مقبوضہ کشمیر: جذبات بھری خیالی دنیا سے باہر نکلیں


مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی جارحیت کا جواب جو مجموعی طور پر ہم نے آج دیا، اس کا لب لباب بس اتنا ہے کہ اگر بھارت نے ہمارے خلاف جارحیت کی یا حملہ کیا تو ہم اس کا جواب دیں گے اور اگر کمزور پڑے تو ایٹم بم چلانا پڑے گا۔ اس میں نیا کیا ہے؟

میں طنز نہیں کر رہا اور اندازہ رکھتا ہوں کہ کشمیر کے معاملے میں دنیا کا کوئی قابل ذکر ملک بھارت کو ناراض نہیں کرے گا اور ہماری، جو کشکول ہاتھ میں اٹھائے در در سے مدد کی خیرات مانگتے ہیں، حیثیت اتنی نہیں ہے کہ دنیا ہمارے لئے بھارت سے کٹ جائے۔ مجھے میڈیائی مخلوق کے ان میک اپ سے بھرے مجاہدوں پر حیرت ہے جو گلا پھاڑ کے سوال کرتے ہیں کہ پاکستان نے مودی کو اس کی اجازت کیسے دی یا وہ میک اپ زدہ جعلی چہروں اور لہجے کی مالک خواتین جن کو شاید یہ یاد بھی نہ ہو کہ پاکستان کے صوبوں کی تعداد کیا ہے، فرماتی ہیں کہ “وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اب مودی کو وہ سبق سکھائے کہ اسے یاد رہے۔”

کیا مودی پاکستان کی مدد سے اقتدار میں آیا تھا کہ وہ ہم سے اجازت لے یا پاکستان بھارت کو سبق سکھانے کے لئے خود کشی کر لے۔ آدھی سے زیادہ میڈیائی مخلوق کو کتابوں سے نفرت ہے، اخبارات سے نفرت ہے، تاریخ پڑھنے کو یہ لوگ گالی سمجھتے ہیں۔ عقل اور ہوش مندی کو یہ بد ترین دشمن سمجھتے ہوئے اس سے دور بھاگتے ہیں۔ یہ مناظرے کی دنیا کے لوگ ہیں، داستان گوئی کے یا پھر نچلی سطح کے جذبات فروش ہیں۔ میں قسم اٹھا سکتا ہوں کہ آدھی سے زیادہ چسکہ فروش میڈیائی مخلوق میں سے کسی نے بھی گزشتہ روز یا آج بھارتی اخبارات پڑھے ہوں یا بھارتی پارلیمنٹ کی آج کی کارروائی کو دیکھنے کی زحمت ہی کی ہو۔

ہر کوئی گلا پھاڑ پھاڑ کے بھارت کو سبق سکھانے کی بات کرتا ہے۔ او بھائی! خود کشی کے علاوہ کوئی اور طریقہ بھی بتا دو۔ ہماری وقعت اس دنیا میں بالکل اتنی ہی ہے جتنی کہ ہمارے پاسپورٹ کی قدر ہے اور وہ کتنی ہے، کیا بتانے کی ضرورت ہے؟

میں نریندر مودی کی بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے پر کیسے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے سر پرائیز دیا ہے جبکہ اس کی انتخابی مہم کے پارٹی منشور کا یہ حصہ تھا۔ اب خبریں سامنے آ چکیں ہیں کہ فروری میں باضابطہ طور پر امریکہ کو اس قدم سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ امریکی صدر نے جب محض دو ہفتوں میں دو مرتبہ کشمیر میں ثالثی کا ذکر کیا تھا اس کے پیچھے انفارمیشن تھی کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ پاکستانی سلامتی کی ذمہ دار ایجنسیوں کے کام سے ہلکی سے واقفیت رکھنے والا مان ہی نہیں سکتا کہ ان کو مودی کے اس قدم کا علم نہیں تھا۔ یقیناً وہ جانتے تھے مگر بات پھر وہی ہے کہ وہ کیا کرتے؟ شور مچاتے؟ وہ اب مچا لیں، کون روکتا ہے؟

وہاں بندے بھیج کر دھماکے کرواتے؟ اگر ایسا ہوتا تو ایف اے ٹی ایف سے ہمیں اس میڈیائی مخلوق نے بچانا تھا؟

میرا گمان ہے کہ شاہ محمود قریشی کا اس وقت سعودی عرب میں ہونا بھی صرف حج کی سعادت حاصل کرنا نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے کردار کو ذہن میں رکھیں تو سمجھ آجاتی ہے کہ پاکستان کا وزیر خارجہ اس وقت سعودی عرب میں کیوں بیٹھا ہے۔

باقی رہے او آئی سی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی تو جتنا کردار انہوں نے پہلے ادا کیا تھا اتنی ہی توقع اب بھی رکھ لیں۔ کسی کو شبہ نہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے اس کی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا، میں نوحے لکھوں تو عمر بیت جائے گی ظلم کی کہانیاں ختم نہیں ہوں گی، اب بھی ان پر ساری دنیا کے سامنے ظلم عظیم ہوا ہے، ان کے حقوق، زندگی، زمین اور آزادیِ پر ڈاکہ مارا گیا ہے۔ سوال مگر پھر وہی ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم جنگیں کر کے دیکھ چکے، آدھا ملک گنوا چکے، بھارت سے بہتر سال کسی تجارتی نفع کی بغیر، کسی طرح کے باہمی سماجی تعلقات کے بغیر گزارنے کے بعد بھی ہم کشمیر کا مسئلہ اپنے جائز موقف اور انصاف کے اصولوں پر کھڑے ہو کر نہیں حل کر سکے تو اب کیسے کریں۔ دنیا ہماری خواہش یا انصاف و عدل کے اصول پر چلتی تو جنت کہلاتی مگر یہ دنیا ہے۔

سچی بات ہے کہ ہمارے پاس ماضی میں ایک سے زیادہ بار اس مسئلے کو عزت سے حل کروانے کے مواقع چل کر آئے تھے مگر ہمیں عزت راس نہیں تھی۔ ہم تب کسی اونچے خیالی محل کے مکین تھے اور آج جب خیالات کا محل ٹوٹا اور سلگتی زمین سے پیر اس طرح جل رہے ہیں کہ کبھی ایک پیر اٹھاتے ہیں کبھی دوسرا، تو جا کر اب سمجھ آئی ہے کہ خواہشیں اکیلی کچھ نہیں ہوتیں۔ جو حال ہم نے اپنا کر لیا ہے اس سے بھارت فائدہ کیوں نہ اٹھاتا؟ اس سے باقی دنیا بھی فائدہ کیوں نہ اٹھائے؟ جو زبان ہمیں سمجھ آتی ہے اسی زبان میں ہم سے بات کی جا رہی ہےاور لطف یہ ہے کہ ہمیں وہی زبان بالکل درست سمجھ بھی آ رہی ہے۔

چند دن کا شور ہو گا، پھر مسئلہ کشمیر اپنے حل کی جانب چل پڑے گا، وہی حل جو اب تک بیک ڈور ڈپلومیسی میں زیر بحث رہتا تھا، بھارت اسے میدان میں لے آیا ہے۔ اتنا تو سب ہی جانتے ہیں کہ جو مسئلہ میدان جنگ میں نہیں جیتا جا سکتا وہ گفتگو سے کیونکر جیتا جائے گا۔

عزت مانگی نہیں، کمائی جاتی ہے۔ اسلام کے نام پر بنے ملک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ایک تعلیم کی دن رات مسلسل حکم عدولی کرتے ہوئے ہر طرح کی کرپشن کو جائز ماننے والے، اپنے مریضوں کی دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والے، اپنے بچوں کو سڑکوں کا بھکاری بنانے والے، اپنی اقلیتوں کو الزام لگا کر زندہ جلانے والے، ہر چڑھتے سورج کے پجاری اور جانے والے کو گالی دینے والے، ٹیکس ادا کرنے کو حماقت جاننے والے، بنکوں سے قرضہ معاف کروانے والوں کو وزیر بنانے والے، سیاسی لوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے اور جھوٹ کو رفعتیں دینے والے ہم لوگ جب سنجیدہ منہ بنا کر غیرت وغیرہ کی بات کرتے ہیں تو دنیا اس کا کیا جواب دے گی؟ وہی نا جو دے رہی ہے۔

غیرت رکھنے والی اقوام اور طرح کی ہوتی ہیں۔ عزت نام کی چیز سخت محنت، اپنی قوم کے ساتھ دیانت داری اور ہنر کے میدان میں نکتہ عروج حاصل کرنے کے بعد ملا کرتی ہیں۔ ہم جو یہ نہ طے کر پائے کہ آئین ٹھیک بھی ہے یا غلط ، آئینی یا قانونی حدود میں رہنا ہمارے لئے کمزوری اور توہین کی علامت بن چکا ہے۔ کوئی ادارہ اپنی حدود میں رہنے کو تیار نہیں، اور توقع یہ ہے کہ دنیا کو سبق سکھانے چلے ہیں۔ کشمیر کے نام پر کشمیر کمیٹی کے دورے بہت ہو گئے، اب کشمیریوں کو مزید جھوٹے خواب دکھانے سے بہتر ہے کہ وہاں امن کی ہر ممکن اور سنجیدہ کوشش کی جائے ۔ پاکستان مودی حکومت کے غیر معمولی قدم کو تسلیم کرنے کے بدلے میں اگر کشمیری عوام کو کچھ ریلیف دلوا سکتا ہے تو اسے لازماً ایسا کرنا چائیے۔ ابھی متحدہ عرب امارات کے بھارت میں سفیر کا بیان سامنے آیا ہے کہ ان کو امید ہے کہ کشمیر کی نئی صورتحال سے عوام کو ترقی اور خوشحالی مئیسر آئے گی۔ جذباتی دوست دوبارہ پڑھ لیں، افاقہ ہو گا۔ چین کی مذمت بھی روایتی ہے، امریکہ خاموش ہے البتہ ایلس ویلز اسلام آباد پہنچ چکیں ہیں۔

 اگر یہ قبول نہیں تو بھارت کو ایک ہفتے کا نوٹس دیں، ایٹم بم تیار رکھیں اور ایک ہفتے میں اگر بھارتی حکومت اپنا قدم واپس نہیں لیتی تو حملہ کر دیں ، خود بھی مٹ جائیں اسے بھی مٹا دیں، شہادت کی آرزو اگر سچی ہے تو اسے میدان جنگ میں ثابت کریں محض نغمے گانے سے کشمیر تو کیا کوئی ایک مکان بھی آزاد نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).