم کو رکھیں اور پھر کام پر جائیں، یہ سب باتیں ہم تو سن سکتے ہیں لیکن کسی صحت مند معاشرے میں اس پر وہی ردعمل آ سکتا تھا جو اس خبر پر آیا ہے۔ ہمارے یہاں تو ایک معزز ولائتی عالم دین کا بیان یہاں تک آیا کہ \”خواتین کے گاڑی چلانے سے برائی جنم لے گی اور کمزور ایمان والے پاگل افراد گاڑی چلانے والی خواتین کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔\”

انسان پوچھے کہ قبلہ و کعبہ، جو خاتون گاڑی نہیں چلاتیں کیا وہ برائی کو جنم دینے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتیں یا ان کے جملہ وسائل اس سلسلے میں جامد ہو جاتے ہیں؟ کیا برائی کی تحریک گاڑی کی حرکت سے ہی جنم لینے کی سزاوار ہے؟ اگر ایسا ہے تو تاریخ انسانی کے تمام جنسی معرکے شاید گاڑیوں کے بل پر ہی سر ہوئے ہوں گے اور ان سے پہلے تانگوں پر اور بہلیوں پر اور رتھوں پر رنگ رلیاں منائی جاتی ہوں گی۔ ویسے غور کیا جائے تو سارا قصور کم بخت پہیے کا نظر آتا آتا ہے۔ نہ پہیہ ایجاد ہوتا اور نہ کمزور ایمان والے پاگل افراد گاڑی چلاتی ہوئی خوب صورت خواتین کو دیکھ کر اپنے ممکنہ و مبینہ حواس کھو بیٹھتے اور نہ معزز راہنماؤں کو ایسے بیانات جاری کرنا پڑتے۔

دنیا اساطیری اوہام سے بہت اگے نکل چکی ہے، خواتین ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی نظر آتی ہیں۔ جدید ذہن انہیں یہ تمام \"husnain-jamal-family\"سہولیات ان کا حق سمجھ کر دیتا اور بجائے ان پر کسی قسم کا احسان جتانے کے اسے ایک طے شدہ امر جانتا ہے۔ اب چاہے عالم دین سعودی عرب کے ہوں، تبت سے ہوں، ایران کے ہوں یا یروشلم سے تعلق رکھتے ہوں، بات کریں گے تو اس کے نتائج و عواقب پر نظر رکھتے ہوئے ہی کریں گے، ورنہ وہی ہو گا جو آج انڈیپینڈنٹ نے ان یہودی علماء کے ساتھ کیا ہے۔

پس نوشت؛ کل فقیر کی چھوٹی بہن عملی زندگی میں اپنا پہلا قدم رکھیں گی۔ ان کی نوکری کا پہلا دن کل ہو گا۔ اپنا برا بھلا وہ بہ خوبی جانتی ہیں، والدین نے جو سکھانا تھا سکھا دیا۔ بجائے کوئی لمبا چوڑا ہدایت نامہ مرتب کرنے کے، فقیر جو ان سے بارہ برس قبل اس دنیا میں آیا، ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے اور یہ تحریر ان کے نام کرتا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments